Topics

لیکچر4 ۔ من کی دنیا


مورخہ یکم مارچ 2001 ؁ء بروز جمعرات

 


دنیا میں سماوات ہیں، زمین ہے، پہاڑ ہیں، صحرا ہیں، نخلستان ہیں، باغات ہیں، دریا ہیں، سمندر ہیں، جھیلیں ہیں، درخت ہیں، قسم قسم کے پھول ہیں، تتلیاں ہیں، معدنیات ہیں، چوپائے ہیں، حشرات الارض ہیں، پرندے ہیں، جواہرات ہیں، دنیا میں موجود ہر شئے کا اپنا نام ہے۔

بتایا یہ جاتا ہے کہ زمین پر گیارہ ہزار مخلوقات آباد ہیں۔ سانپ کی بے شمار قسمیں ہیں، ان کے بھی نام ہیں۔ چرند پرند ہیں ان کے بھی نام ہیں، حشرات الارض کے بھی نام ہیں، درندے ہیں، سمندر میں بے شمار مخلوقات ہیں اور Sea Foodبھی ہے، پودے ہیں، غار ہیں سب کے نام ہیں۔

یہ ایک معمہ ہے کہ گیارہ ہزار مخلوقات کے نام کس نے رکھے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ ان چیزوں کے نام کب رکھے گئے؟

آدم علیہ السلام کے زمانے میں رکھے گئے یا آدم علیہ السلام  کے زمین پر آنے سے پہلے رکھے گئے؟ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا ان سب چیزوں کے نام انسان نے رکھے ہیں؟ کیا انسان ان سب کے نام جانتا ہے؟

ایک چھوٹا بچہ جس کو ابھی بولنا نہیں آتا، آپ اس کے سامنے ہنسیں تو وہ خوش ہو گا اور آپ اس کو غصہ سے دیکھیں تو وہ رونے لگے گا۔
سوال طلب بات یہ ہے کہ بچہ کیا سمجھا؟

کیوں رویا اور کیوں ہنسا؟

انسان دراصل ایک آئینہ ہے وہ ہر چیز کو اپنے آئینے میں دیکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب مر جاتا ہے تو کیوں نہیں دیکھتا؟
اس لئے نہیں دیکھتا کہ مادی جسم مر گیا۔

جتنی بھی مخلوق ہے وہ شعور رکھتی ہے۔ آپ درخت کو پانی نہ دیں تو وہ سوکھ جائے گا۔ اسی طرح آپ انسان کو پانی نہ دیں تو وہ مر جائے گا۔ جس طرح انسان بچے پیدا کرتا ہے اسی طرح پہاڑ کے بھی بچے ہوتے ہیں اور تمام مخلوقات کے بچے ہوتے ہیں۔
ہم گائے کو دیکھ کر کیسے سمجھتے ہیں کہ یہ گائے ہے۔ دراصل گائے خود یہ شعور رکھتی ہے کہ وہ گائے ہے، انا خبر دیتی ہے کہ یہ گائے ہے، یہ بھینس ہے، یہا ہرن ہے، یہ شیر ہے، یہ پرندے ہیں اور زمین کے اوپر اور زمین کے اندر حشرات الارض ہیں۔ دریا میں مچھلیاں ہیں اور سمندر میں سمندری مخلوق ہیں۔

ہر مخلوق کے اندر جذبات ہیں مخلوق روتی ہے، مخلوق ہنستی ہے۔ خوش ہوتی ہے۔ مخلوق بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔ چڑیا بچوں کو چوگا (غلط العام چونگا) دیتی ہے۔ پرندے پوٹا میں دانے جمع کر کے اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ اپنے بچوں کو چاٹ کر نہلاتے ہیں اور ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں۔

بولنے والے کے خیالات کا عکس آپ کے اندر آئینے پر آ جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مخاطب Messageسمجھتا ہے۔ آواز کی لہریں ایک دوسرے میں منتقل ہو رہی ہیں۔ باہر کچھ نہیں ہے، سب کچھ اندر ہے آدمی اندر میں بولتا ہے، اندر دیکھتا ہے اور اندر ہی سنتا ہے۔

مرنے کے بعد آدمی نہ بولتا ہے اور نہ حرکت کرتا ہے۔ یہ حال ہر مخلوق کا ہے۔ جب کوئی شئے، شئے کو دیکھتی ہے تو اپنی انا میں دیکھتی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا ہے۔۔۔

انسان جب قانون سے واقف ہو جاتا ہے تو اس کی ترقی ہوتی ہے اور انسان کائنات میں بولی جانے والی زبان (Languages) کو سمجھ سکتا ہے۔ ظاہری گفتگو کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ مسلسل خیالات آنے کی طرز ہے۔ قانون یہ ہے کہ جو خیالات آتے ہیں آدمی کا (Inner) اس کا مادری زبان میں ترجمہ کرتا ہے۔

انسان کو آباو اجداد کا ذہن منتقل ہو رہا ہے۔ آپ نے انگریزی بولی تو دماغ اس کا ترجمہ اردو میں سمجھ کر معنی پہناتا ہے۔ ایک نابینا آدمی دیوار کو چھوتا ہے یا درخت کو پکڑتا ہے تو وہ کیسے پہچانتا ہے کہ یہ درخت ہے، یہ دیوار ہے۔ دراصل وہ اپنے اندر (Inner) میں دیکھتا ہے اور جان لیتا ہے یہ درخت ہے۔

ہمیں غور کرنا چاہئے کہ ہمارے ارد گرد موجود اشیاء کی حقیقت کیا ہے؟

حضرت سلیمان علیہ السلام ہوا کو حکم دیتے تھے، پرندوں سے باتیں کرتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہد ہد پرندے سے پیغام رسانی کا کام لیا ہے، وہ چیونٹی سے بھی باتیں کرتے تھے، جنات ان کی خدمت پر معمور تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام برگزیدہ پیغمبر ہیں وہ فرشتوں سے بھی باتیں کرتے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہَوا، چیونٹی، پرندے اور تمام حشرات الارض شعور رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعے میں بے شمار حقائق بیان کئے ہیں۔

’’یہاں تک کہ چیونٹیوں کے میدان میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا چیونٹیوں اپنے بلوں میں  گھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا لشکر تم کو روند ڈالے۔‘‘(سورۃ النمل۔ آیت۱۸)


Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔