Topics

ہماری زمین

جب ہم اپنی زمین، چاند، سورج، کہکشانی نظام اور کائنات کی ساخت پر غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ اس قدر منظم اور مربوط نظام کو چلانے والی کوئی ہستی ضرور ہے۔ کائنات میں ممتاز مقام رکھنے والی مخلوق، انسان کی ساخت پر جب تفکر کیا جاتا ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ سب کچھ ایک عظیم ہستی کی زیر نگرانی ہو رہا ہے اور یہ عظیم ہستی اللہ تعالیٰ ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پیدائش کے بعد لڑکپن اور جوانی میں داخل ہو کر ہمارے اوپر بڑھاپا آ جاتا ہے اور پھر ہم اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ کوئی آدمی یہ نہیں چاہتا کہ وہ بوڑھا ہو لیکن وہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ کوئی بندہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے اوپر موت وارد ہو لیکن دنیا میں ایک بھی مثال موجود نہیں ہے کہ آدمی موت سے نجات حاصل کر لے۔

وہ لوگ جو اس عظیم ہستی اللہ تعالیٰ کا اقرار نہیں کرتے وہ زندگی کی اس شکست و ریخت کا ذمہ دار نیچر (Nature) کو قرار دیتے ہیں اور جو لوگ اس مخفی طاقت کا اقرار کرتے ہیں وہ اس ہستی کو مختلف ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ کوئی بھگوان کہتا ہے، کوئی اس لازوال ہستی کا نام Godرکھ لیتا ہے، کسی صحیفے میں اسے یزدان کے نام سے پکارا گیا ہے، ایل اور ایلیا کے ناموں سے بھی یہ ہستی متعارف ہے۔ نام کچھ بھی ہوبہرحال ہم یہ ماننے اور یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ ہمیں ایک عظیم طاقت اور لامتناہی اور لازوال ہستی سنبھالے ہوئے ہے۔ چاند، سورج، زمین آسمان اور سب پر اس کی حکمرانی ہے۔

کچھ لوگ جو اس لامتناہی طاقت کا انکار کرتے ہیں ان کے انکار میں بھی اقرار کا پہلو نمایاں ہے۔ اس لئے کہ جب تک کوئی چیز موجود نہیں ہو گی اس کا انکار زیر بحث نہیں آئے گا۔ جب کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے تو انکار اور اقرار دونوں زائد باتیں ہیں۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بندہ اپنی دانست میں غیر متعارف ہستی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو اس کا ذہن انکار کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ یہ دراصل شعور کا تعطل اور کمزوری ہے اور یہ ناقص اور کمزور شعور کی دلیل ہے۔

کہکشانی نظام

موجودہ سائنس کی دنیا کہکشانی اور شمسی نظاموں سے اچھی طرح واقف ہے۔ کہکشانی اور شمسی نظاموں سے ہماری زمین کا کیا تعلق ہے اور یہ روشنی انسان، حیوانات، نباتات، جمادات پر کیا اثر کرتی ہے یہ مرحلہ بھی سائنس کے سامنے آ چکا ہے لیکن ابھی تک سائنس اس بات سے پوری طرح باخبر نہیں ہے کہ شمسی نظاموں کی روشنی انسان کے اندر نباتات کے اندر جمادات کے اندر کس طرح اور کیا عمل کرتی ہے؟ اور اس کس طرح جانوروں، نباتات اور جمادات کی کیفیات میں تغیر ہوتا رہتا ہے؟

سائنس کا عقیدہ یہ ہے کہ زمین پر موجود ہر شئے کی بنیاد یا قیام لہر پر ہے۔ ایسی لہر جس کو روشنی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ لہر اور روشنی کیا ہے؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:

God Said Light and There Was Light

اسی بات کو قرآن نے ’’اللہ نورالسمٰوات والارض‘‘ کہہ کر بیان کیا ہے۔

یعنی لہر یا روشنی اور زمین و آسمان کی بساط نور مطلق پر قائم ہے۔ جب یہ ساری کائنات بشمول انسان حیوانات، نباتات، جمادات روشنیوں اور لہروں پر قائم ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ موجودات دراصل اللہ تعالیٰ کے نور کا مظاہرہ ہے۔

اس مضمون میں انسان اور انسانی خصائل اور صفات پر روشنی ڈالنا ہمارے پیش نظر ہے۔

پانچ حواس

انسان حواس کا مجموعہ ہے۔ عام حالات میں ان حواس کو پانچ نام دیئے گئے ہیں۔

۱۔ سننا

۲۔ دیکھنا

۳۔ چکھنا

۴۔ سونگھنا

۵۔ چھونا

ان پانچ حواس سے ہر شخص واقف ہے۔ ذی فہم اور عقلمند آدمی یہ بھی سوچتے ہیں کہ حواس خمسہ یعنی پانچ حواس کس بنیاد پر رواں دواں ہیں؟

زمین پر ہر موجود شئے کی بنیاد لہر (روشنی) ہے۔ اس لہر یا روشنی کا نام مذہب نے روح رکھا ہے۔ ہمارا روزانہ کا مشاہدہ ہے کہ جب تک روح کسی مادی وجود میں موجود رہتی ہے اس وجود میں حرکت رہتی ہے اور جب روح مادی وجود سے اپنا رشتہ منقطع کر لیتی ہے  وجود بکھر کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔

تمام مذاہب ہمیں اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ ہم یہ جان لیں کہ اصل انسان کیا ہے؟ وہ کہاں سے آ کر اپنے لئے جسم بناتا ہے اور پھر جب اس لباس کو اتار کر پھینک دیتا ہے تو کہاں چلا جاتا ہے؟

اس بات سے واقف ہونے کے لئے تمام مذاہب نے قواعد و ضوابط مرتب کئے ہیں اور اس کو بہت آسان طریقہ سے بیان کیا ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے!

’’میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں میں وہی پیغام لے کر آیا ہوں جو مجھ سے پہلے میرے بھائی پیغمبروں کے ذریعہ نشر ہو چکا ہے۔‘‘

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے آدمی کو انسان سے متعارف کرنے کے لئے بہت اہم اور نہایت مختصر فارمولے بیان فرمائے ہیں تا کہ نوع انسانی خود آگہی حاصل کر کے اصل انسان سے متعارف ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’پھر اس کو نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور تم کو کان دیئے، آنکھیں دیں اور دل دیئے۔‘‘

(سورۃ السجدہ۔ آیت۹)

اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:

’’یہ لوگ آپﷺ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپﷺ کہہ دیجئے روح میرے رب کے امر سے ہے۔‘‘

(سورۃ بنی اسرائیل۔ آیت ۸۵)

امر کی تعریف سورہ یٰسین کی آخری آیات میں بیان کی گئی ہے۔

اس کا امر یہ ہے کہ

’’جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘

(سورۃ یٰس۔ آیت ۸۲)

آدمی جسمانی اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ اس کے اندر روح ڈال دی گئی اور اسے حواس مل گئے۔ روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے اور اللہ تعالیٰ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اور کہتا ہے ’’ہو‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔

انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ دیکھ کر افسوس اور دکھ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ صرف انسان ہمیشہ مضطرب، بدحال، غمگین، خوفزدہ اور پریشان رہا ہے۔

ڈر، خوف اور عدم تحفظ اس زمانے میں بہت زیادہ اور کبھی کم ہوتا ہےلیکن رہتا ضرور ہے۔ جیسے جیسے انسان کی دلچسپیاں مادی وجود میں زیادہ ہوتی ہیں اسی مناسبت سے وہ اصل انسان اور روشنیوں سے دور ہو جاتا ہے۔ اصل انسان اور روشنیوں کے انسان سے دوری کا نام ہی اضطراب، بے چینی، درماندگی اور پریشانی ہے۔ آج کے دور میں جس قدر عدم تحفظ کا احساس اور ذہنی کشمکش، اعصابی تناؤ اور بے یقینی بڑھ گئی ہے اس کا اندازہ ہر شخص کو ہے اس سے محفوظ رہنے اور پرسکون زندگی گزارنے کا طریقہ اگر کوئی ہے تو یہ ہے کہ آدمی اصل انسان سے تعارف حاصل کرے۔ جب ہم اصل انسان سے متعارف ہو جائیں گے تو ہم لہروں، روشنیوں کی پرمسرت ٹھنڈ میں خود کو محفوظ دیکھیں گے۔

قانون

ہر وہ آدمی جس میں عقل کارفرما ہے یہ جانتا ہے کہ کائنات اور ہماری دنیا ایک قاعدہ، ضابطہ اور قانون کے تحت قائم ہے اور یہ قانون اور ضابطہ ایسا مضبوط اور مستحکم ہے کہ کائنات میں موجود کوئی شئے اس ضابطہ اور قاعدہ سے ایک انچ کے ہزارویں حصہ میں بھی اپنا رشتہ منقطع نہیں کر سکتی۔

زمین اپنی مخصوص رفتار سے محوری اور طولانی گردش کر رہی ہے اپنے مدار پر حرکت کرنے کے لئے ایک رفتار مقرر ہے اس میں کبھی ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا۔ پانی کا بہنا، بخارات بن کر اڑنا، پانی کے شدید ٹکراؤ سے اس کے مالیکیول کا ٹوٹنا اور بجلی کا پیدا ہونا، بجلی کا ماحول کو منور کرنا، حرارت کا وجود میں آنا اور ہر شئے کا دوسری شئے پر کسی نہ کسی صورت میں اثر انداز ہونا یہ سب ایک مقررہ قاعدہ اور قانون کے تحت ہے۔

جب ہم خالق کائنات کے ارشاد کے مطابق اپنی زمین کے ماحول پر تفکر کرتے ہیں تو ہم اس بات سے واقف ہو جاتے ہیں کہ جمادات، نباتات اور حیوانات کی پیدائش بڑھنا، پھیلنا، نشوونما پا کر بارآور ہونا سب ایک قانون اور ضابطہ کے مطابق ہے۔ اسی قانون اور ضابطہ کے مطابق سب پیدا ہوتے ہیں۔ گھٹتے ہیں، بڑھتے ہیں۔ جیتے اور مرتے ہیں۔ یہی قانون انسان پر بھی عائد ہوتا ہے انسان کی پیدائش بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپے پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ ایک مخفی طاقت (قدرت) ہے جو سرگرم عمل ہے۔

اس قانون کے مطابق پیدائش عمل میں آتی ہے اور اس ہی نوعی قانون کے مطابق زندگی قائم رہتی ہے۔

قدرِ مشترک

روزانہ کا مشاہدہ ہے کہ ہر نوع جذبات و احساسات میں نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے متعارف ہے بلکہ زندگی کو قائم رکھنے والے قاعدے بھی یکساں ہیں اور ان تقاضوں کو پورا کرنے کا طریقہ بھی یکساں ہے مثلاً ایک عمل ہے پیاس لگنا۔ نوعی اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تقاضہ سب میں موجود ہے اور سب اس تقاضے کو پانی پی کر پورا کرتے ہیں۔

جمادات، حیوانات، نباتات سب کو پانی کی ضرورت ہے یعنی پیاس کا تقاضہ پورا کرنے میں مخلوق قدر مشترک رکھتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ آدمی پانی سے پیاس کا تقاضہ پورا کرے، درخت، حشرات الارض اور حیوانات پانی کے بجائے آگ کی تپش سے اپنی پیاس بجھاتے ہوں۔ یہاں شعور بھی زیر بحث آ جاتا ہے کہ انسان بذات خود یہ کہتا ہے کہ میں بہت زیادہ عقلمند ہوں۔ اشرف المخلوقات ہوں اور جب ہم انسان کا دوسری نوع کے جذبات و احساسات، کیفیات، واردات کا موازنہ کرتے ہیں تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ مخلوق ایک ہی صف میں کھڑی ہے۔

نسل کشی کے لئے اگر آدمی کے اندر جنس موجود ہے تو یہی جنس جانوروں میں بھی نظر آتی ہے۔ ماں کی محبت نوع انسانی کے اندر موجود ہے تو یہ شفقت بلی، کتے، بکری، چوہے ہر نوع کے اندر موجود ہے۔

قانون

ہر نوع کے افراد پانی کو پانی سمجھتے ہیں۔ پانی کو پانی سمجھنے کے لئے ضروری نہیں کہ پانی کو چھوا جائے پانی کو صرف دیکھنا اس بات کی ضمانت ہے کہ پانی ہے حالانکہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پانی کی نمی نے ہمارے دماغ کو بھگویا نہیں لیکن ہم پانی کو دیکھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ پانی ہے۔

جس طرح آدمی پانی کو پانی سمجھتا ہے اسی طرح ایک بکری بھی پانی کو پانی ہی سمجھتی ہے۔ بیان یہ کرنا مقصود ہے کہ یہ ساری کائنات ایک قانون اور ضابطہ کی پابند ہے جب یہ طے ہو گیا کہ ’’قانون‘‘ جاری و ساری اور نافذ ہے۔ جب یہ کائنات چل رہی ہے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قانون کو چلانے والی کوئی ہستی موجود ہے اور یہ اصل ہستی وہ عظیم و بابرکت ذات ہے جس کو نہ صرف انسان بلکہ ہر مخلوق اپنا خالق کہتی ہے۔ اس عظیم و برتر ہستی نے کائنات کو قائم رکھنے کے لئے اور کائنات میں نئے نئے شگوفے کھلانے کے لئے جو ضابطہ بنا دیا ہے وہ ضابطہ اپنی جگہ اٹل ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جو مخلوق جس کام کے لئے بنا دی گئی ہے وہ اس پر عمل پیرا ہے۔

مثلاً آنکھ دیکھتی ہے، ناک سونگھتی ہے اور کان سنتے ہیں۔ ہم کانوں سے دیکھتے نہیں ہیں۔ آنکھوں سے سنتے نہیں ہیں۔ یہ قانون ہے جس کی بندش میں بڑے بڑے ستارے، سیارے، زمین، آسمان اور آسمانی مخلوق اور تمام مخلوق ایک دوسرے سے ہم رشتہ ہے سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار ہیں اور ان کی ہر جنبش اللہ تعالیٰ کے قانون کے تحت ہوتی ہے۔

خالق کائنات کا بنایا ہوا یہی قانون ہمیں اس راز سے آشنا کرتا ہے کہ کائنات میں موجود تمام نوعوں میں ایک نوع ایسی ہے جس کو خالق کائنات نے اس قانون سے باخبر کر دیا ہے۔ اس قانون سے باخبر ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان کائنات پر غور و فکر کرے۔ قدرت کی تفویض کردہ ڈیوٹی پوری کرے۔

اس غور و تفکر کے نتیجے میں انسان کے اوپر یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ گوشت پوست کا جسم اصل انسان نہیں بلکہ اصل انسان کا لباس ہے۔ جب یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ فی الواقعہ گوشت پوست کا جسم اصل انسان نہیں ہے تو اس کے اندر فکر سلیم متحرک ہو جاتی ہے اور انسان اس بات کی تلاش میں مصروف ہو جاتا ہے کہ اپنی اصل سے واقف ہو جائے۔

اصل سے واقف ہونے کے لئے قانون اور ضابطہ مقرر ہے اور یہ قوانین اور ضابطے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں منتقل ہوئے ہیں۔ پیغمبران کرامؑ نے ہمیں اس بات کا شعور عطا کیا ہے کہ ہم اپنی عقل و فکر کو استعمال کریں۔ اور اپنے آپ کو حیوانات سے ممتاز کریں۔

یہ بات محل نظر ہے کہ غار حرا کی زندگی سے پیشترحضرت محمد رسول اللہﷺ پر قرآن نازل نہیں ہوا تھا، نہ نماز اور روزہ فرض کیا گیا تھا۔ غار حرا کی زندگی ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے پیغمبر علیہ السلام کے نقش قدم پر چل کر ایسے طریقے اختیار کریں جس سے ہمارے اندر یہ بات مشاہدہ بن جائے کہ انسان کی صلاحیتیں محدود نہیں ہیں۔ اور انسان اگر چاہے تو زمان و مکان کی گرفت سے آزاد ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں قرآن پاک میں تفکر کرنا ہو گا اور قرآن پاک کے معنی اور مفہوم پر توجہ دینا ہو گی۔ اور سیدنا حضورﷺ کی غار حرا والی سنت پر عمل کرنا ہو گا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے!

’’اور بے شک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا پس کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟‘‘

(سوۃ القمر۔ آیت ۱۷،۲۲،۳۲،۴۰)

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔