Topics

لیکچر15 ۔ انا کی لہریں


مورخہ 11اپریل2001 ؁ء بروز بدھ

 


سوال:

 انا یا تفکر کی لہروں سے کیا مراد ہے؟ انا کی لہریں خیالات میں کس طرح تبدیل ہو جاتی ہیں؟ اور ان کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

جواب:

 حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ

’’انا سے مراد روح اور روح کی صلاحیتیں ہیں۔‘‘

انا کا مطلب طرز فکر ہے۔ طرز فکر دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک مثبت طرز فکر اور دوسری منفی۔ مثبت طرز فکر روحانی صلاحیتیں پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے۔ اس کے برعکس منفی طرز فکر تخریب کا باعث بنتی ہے۔

قانون یہ ہے کہ اچھا یا برا جو کچھ ہو رہا ہے خیال کے بغیر ممکن نہیں۔ جب بندہ اپنی ذات میں تفکر کرتا ہے تو وہ روح اور روح کی صلاحیتوں سے واقف ہوجاتا ہے۔

عام مشاہدہ ہے کہ ٹیوب لائٹ یا پنکھا بجلی کے بغیر نہیں چلتا۔ ہم غور کریں کہ بجلی کہاں سے آ رہی ہے تو معلوم ہو جائے گا کہ میٹر سے آ رہی ہے۔ میٹر میں کھمبے سے، کھمبے میں PMTسے، PMTمیں Transformerسے، Transformerمیں پاور ہاؤس سے، اور پاور ہاؤس میں Turbineسے۔ یہ Turbineپانی سے (یا کسی بھی ذریعہ سے) گھومتی ہے۔ Turbineمیں مقناطیس لگا ہوا ہوتا ہے۔ مقناطیس سے لہریں نکلتی ہیں۔

غور کیا جائے کہ خیال کہاں سے آ رہا ہے تو روحانی علوم انکشاف کرتے ہیں کہ خیال لوح محفوظ سے آ رہا ہے۔ ہم مزید غور کریں کہ لوح محفوظ کیا ہے تو ہمارے سامنے ایسے ایسے حقائق آئینگے جس سے ہمارا ذہن اس حقیقت کو تلاش کر لے گا جس حقیقت پر کائنات کا قیام ہے۔

اگر ہم انا کی لہروں میں تفکر کریں تو یہ جان لیتے ہیں کہ خیال کیا ہے؟ خیال کہاں سے آتا ہے اور خیالات کا میکنزم کیا ہے؟
(عظیمی صاحب نے لیکچر کے دوران لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا)

ہر سال آپ سب لوگ دور دور سے اپنا گھر، اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے عرس میں آتے ہیں۔
آپ سب کیوں آتے ہیں؟

یہاں اس لئے تشریف لاتے ہیں کہ یہاں آنے سے ماحول تبدیل ہو جاتا ہے۔ سکون ملتا ہے اور آپ کا ذہن یکسو ہو جاتا ہے، خوش اور مطمئن ہوتے ہیں اور خیالات میں مثبت تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔

ہم سب کو چاہئے کہ سیرت نبویﷺ کا مطالعہ کریں۔ نماز قائم کریں۔ سلسلہ کے اسباق پڑھیں اور کائنات میں تفکرکریں۔


Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔