Topics

روحانی اسکول میں تربیت

سلسلۂ عظیمیہ کی جب بنیاد رکھی گئی، حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھ سے ارشاد فرمایا تھا خواجہ صاحب آپ کو سلسلہ کی تعلیمات کو دنیا میں پھیلانا ہے۔ سلسلہ کی تعلیم کو عام کرنا ہے۔

اس وقت میرے ذہن میں صرف یہ بات تھی کہ سلسلے کے سربراہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ دستار فضیلت اور گدی نشینی کے آداب سے واقف ہو، اونچی جگہ بیٹھنے والا بندہ ہو۔ اس کے آگے پیچھے بہت سارے لوگ ہوں، جو لوگ سامنے ہوں وہ سرنگوں ہوں اور جو لوگ بیٹھے ہوئے ہوں ان کے اندر اتنی جرأت نہ ہو کہ وہ آنکھ اٹھا کر مرشد کے چہرے کو دیکھ سکیں۔ مرشد کی خلوت اور جلوت میں مریدین کا کوئی حق نہ ہو۔

مقصد یہ ہے کہ میرے ذہن میں سلسلے کے بڑوں کے لئے ایک ماورائی ہستی کا تصور تھا۔ یہ بات ذہن میں نہیں تھی کہ مرشد اندر سے روشن ہوتا ہے اور یہ بات اس لئے ذہن میں نہیں تھی کہ زندگی میں کبھی سنا ہی نہیں تھا کہ انسان کی اصل زندگی باطنی زندگی ہے اور ظاہر زندگی مفروضہ اور فکشن ہے۔

میں نے یہ سب کچھ سوچ کر حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے عرض کیا!

آپ نے ایسی عجیب بات فرمائی ہے کہ جس کا تصور بھی میرے ذہن میں نہیں ابھرتا۔ اس لئے کہ اگر روحانی استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اچھا مقرر ہو تو تقریر کرنا مجھے نہیں آتی۔ مرشد کے لئے ضروری ہے کہ اسے لکھنا آتا ہو تو لکھنا بھی مجھے نہیں آتا، مرشد کے لئے ضروری ہے کہ اس کی معلومات عام لوگوں کی معلومات سے زیادہ ہوں تو میں نے اسکول میں پہلی جماعت بھی نہیں پڑھی۔

مرشد کو روحانی پرواز حاصل ہو تو میں اس تجربے سے نہیں گزرا۔ میں جس ماحول میں پیدا ہوا، میں نے جس ماحول میں نشوونما پائی وہاں روح کا تصور مجھے نہیں ملا۔ میں اس حقیقت سے نہ آشنا ہوں کہ مادی جسم کے علاوہ روحانی جسم بھی ہوتا ہے؟

میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جب یہ معروضات پیش کیں تو قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا!

قانون یہ ہے کہ!

’’جب اللہ تعالیٰ کسی کو نوازنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتے کہ آدمی میں کتنی صلاحیت اور کتنی سکت ہے؟ اور آدمی کتنا کام کر سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی اپنی ایک عادت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو نوازتے ہیں تو بندے کے اندر از خود تمام صلاحیتیں بیدار اور متحرک ہو جاتی ہیں۔ وہ اگر گونگا ہے تو بولنا شروع کر دیتا ہے، بہرہ ہے تو سننے لگتا ہے۔ اس کے اندر قوت پرواز نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بال و پر عطا فرما دیتے ہیں۔ اگر وہ بدصورت ہے تو لوگوں کو وہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ اگر اس کا تکلم اچھا نہیں ہے تو اس کے تکلم میں ایسی شیرینی اور حلاوت اللہ تعالیٰ داخل کر دیتے ہیں کہ سننے والے اس کے تکلم کا انتظار کرتے ہیں۔ زمین پر بسنے والوں اور آسمانوں میں رہنے والوں کے لئے اس کا لہجہ تاثیر بن جاتا ہے۔ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے سنتے ہیں۔ اس کے چہرے پر انوار و تجلیات کی ایک ایسی چادر تن جاتی ہے کہ لوگ اسے والہانہ دیکھتے رہتے ہیں۔ جبکہ وہ نہیں سمجھتے کہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے معاملات ہیں۔ آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ میں یہ نہیں کر سکتا، میں وہ نہیں کر سکتا۔ آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ڈیوٹی لگ گئی ہے راضی برضا ہو کر اللہ تعالیٰ کے راستے پر قدم بڑھا د یں۔‘‘

مرشد کریم نے توجہ سے، تصرف سے، گفتگو سے، علم سے، قربت سے، میری تربیت فرمائی اور تربیت کا محور یہ قرار پایا کہ صدیوں پرانی خاندانی روایات کو ختم کر کے نئی روایات، نئے Traditionمیں زندگی گزارنی ہے۔ اور نئی روایات یہ ہیں کہ انسان جو بھی کچھ کرے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ جو عمل کرے اس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی شامل ہو۔ اپنی ذات کا عمل دخل نہ ہو۔

صدیوں پرانے شعور نے اس بات کو برداشت نہیں کیا اور صدیوں پرانی روایات نے بغاوت کر دی اور جنگ شروع ہو گئی۔ ظاہر اور باطن کی اس لڑائی نے بے جان اور نڈھال کر دیا۔ شعور نے مزاحمت کی۔ جب مزاحمت بڑھ گئی تو تکالیف کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ احساس تکلیف ختم ہو گیا تو ایک دن مرشد کریم نے سامنے بٹھا کر فرمایا کہ زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔

کچھ بننے کے بھی دو طریقے ہیں۔

کسی سے کچھ حاصل کرنے کے بھی دو طریقے ہیں اور کسی کو کچھ دینے کے لئے بھی دو طریقے ہیں۔

اور وہ دو طریقے یہ ہیں کہ انسان کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسروں سے اپنی بات منوا سکے۔ انسان کے اندر اتنی صلاحیت ہو کہ وہ دوسروں کو اپنا ہم ذہن بنا سکے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ صدیوں پرانی منفی روایات کو دفن کر سکے۔ حقیقی اور مثبت روایات کو جاری و ساری رکھنے کے لئے ساری دنیا کا مقابلہ کرنے کی جرأت اور ہمت ہو۔

با اختیار بے اختیار زندگی

اس طریقے کو دنیا والے Independentہونا کہتے ہیں۔ خود مختار زندگی کہتے ہیں یعنی آپ جو چاہتے ہیں دوسروں سے منوا لیں۔ جو آپ خود ہیں دوسروں کو بنا دیں۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی نفی کر دیں یعنی Independentزندگی کو داغ مفارقت دے کر Dependentہو جائیں۔ اور خود کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں سیاہ سفید جو ہو سب اللہ تعالیٰ کے اوپر چھوڑ دیں۔

یاد رکھئے!

تخلیق کا قانون یہ ہے!

اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے وہ فطرت Independentنہیں ہے۔ آپ کی ساخت ہی اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ آپ Dependentہو کر زندگی گزار سکتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ Independentیا خود مختار زندگی سے آپ کنارہ کش ہو جائیں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں۔ آپ کے اندر یہ صلاحیت نہیں ہے کہ آپ کسی کو اپنا بنا لیں۔ آپ کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ آپ دوسرے کے بن جائیں۔

تین سال کا بچہ

میں نے غور و فکر کیا سوچا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ خود مختار زندگی سے مجھے نجات عطا فرما دے اور پابند زندگی Dependentزندگی مجھے عطا کر دے۔ اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور اس کے بھروسے پر میری سمجھ میں آ گئی کہ جب روحانی استاد موجود ہیں اور جب یہ بات تسلیم ہے کہ مرشد کو ہی سب کچھ بنانا ہے تو تین سال کے بچے کی طرح خود کو استاد کے سپرد کر دینا چاہئے۔

میں نے سوچا کہ! مجھے تو یہ علم بھی نہیں ہے کہ علم کیا ہے؟

یہ بھی پتا نہیں کہ میں کہاں سے آیا ہوں؟

میں یہ بھی نہیں جانتا کہ کہاں جانا ہے؟

اس کا سراغ نہیں ملتا کہ زندگی کیا ہے؟

سانس کہاں سے آ رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے؟

فکشن کیا ہے۔۔۔۔۔۔مفروضہ کیا ہے اور حقیقت کیا ہے؟

بہرحال یہ بات میں نے طے کر لی کہ مجھے اب Independentزندگی نہیں گزارنی جو کچھ کہا جائے گا اس پر عمل کروں گا۔ بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے تعمیل کروں گا۔

مرید کی تربیت

تربیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایسی ایسی باتیں سامنے آئیں جن باتوں کو شعور نے قبول نہیں کیا۔ شعور کے اوپر ایسی ضرب پڑی کہ انسان اس تکلیف کا ادراک تو کر سکتا ہے۔ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ذہن نے مزاحمت کی۔ شعور نے کہا یہ بات غلط ہے۔ شعور کی مزاحمت اور جنگ میں بہت مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ میرے کندھوں پر وزن پڑتا تھا اور بسا اوقات اس وزن کا احساس ٹنوں کے وزن سے ہوتا تھا جیسے کئی ٹن وزن کی سلیں کندھوں پر رکھی ہوں۔ اس ناقابل برداشت بوجھ سے میں راستہ چلتے رک جاتا تھا۔ وزن اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ میں کھڑے کھڑے بیٹھ جاتا تھا اور باوجود ہمت اور کوشش کے کھڑا نہیں ہو سکتا تھا یعنی Physicallyیہ محسوس ہوتا تھا کہ بہت زیادہ وزن کندھوں پر رکھا ہوا ہے۔ کئی مرتبہ یہ ہوتا تھا کہ مرشد نے ایک بات آسمان کی فرمائی اور شعور نے اسے زمینی حواس سے سمجھنا چاہا اور جب بات سمجھ میں نہیں آتی تھی تو خود کشی کو دل چاہتا تھا۔ کپڑے پھاڑ دیتا تھا، کبھی کبھی دل چاہتا تھا کہ اونچی بلڈنگ سے چھلانگ لگا دوں۔ چھت ٹوٹ کر میرے اوپر آ گرے۔ کبھی دل چاہتا تھا کہ سمندر میں کود جاؤں اور غر ق آب ہو جاؤں۔ بیزاری، اذیت اور تکلیف کا غلبہ تھا جس کے بارے میں کسی سے تذکرہ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس لئے کہ کوئی ہمراز نہیں تھا۔ اذیت، تکلیف اور آلام کا یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا رہا۔ تکلیف کے احساس سے شعور خوگر ہوتا رہا۔ کبھی کھانے کی تکلیف، کبھی پہننے کی تکلیف، کبھی نیند نہ آنے کی تکلیف، کبھی منفی خیالات کا دباؤ، کبھی شیطانی وسوسوں کا زور، کبھی صفت رحمٰن کا غلبہ، کبھی شیطان کا غلبہ، مسائل و مصائب، دکھ درد، اذیت اور اضطراب کا یہ سلسلہ دس سال تک جاری رہا۔ زندگی میں خوشی اور غم دونوں متوازی ہوتے ہیں۔ خوشی کے بغیر غم نہیں ہوتا اور غم کے بغیر خوشی نہیں ہوتی لیکن ان دس سالوں میں شاید دس ہفتے خوشی کے ہوں۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب آدمی کسی اذیت سے گزرتا ہے تو اذیت کا دور خوشی کے لمحات میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے لفظ نہیں ہیں کہ غم کا تاثر پوری طرح قائم ہو جائے۔ ایک آدمی اگر پریشان ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی پریشانی دور فرما دی تو پریشانی دور ہو جاتی ہے تو اس پریشانی کو بیان تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کا تاثر قائم نہیں ہوتا۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔