Topics
جماعت قریش نے ہر طرف یہ منادی کرائی کہ مسلمانوں کو زندہ پکڑ لانے پر انعام دیا جائے گا۔ایک مسلمان قیدی کے لئے اتنا زیادہ انعام مقرر کیا گیا کہ مشرکین مسلمانوں کی کھوج میں لگ گئے۔
تیس (۳۰) افراد پر مشتمل ایک جماعت تبلیغ دین کے لئے جاتے ہوئے ان لوگوں کے نرغے میں آگئی ۔اغوا کرنے والوں نے مسلمانوں کو زندہ پکڑنا چاہا لیکن دو بدو جنگ ہوئی۔ ۳۰ افراد میں سے تین افراد زندہ بچے۔ بدوی لٹیرے ان تینوں کوگرفتار کر کے مکہ لے جانے لگے تو ان میں سے ایک کسی طرح بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ صحرائی لٹیروں نے اس کا تعاقب کیا اور دوبارہ پکڑنا چاہا لیکن جب زندہ پکڑنے میں ناکام ہوگئے تو ان سفاک ظالموں نے ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے صحرا میں پھینک دیا۔ یہ لٹیرے باقی دو مسلمانوں کو باندھ کر مکہ لے آئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ مکہ سے سارے اشراف ان دونوں کو حاصل کرنے کے لئے اتنے بیقرار ہیں کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔صحرائی لٹیروں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو انعام لینے کے بجائے دونوں مسلمانوں کو نیلام کرنے کا فیصلہ کر لیا تا کہ زیادہ سے زیادہ رقم مل جائے۔سب سے زیادہ بولی لگانے والا شخص صفون بن امیہ تھا۔ جو ابو سفیان کے بعد مکہ کا سب سے بڑا سردار مانا جاتا تھا۔ اس نے ایک مسلمان حضرت عمر بن ثابتؓ کو خرید لیا۔
جبکہ دوسرے مسلمان کو مکہ کے ایک اور سرکردہ شخص نے بھاری قیمت دے کر خرید لیا۔ اہل مکہ نے جب یہ دیکھا کہ دو مالدار لوگ دو مسلمانوں کو خرید کر اپنے طور قتل کر کے انتقام کی آگ بجھانا چاہتے ہیں تو انہوں نے احتجاج کیا کہ ہم نے بھی مسلمانوں کے ہاتھوں اذیت اٹھائی ہے۔ بدر و اُحد میں ہمارے عزیز و اقرباء بھی قتل ہوئے ہیں ۔ ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ان دو مسلمانوں کو مرتے اور تڑپتے دیکھیں۔تجویز پیش کی گئی کہ ان دونوں کو مکہ کے بڑے میدان میں قتل کیا جائے۔ صفوان بن اُمیہ نے کہا کہ میں نے اس مسلمان کے لئے بھاری رقم ادا کی ہے۔ لہٰذا مرنے کے بعد اس کے سر کی بولی لگاؤں گا تا کہ جو بھی چاہے اس کے سر کو خرید لے اور اس کاسۂ سر کو پانی پینے کے لئے استعمال کرے۔جس شخص نے سب سے زیادہ قیمت لگائی تھی جب وہ تن سر سے جدا کرنے کے لئے جنازے کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ حضرت عمیر شہید کے جسم پر سنہرے رنگ کی بے شمار بھڑیں جمع ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دوسری بھڑیں جنازے کے اردگرد منڈلا رہی ہیں۔حضرت عمیرؓ کا سر خریدنے والا سنہری بھڑوں کی فوج دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا اس نے اپنے دل میں کہا کہ رات کو یہ بھڑیں چلی جائیں گی تو سر کاٹ کر لے جاؤں گا۔لیکن غروب آفتاب کے بعد سیاہی پھیلی اور موسلا دھار بارش برسنے لگی۔ بارش اتنی زیادہ برسی کہ سیلاب آگیا۔ نہیں معلوم کس مقام پر پانی حضر ت عمیرؓ کی لاش کو بہا کر لے گیا۔
اس وقت کے سنگدل اہل مکہ دوسرے مسلمان کو شہر سے باہر لے گئے اور اسے مصلوب کر دیا۔
سن ۶۲۵ء جون کے مہینے (۳ ھجری) میں چالیس افراد پر مشتمل مسلمانوں کا ایک دستہ مدینہ سے تبلیغ دین کے لئے روانہ ہوا اور ’’
معونہ‘‘ نامی کنویں کے پاس کفار نے ان پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں نے آخری دم تک مزاحمت کی اور سب کے سب شہید ہو گئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔