Topics
کہا جاتا ہے کہ زمین سے قوس و قزح کا فاصلہ تقریباً نو کروڑ میل کے فاصلے پر واقع
ہے۔ یعنی ہماری نظر میں اتنی وسعت ہے کہ ہم نوکروڑ میل دور دیکھ سکتے ہیں۔
مارچ
1978ء میں شائع شدہ کتاب ’’رنگ اور روشنی سے علاج‘‘ میں درج ہے کہ رنگ و نور کی جو
کرنیں سورج سے ہم تک منتقل ہوتی رہتی ہیں ان کا چھوٹے سے چھوٹا جزو Photonکہلاتا
ہے۔ فوٹون کا ایک وصف یہ ہے کہ اس میں اسپیس نہیں ہوتا۔ اس میں لمبائی، چوڑائی،
موٹائی نہیں ہے۔ اس لئے جب یہ کرنوں کی شکل میں پھیلتے ہیں تو ایک دوسرے سے ٹکراتے
نہیں نہ ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں۔ باالفاظ دیگر یہ جگہ نہیں روکتے۔ اس وقت تک جب
تک دوسرے رنگ سے نہ ٹکرائیں۔ آپ کیا سمجھے
روشنی اور رنگ (مکانیت) کیا ہے؟
فضاء
میں جس قدر عناصر موجود ہیں ان میں سے کسی عنصر سے فوٹان کا ٹکراؤ ہی اسے مکانیت
بناتا ہے۔ ہمیں یہ تو علم ہے کہ ہمارے کہکشانی نظام میں بہت سے سورج ہیں۔ وہ کہیں
نہ کہیں سے روشنی لاتے ہیں۔ ان کا درمیانی فاصلہ کم سے کم پانچ نوری سال بتایا
جاتا ہے۔ جہاں ان کی روشنیاں ٹکراتی ہیں۔ وہ روشنیاں مقداروں اور قسموں پر مشتمل
ہیں۔ وہ روشنیاں چونکہ قسموں اور مقداروں پر مشتمل ہیں اس لئے حلقے بنا دیتی ہیں۔
جیسے ہماری زمین اور سیارے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سورج سے یا کسی اور Starسے
جس کی تعداد ہمارے کہکشانی نظام میں دو کھرب بتائی جاتی ہے ۔ان کی روشنیاں اربوں،
کھربوں، سنکھوں پر مشتمل ہیں۔ جہاں ان کا ٹکراؤ ہوتا ہے وہیں ایک حلقہ بن جاتا ہے
جسے سیارہ کہتے ہیں۔
اسپیس
کے چھوٹے سے چھوٹے ذرے کو Electronکہتے
ہیں۔ جہاں الیکٹران اور فوٹان دونوں ٹکراتے ہیں وہیں سے نگاہ رنگ یا روشنی دیکھنا
شروع کر دیتی ہے۔ رنگ جب روشنی میں مظہر بنا تو طبیعات کا فلسفہ وجود میں آیا۔
طبیعات میں دلچسپی لینے والوں نے اکثر نظریہ اضافیت کے بارے میں پڑھا ہو گا او
رسنا ہو گا۔ عام طور پر اس کو مشکل نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کو سمجھنے میں جو مشکل
درپیش ہوتی ہے وہ نظریہ اضافیت کی وسعت ہے۔ نظریہ اضافیت کا خلاصہ یہ ہے۔
1۔
کائنات میں وقت اور فاصلے کی مطلق کوئی حیثیت نہیں ہے۔
2۔
کائنات لامحدود نہیں ہے۔
3۔کائنات
ٹیڑھی ہے جس طرح زمین ٹیڑھی ہے۔
4۔
سورج کی شعاعیں جس وقت کسی سیارے کے پاس سے گزرتی ہیں تو کشش ثقل کے باعث ٹیڑھی ہو
کر اس سیارے کی طرف مائل ہو جاتی ہیں۔
طالب
علم جب طبیعاتی نظریہ اضافیت سے گزر کر نظریۂ رنگ و نور کی اضافیت کی طرف متوجہ
ہوتا ہے تو وہاں اسے اربوں کھربوں دنیاؤں پر مشتمل کائناتیں نظر آتی ہیں۔
عظیم روحانی سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ اپنی
کتاب ‘‘لوح و قلم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’کائنات
کی دو سطحیں ہیں۔ اگر ہم ایک سطح کو کل ذات کہیں تو دوسری سطح کو یک ذات کہیں گے۔
کل ذات چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ذرات(چاند، سورج، مریخ وغیرہ) کا بسط (Base
Line) ہے یعنی چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بڑے سے بڑا کرہ
جن روشنیوں کا مجموعہ ہے، وہ ساری روشنیاں کل ذات کے اجزاء ہیں۔ اگر ہم ان روشنیوں
کو دیکھ سکیں تو یہ تصورات کی صورت میں نظر آئیں گی۔ یہی تصورات کل ذات Internal
Selfسے یک ذات Personal
Egoمیں منتقل ہوتے ہیں۔ ان کا منتقل ہونا کل ذات پر منحصر
ہے۔ کل ذات جن تصورات کو یک ذات کے سپرد کر دے، یک ذات انہیں قبول کرنے پر مجبور
ہے۔ گلاب کو کل ذات سے وہی تصورات منتقل ہوتے ہیں جو گلاب کی شکل و صورت میں تخلیق
پاتے ہیں اس طرح انسان کو بھی کل ذات سے وہی تصورات منتقل ہوتے ہیں جو انسانی شکل
و صورت کا مظہر ہیں۔ کل ذات انسان کا لا شعور ہے اور لاشعور ہی خود اپنے جسم کی
تخلیق کرتا ہے ۔عام زبان میں جس کو Matterکہا
جاتا ہے، وہ لاشعور کی مشین کا بنا ہوا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ خارج سے جو غذا
انسان کو ملتی ہے اس سے خون اور جسم بنتا ہے۔ یہ قیاس غلط ہے۔ دراصل انسان کا لا
شعور تصورات کو روشنی سے مادے کی صورت میں بدل ڈالتا ہے۔ یہی مادہ جسمانی خدوخال
اور شکل و صورت میں متعارف ہوتا ہے۔ جب لاشعور(کل ذات) کسی وجہ سے تصورات کو مادے
میں منتقل کرنے کا اہتمام نہیں کرتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔‘‘
یک
ذات اور کل ذات کے درمیان روشنی ایک پردہ ہے۔ اس روشنی کے ذریعے کل ذات کے تصورات
یک ذات کو وصول ہوتے ہیں۔ کل ذات جو اطلاعات یک ذات کو دیتی ہے ان اطلاعات کو
روشنی رنگ وروپ اور ابعا ددے کر یک ذات تک پہنچاتی ہے۔
زمان
و مکان دو چیزیں نہیں ہیں۔ روشنی سے ملنے والی اطلاعات کی جو سطح نظر سے اوجھل ہے
اس کا نام زمان Timeہے
اور جو سطح نظر کے سامنے ہے اس کا نام مکان Spaceہے۔
اگرچہ
کائنات کی بناوٹ بہت زیادہ پیچیدہ نہیں مگر فکر انسانی نامانوس ہونے کی وجہ سے اس
کو پیچیدہ سمجھتی ہے۔
لاتناہیت کے عالم سے تمام کہکشانی نظاموں کو ادراک تقسیم ہوتا ہے۔ یہ ادراک لاشمار
لمحات سے گزرتا ہے۔ یہی لمحات کہکشانی نظاموں کی شکل و صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
جب ہم نظریہ اضافیت میں زمانیت اور مکانیت کا تذکرہ کرتے ہیں تو دراصل ان ہی لمحات
کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ لمحہ کیا ہے؟ یہ لمحہ ایک نقطہ ہے اور اس نقطہ میں ہی ساری
کائنات بند ہے۔ نقطہ کا کھلنا یا نقطہ کی حرکت ادراک ہے۔ ادراک ہی ہمیں زمانیت اور
مکانیت سے آزاد کر دیتا ہے اور ادراک ہی مکانیت اور زمانیت میں بند کرتا ہے۔
کائنات کے ادراک میں حرکت ہوتی ہے۔ خود لاتناہیت میں حرکت نہیں ہوتی یہ حرکت ایک
یونٹ ہے۔ اس یونٹ کی دو سطحیں ہیں ایک کا نام زمان ہے اور دوسری سطح کا نام مکان ہے۔ زمان کائنات کی Baseاور
مکان کائنات کے خدوخال ہیں۔
جو
قومیں نظام کائنات میں تفکر کرتی ہیں ان کے اوپر ترقی کی راہیں کھل جاتی ہیں۔
موجودہ دور میں سائنس اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ اگر ترقی پذیر قوم سائنسدانوں کی
صف میں شامل ہو کر سائنسی ایجادات کرنا چاہے تو سائنس دان سیکڑوں سال اور آگے بڑھ
جائیں گے۔
زمان
و مکان کی پابندیوں سے آزاد ہونے کے لئے من حیث القوم ترقی پذیر اقوام کو انبیاء
کی طرز فکر کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔
تمام
آسمانی کتابوں میں کائنات سے متعلق سائنسی علوم موجود ہیں۔ اگر ہم الہامی کتابوں
پر تفکر کریں تو بہت کم عرصہ میں موجودہ سائنس دانوں پر سبقت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس
وقت سائنس کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ زماں کی نفی کر کے زیادہ سے زیادہ
رفتار پر کنٹرول حاصل کر لیا جائے۔ الہامی کتابوں میں زمان کی نفی Timelessnessکا
فارمولا موجود ہے۔ تفکر کے ساتھ جب ہم آخری الہامی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم
دیکھ لیتے ہیں کہ یہ ساری کائنات روشنی ہے۔ موجودہ دور کا سائنسدان اس مقام تک
پہنچ گیا ہے۔ اس نے معلوم کر لیا ہے کہ زمین پر ہر چیز روشنی کے غلاف میں بند ہے۔
انسان کے اوپر بھی روشنی کا ایک غلاف ہے جس کو سائنسی اصطلاح میں Auraکہا
جارہا ہے۔ Kirlian Photographyکے
ذریعے سائنسدان اورا کے Shadowکا
فوٹو لینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اگر ترقی پذیر اقوام آخری الہامی کتاب میں ملکہ
صبا کے قصہ پر غور کریں اور علم الکتاب سیکھ لیں تو زمان و مکان کو اپنی مرضی کے
مطابق استعمال کرنے پر قدرت حاصل کر سکتی ہیں۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی
سائنسی دنیانےجوعلمی اورانقلابی ایجادات کی ہیں ان ایجادات میں فزکس اورسائیکولوجی سےآگےپیراسائیکولوجی کاعلم ہے ۔روحانیت دراصل تفکر،فہم اورارتکازکےفارمولوں کی دستاویزہے ۔
عظیمی صاحب نے اس کتاب میں طبیعات اورنفسیات سےہٹ کران ایجنسیوں کاتذکرہ کیاہےجوکائنات کی مشترک سطح میں عمل پیرا ہیں اورکائنات کےقوانین عمل کااحاطہ کرتی ہیں اوراس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسان کائنات کی تخلیق میں کام کرنےوالےفارمولوں سےکہاںتک واقف ہے ۔ یہ فارمولےاسکی دسترس میں ہیں یانہیں اور ہیں توکس حدتک ہیں ۔ انسان کےلئےانکی افادیت کیاہےاوران سےآگاہی حاصل کرکےوہ کسطرح زندگی کوخوشگواراورکامیاب بناسکتاہے ۔