Topics
سوال
انگوٹھی میں نگینہ پہننے سے انسانی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
جواب
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
’’اللہ تعالیٰ سماوات اور زمین کا نور ہے۔‘‘(سورۃ النور۔ آیت ۳۵)
اس آیت میں نور کی پوری تشریح کی گئی ہے۔
آیت مقدسہ کی تشریح کے پیش نظر آسمان اور زمین روشنی ہے یعنی آسمان اور زمین میں موجود ہر شئے کا قیام نور (روشنی) پر ہے۔ کائنات میں کوئی ذرہ ایسا نہیں ہے جو روشنی کے ہالے سے باہر ہو۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔۔۔
’’کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔ اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں۔‘‘(سورۃ الحجر۔ آیت ۲۱)
روشنی کی یہ الگ الگ مقداریں انفرادیت پیدا کرتی ہیں۔ روشنی جب دماغ پر نزول کر کے بکھرتی ہے تو اس میں رنگ پیدا ہو جاتے ہیں۔ رنگوں کی یہ لہریں تخلیق میں وولٹیج (Voltage) کا کام کرتی ہیں۔ کوئی انسان سنکھیا کھا کر اس لئے مر جاتا ہے کہ سنکھیا کے اندر کام کرنے والے برقی نظام کا وولٹیج (Voltage) انسان کے اندر کام کرنے والے وولٹیج (Voltage) سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔
نگینہ یا پتھر کے اندر بھی روشنی دور کرتی ہے۔ اگر کسی انسان کی روشنیاں اور پتھر کی روشنیاں باہم مطابقت رکھتی ہیں تو جواہرات انسان کے لئے مفید ہوتے ہیں۔ جواہرات کی روشنیاں اور انسان کے اندر دور کرنے والی روشنیاں باہم دیگر مل کر ایک طاقت بن جاتی ہیں۔ پتھر (جواہرات) میں کام کرنیوالی روشنیاں براہ راست دماغ کو تقویت دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انسان کی بہت سی چھپی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ کوئی محلول جسم پر لگانے سے کھال جل جاتی ہے اور کوئی دوسری چیز جسم پر ملنے سے ہمیں راحت ملتی ہے۔ بات یہ ہے کہ جب ہمارے جسم پر کوئی چیز رکھی جاتی ہے تو ہمارا ہاتھ کسی چیز سے چھوتا ہے تو اس چیز کے اندر کام کرنے والی لہریں ہمارے دماغ کو متاثر کرتی ہیں۔
یہی صورت نگینہ اور پتھر کی ہے۔ انگوٹھی میں کوئی نگینہ یا پتھر انگلی میں ہوتا ہے تو جواہرات کے اندر کام کرنے والی روشنیاں دماغ کو متاثر کرتی ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔