Topics
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں دو علوم کا تذکرہ ہوا ہے۔ ایک علم وہ ہے جہاں بندہ اپنے ارادہ اور اختیار سے کچھ نہیں کرتا۔ اور ایک علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کیا ہے۔
اس واقعہ کی روشنی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذہنی استعداد اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ہر بات کو شریعت کے دائرے میں سمجھیں اور بحیثیت رسول اس پر احتساب کریں۔
ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ نے کس قدر عجیب اور انوکھی بات کی ہے کہ کشتی کا تختہ نکال دیا تا کہ اس میں بیٹھے ہوئے لوگ ڈوب جائیں۔ دوسرے مقام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غصہ کا اظہار فرما کر ارشاد کیا۔ یہ آپ نے کیسی عجیب بات کی ہے کہ آپ نے ایک معصوم کو قتل کر دیا۔ تیسرے مرحلے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی ضرورت کے پیش نظر فرمایا کہ اگر اجرت طے کر لیتے تو کھانے کا بندوبست ہو جاتا۔
بندے نے ابتداء ہی میں یہ کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ نہیں ٹھہر سکیں گے اور آپ ٹھہر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ آپ ان باتوں کی سمجھ نہیں رکھتے۔ وہ بندہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنی مرضی سے نہیں کیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت کیا ہے۔
قانون
اس واقعہ سے عرفان نفس کے قانون کا انکشاف ہوتا ہے۔
۱۔ ساری کائنات مخلوق ہے، خالق کائنات نے مخلوق میں ایسے افراد تخلیق کیے ہیں جو کائناتی نظام کو چلاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی نشانیوں (آیات) میں تفکر کر کے بندہ اس منزل تک پہنچ جاتا ہے جہاں وہ دیکھ لیتا ہے کہ کائنات میں ہر موجود شئے ایک رشتہ میں بندھی ہوئی ہے اور یہ رشتہ خالق کائنات سے مسلسل ربط میں ہے۔
رشتہ کا تسلسل اور ربط اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس رشتہ کو تلاش کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی قانون اور عمل کرنے کا پروگرام ضروری ہے۔
یہ قانون شریعت اور طریقت چونکہ بذات خود پروگرام ہیں اس لئے کہ انسان شریعت اور طریقت کی حدود میں رہ کر خود کو پہچان سکتا ہے۔
کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ یعنی انسان خود کو پہچان کر صفت خالقیت سے متعارف ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کی طرز فکر آزاد نہیں ہے وہ ہر کام محدود اور پابند طرز فکر کے تحت انجام دیتا ہے۔ بااختیار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی صفات کا عارف انسان یہ جانتا ہے کہ ہر بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
۲۔ دوسری طرز فکر آزاد ہے یعنی اس طرز فکر میں کوئی انسان اپنا عرفان نفس اس طرح کرتا ہے کہ۔۔۔
میری تخلیق میں اور کائنات کی تخلیق میں کون سے فارمولے سرگرم عمل ہیں۔ اس آزاد طرز فکر میں انسان اس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ خالق کائنات نے مخلوق کو کن اقدار کے تحت تخلیق کیا ہے۔ چاند سورج اور اربوں کھربوں کہکشانی نظام کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی کونسی صفت کام کر رہی ہے اور اس صفت میں اللہ تعالیٰ کی کونسی مشیت ہے جس نے تخلیق کو قیام بخشا ہے اور اس مشیت میں خالق کائنات کا کونسا ارادہ فیکون ہوا ہے۔ اس مرد آزاد کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص علم (علم لدنی) کے ذریعہ بتایا ہے کہ کائنات کس طرح مسخر ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔