Topics
محمد الرسول اللہ علیہ ا لصلوٰۃ والسلام نے اس دنیا میں جب آنکھ کھولی تو ان کے والد حضرت عبد اللہ اس جہاں سے رخصت ہو چکے تھے۔حضرت عبداللہ شادی کے کچھ عرصہ بعد ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے واپسی میں یثرب کے مقام پر بیما ر ہوئے اور عالم جوانی میں وہیں انتقال کر گئے۔ ان کے انتقال کے دو ماہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پیدا ہوئے۔
۱۲ ربیع الاول بروز دوشنبہ بمطابق ۲۰ اگست ۵۷۰ء حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت باسعادت ہوئی۔ (۹ ربیع الاول بروز دو شنبہ ۲۲ اپریل ۵۷۱ء بھی حضورؐ کی تاریخُ پیدائش روایت کی گئی ہے)۔ آپ کی والدہ حضرت آمنہ نے اپنے بیٹے کی پیدائش کی خبر اپنے سسر عبدالمطلب کو بھیجی جو طواف کعبہ میں مصروف تھے۔عبدالمطلب گھر آئے اور حضورؐ کو خانہ کعبہ میں لے آئے اور اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کے فتنہ و شر سے محفوظ رکھنے کی دعا کی۔ عبدالمطلب نے آپ کا نام ’’محمد ؐ ‘‘ رکھا۔
جب آپؐ دنیا میں آئے تو سر زمینِ عرب سرسبزوشاداب ہو گئی۔ درخت پھلوں سے جھک گئے۔ مکہ میں خوشحالی آ گئی۔اسی سال اصحاب الفیل کا واقعہ پیش آیا تھا۔ جب ابراھہ اور اس کی ساٹھ ہزار فوج اور ۱۳ ہاتھی سنگریزوں کی بارش سے کھائے ہوئے بُھس میں تبدیل ہو گئے۔
ولادت کے وقت زلزلہ آیا اور کسریٰ شہنشاہِ فارس کے محل کے چودہ کنگرے گر پڑے۔ آتش کدۂ فارس میں صدیوں سے روشن آگ بجھ گئی۔
حضورؐ نے تین دن تک اپنی ماں کا دودھ پیا پھر ثوبیہ کا دودھ پیا۔ دو سال پہلے ثوبیہ نے آنحضرت ؐکے چچا حمزہؓ کو بھی دودھ پلایا تھا۔ یہ وہ خوش قسمت خاتون تھیں جنہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پیدائش کی خبر ابولہب کو سنائی تو ابولہب نے انہیں آزاد کر دیا۔
عربوں میں رواج تھا کہ پرورش کے لیے کم سن بچوں کو دیہات میں بھیج دیتے تھے۔ دیہاتوں میں رہنے والی عرب عورتیں سال کے مختلف حصوں میں مکہ آتی تھیں اور شیر خوار بچوں کو پرورش کرنے کے لئے صحرا میں لے جاتی تھیں۔ قبیلہ بنوسعد بن بکر کی عورتوں نے دوسرے بچوں کو گود لیا اور حضرت حلیمہ نے محمدؐ کو سینے سے لگایا۔ ابتدئی عمر کے چار سال آپؐ نے بنو سعد میں دائی حلیمہ کی رضاعت کے زیرسایہ گزارے۔ رضاعت سے فارغ ہو کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی والدہ کے پاس آ گئے۔ جب آپؐ چھ سال کے ہوئے تو حضرت آمنہ اپنے خاوند کے مزار کی زیارت کے لئے یثرب تشریف لے گئیں۔ اس سفر میں اُم ایمن بھی ہمراہ تھیں ۔ حضرت آمنہ ایک ماہ تک یثرب میں مقیم رہیں۔ وہاں روز بروز ان کی صحت خراب ہو گئی اور مکہ واپس آتے وقت سفر میں ابواء کے مقام پر ان کا انتقال ہو گیا۔اُم ایمن محمد الرسول اللہﷺ کو مکہ مکرمہ لائیں اور ان کے دادا عبدالمطلب کے سپرد کر دیا۔ دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ دادا عبدالمطلب کا انتقال ہو گیا۔ دادا مرتے وقت اپنے آٹھ سالہ یتیم پوتے کو اپنے بیٹے ابو طالب کے حوالے کر گئے اور متوسط الحال ابو طالب کی سرپرستی میں محمدؐ کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔
آٹھ سال کی عمر میں جبکہ بچے دنیا کی اونچ نیچ سے بے خبر کھیل کود میں مگن ہوتے ہیں محمدؐ دن بھر بکریوں کی رکھوالی کرتے، جنگل میں انہیں چرانے لے جاتے، دوپہر کے کھانے میں جھڑ بیری کے بیر کھا کر پیٹ بھرتے، اونٹوں کی مہار پکڑتے اور گھر کے چھوٹے بڑے کام کرتے تھے۔ محمدؐ نے اپنے چچا کا ہاتھ بٹانے کے لئے اور چچا کے کندھوں سے اپنا بوجھ ہٹانے کے لئے مذکورہ بالا مصروفیتیں تلاش کر لیں۔ اگرچہ ابو طالب نے بھتیجے اور اپنے بچوں کے درمیان فرق نہ کیا اور دونوں میاں بیوی نے حقیقی بیٹے کی طرح ان کی پرورش کی لیکن ماں کی محبت اور باپ کی شفقت کا بدل تو نہیں ہوتا۔حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام آٹھ سال کی عمر میں ہر صبح شہر سے باہر نکل جاتے اور شام گئے تک اکیلے صحرا میں رہتے تھے۔ اکثر اوقات لامحدود آسمان اور لامتناہی اُفق پر نظریں جمائے رکھتے اور سورج ڈھلنے سے پہلے مویشیوں کو لے کر واپس آبادی میں لوٹ آتے۔ وہ بچہ جس کا باپ نہ ہو ،جس کی ماں نہ ہو اور جو کھیلنے کودنے کی عمر میں محنت مشقت کرے وہ زندگی میں خود کفیل (Self Made ) ہوتا ہے۔
پیغمبر اسلامؐ کے چچا ابو طالب ایک تاجر تھے۔ وہ محمدؐ کو بارہ سال کی عمر میں شام لے گئے۔ شام کے شہر ’’ بصرہ‘‘ کے نزدیک ان کا کارواں ٹھہرا۔ جس جگہ کارواں نے پڑاؤ کیا وہاں ایک صومعہ میں بحیراء نامی راہب رہتا تھا۔ سریانی زبان میں بحیراء کے معانی بزرگ اور دانشور کے ہیں۔بحیراء نے اس دن تک اپنے صومعہ سے باہر قدم نہیں نکالا تھا اور نہ کسی کارواں کے مسافر سے گفتگو کی تھی۔عربوں کا یہ تجارتی قافلہ جب صومعہ کے قریب فروکش ہوا تو بحیراء نے دیکھا کہ جس درخت کے نیچے قافلہ والے ٹھہرے ہیں اس کی ٹہنیاں خود بخود جھک گئی ہیں۔اس نے دیکھا کہ ایک بارہ سالہ لڑکا قافلہ میں شامل ہے جس پر بادل کا ٹکڑا سایہ کئے ہوئے ہے۔بحیراء نے آپؐ کو بحیثیت آخری نبی پہچان کر آ پ کے سرپرست ابوطالب کو نصیحت کی کہ بھتیجے کی پوری پوری نگرانی کریں۔
ابو طالب نے کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ بچہ وہی ہے جس کا تذکرہ الہامی کتابوں میں ہے۔بحیراء نے جواب دیا تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لئے جھک نہ گیا ہو۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔