Topics

لیکچر3۔ سانس کی مشقیں

مورخہ 8فروری2001 ؁ء بروز بدھ


ہر انسان، ہر ذی روح اور وہ تمام مخلوق جن کو ذی روح نہیں سمجھا جاتا سانس اندر لیتے ہیں اور باہر نکالتے ہیں۔ جسمانی زندگی کا دارومدار سانس کے اوپر ہے۔ جب تک سانس ہے جسم میں حرکت ہے، نشوونما ہے، جسم جوان ہوتا ہے اور جسم بوڑھا ہوتا ہے۔ سانس کی آمد و شد نہ ہو تو ہر ذی روح مر جاتا ہے۔

سانس کی موجودگی میں آدمی بڑھتا، گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ ایک دن کے بچے کی زندگی بھی سانس کے اوپر قائم ہے اور سو سال کا بوڑھا بھی اگر زندہ ہے تو سانس کے آنے اور جانے سے زندہ ہے۔ بزرگوں کا فرمان ہے۔۔۔

’’سانس ہے تو جہان ہے۔‘‘

میرا، آپ کا اور ساری دنیا کا تجربہ ہے کہ سانس کی آمد و شد ہے تو آدمی زندہ ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔۔۔

’’جس مخلوق کو غیر ذی روح کہا جاتا ہے وہ بھی سانس لیتی ہے۔ جس طرح ذی روح کے اندر حرکت ، عقل اور شعور ہے غیر ذی روح سمجھنے والی مخلوق میں بھی عقل و شعور ہوتا ہے۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر مخلوق ذی روح ہے۔ دنیا میں تین مخلوق آباد ہیں۔

۱) حیوانات

۲) نباتات

۳) جمادات

جس طرح حیوانات بشمول آدمی اور چڑیا، ہاتھی، اونٹ، بکری، گائے وغیرہ پیدا ہوتے ہیں، نشوونما پاتے ہیں اور عمر پوری ہونے کے بعد اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اسی طرح نباتات اور جمادات بھی پیدا ہوتے ہیں اور زمین پر سے غائب ہو جاتے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔

’’ہم نے اپنی امانت سماوات کو زمین کو اور پہاڑوں کو پیش کی سب نے کہا ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے اور انسان نے اس امانت کو اٹھا لیا۔ بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔‘‘(سورۃ الاحزاب۔ آیت ۷۲)

ہم جب زندگی کا تذکرہ کرتے ہیں اور زندگی کے ماہ و سال کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ زندگی دراصل سانس کا آنا جانا ہے۔ سانس کی آمد و شد ختم ہو جاتی ہے تو آدمی اور دنیا کی ہر شئے مردہ ہو جاتی ہے۔ مردہ ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر، جمادات کے اندر، نباتات کے اندر حرکت ختم ہو جاتی ہے۔

ایک آدمی ہے وہ چلتا پھرتا ہے، حرکت کرتا ہے، دوڑتا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے، باتیں کرتا ہے، محسوس کرتا ہے، گرمی سردی سے متاثر ہوتا ہے، اسے بھوک لگتی ہے، وہ پانی پیتا ہے جسم پر چوٹ محسوس کرتا ہے لیکن اگر وہ مر جاتا ہے تو وہ کچھ محسوس نہیں کرتا، نہ وہ روتا ہے، نہ وہ ہنستا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی مزاحمت کرتا ہے۔

یہ سب کس طرح ہوا۔۔۔؟

اس کا جواب یہ ہے کہ جسم کے اندر انرجی اور توانائی ختم ہو گئی۔ جو اعضاء محسوس کرنے کا ذریعہ ہیں وہ بھی موجود ہیں۔ معدہ موجود ہے، پیٹ موجود ہے لیکن بھوک نہیں لگتی اور آدمی چنے کے برابر غذا نہیں کھاتا۔ اس لئے کہ سانس کا نظام معطل ہو جاتا ہے۔

جب تک نظام تنفس برقرار رہتا ہے، زندگی قائم رہتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ زندگی میں اگر سانس کا نظام ختم ہو جائے تو موت وارد ہو جاتی ہے۔

ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ زندگی کا دارومدار سانس کے اوپر ہے۔ ہر شئے سانس اندر لیتی ہے اور سانس باہر نکالتی ہے۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ جب ہم سانس اندر لیتے ہیں تو ہمارے اندر آکسیجن داخل ہوتی ہے اور وہ جل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ بن جاتی ہے۔ جب ہم سانس باہر نکالتے ہیں تو کاربن ڈائی آکسائیڈ باہر آتی ہے۔

یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ماں کے پیٹ میں شروع ہوتا ہے اور جب انسان اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور مادی جسمانی نظام بکھر کر غائب ہو جاتا ہے۔ مشقوں کے ذریعے سانس پر کنٹرول حاصل ہو جائے تو آدمی وہ کام کر لیتا ہے جو بظاہر ممکن نہیں۔ مشق کے ذریعے سانس پر کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے۔۔۔

منہ بند کر کے ناک سے سانس لیں اورگول منہ کھول کر سانس باہر نکال دیں۔ جس وقت سانس کی مشق کی جائے توجہ دل کی طرف رکھیں۔

جب سانس کی مشق کی جائے تو ایسی جگہ بیٹھیں جہاں شور نہ ہو اور گرد و غبار نہ ہو پیٹ خالی ہو۔ آلتی پالتی مار کر بیٹھیں گردن اور کمر سیدھی ہو، یعنی تن کر نہ بیٹھیں، جسم میں کھنچاؤ نہ ہو۔

مشق اس طرح کی جائے۔۔۔

گھڑی دیکھ کر ناک سے ۲۰ سیکنڈ تک سانس اندر لیں اور سانس گول منہ کھول کر باہر نکال دیں۔ ایک مہینہ تک مشق روزانہ گیارہ مرتبہ کریں۔

اس کے بعد وقت ۲۰ سیکنڈ سے بڑھا کر۰ ۴سیکنڈ کر دیں اور یہ مشق بتدریج ایک منٹ تک کریں۔ ۳۰ سیکنڈ تک سانس اندر لیں اور ایک منٹ تک روکیں اور ۳۰ سیکنڈ تک خارج کریں۔ جلد بازی سے کام نہ لیا جائے۔ ضروری ہے کہ مشق سے پہلے استاد کا انتخاب کریں جو خود سانس کی مشق کا تجربہ رکھتا ہو اور مشقوں کے نتائج سے باخبر ہو۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔