Topics
ہجرت کے آغاز سے دسویں سال تک پیغمبر اسلامؐ نے جزیرۃ العرب کی سر زمین پر روزانہ ۸۲۲ مربع کلو میٹر کے حساب سے پیش قدمی کی۔ اسلام کے آغاز میں مسلمان اتنے تہی دست اور بے بضاعت تھے کہ پہلی تین جنگوں میں ہر دو سپاہیوں کے پاس ایک اونٹ ہوتا تھا ۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور ان کے لشکر میں صرف دو گھوڑے شامل تھے۔ لیکن بعد میں مسلمان اتنے طاقتور اور مالدار ہو گئے کہ جنگ حنین میں ان کے پاس ایک ہزار گھوڑے تھے۔ اس طرح جنگ تبوک میں اسلامی لشکر دس ہزار گھوڑے لے کر چلا تھا۔ مسلمانوں نے اپنی پہلی لڑائی صرف چار افراد کے بل بوتے پر لڑی اور وہ لڑائی نخلہ کے مقام پر پیش آئی تھی۔ دوسری لڑائی میں مسلمانوں کی تعداد صرف ۳۱۳ تھی۔ جنگ اُحد میں سات سو مسلمان سپاہی میدان کا رزار میں اُترے تھے لیکن جنگ تبوک میں انہوں نے تیس ہزار کے لشکر کے ساتھ میدان جنگ میں قدم رکھا تھا۔ بعض جنگوں میں مسلمانوں کا نقصان بہت کم ہوا اور بعض میں انہیں بھاری نقصان اُٹھانا پرا۔ لیکن مسلمانوں کے تصرف میں آنے والے جزیرۃالعرب کے عظیم حدود اربعہ کے پیش نظر ان کا نقصان برائے نام تھا۔ ہجرت کے نویں سال سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام قدرے علیل ہو گئے اور مدینہ میں ہی مقیم رہے۔ بہر حال اس سال سیدنا علیہ الصلوٰۃو السلام نے مدینہ میں سفیروں اور اطراف و اکناف کے قبائل کی نمائندہ جماعتوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس موقع پر سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام پورے جزیرۃالعرب کے مذہبی ، سیاسی اور عسکری پیشوا تھے، لیکن اس کے باوجود جب کوئی سفیر یا وفد ان سے ملنے آتا تو دیکھتا کہ آپ ﷺ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی چٹائی پر بیٹھے ہیں اور آپؐ کا اسباب زندگی وہی ہے جو برسوں پہلے تھا۔
ہجرت کے دسویں سال سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام چودہ ہزار مسلمانوں کی معیت میں مناسک حج کی ادائیگی کے لئے مدینہ سے مکہ تشریف لائے۔ ۹ ذی الحج سن ۱۰ ھ کو جب سورج ڈھل گیا تو سیدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہو کر وادی نمرہ میں جبل الرحمت پر جلوہ افروز ہوئے۔
خطبہ حجتہ الوداع اسلام میں اساسی دستور اور بنیادی اصول کی حیثیت کا حامل ہے۔وفات سے تقریباً ۸۰ اسی روز پہلے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حج کے زمانے میں فرمایا:
لوگو ! میری باتیں غور سے سنو!
کیونکہ شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں پھر تم سے نہ مل سکوں۔
اے لوگو ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا ہے اور تمہارے خاندان اور قبیلے اس لئے ہیں کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ اس لئے کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، اسی طرح کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر فضیلت نہیں۔
اے قبیلہ قریش !
ایسا نہ ہو کہ قیامت میں تم دنیا کا بوجھ سمیٹ کر اپنی گردن پر لادے ہوئے آؤ اور دوسرے لوگ آخرت کا سامان لائیں ۔ اگر ایسا کیا تو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکوں گا۔
اے لوگو !۔۔۔۔۔۔ آج کا دن اور اس مہینہ کی تم جس طرح حرمت کرتے ہو اس طرح ایک دوسرے کا ناحق خون کرنا اور کسی کا مال لینا تم پر حرام ہے۔خوب یاد رکھو کہ تمہیں خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہ تمہارے سب کاموں کا پورا جائزہ لے گا۔
اے لوگو ! ۔۔۔۔۔۔جس طرح تمہارے حقوق عورتوں پر ہیں اسی طرح تم پر تمہاری عورتوں کے حقوق ہیں۔ ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا۔
یاد رکھو !
خدا کی ذمہ داری پر عورتیں تم پر حلال ہوئیں اور اسی کے حکم سے تم نے ان پر تصرف کیا ہے۔ پس ان کے حقوق کی رعایت میں خدا سے ڈرتے رہنا۔
غلاموں سے اچھا برتاؤ کرنا۔ جیسا تم کھاتے ہو ویسا ان کو کھلانا۔ جیسے تم کپڑے پہننا ویسے ہی ان کو کپڑے پہنانا۔ اگر ان سے کوئی خطا ہو جائے اور تم معاف نہ کر سکو تو ان کو جدا کر دینا کیونکہ وہ بھی خدا کے بندے ہیں۔ ان کے ساتھ سخت برتاؤ نہ کرنا۔
لوگو ! میری بات غور سے سنو!
خوب سمجھو اور آگاہ ہو جاؤ !
جتنے کلمہ گو ہیں سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ سب مسلمان اخوت کے سلسلے میں داخل ہو گئے ہیں۔تمہارے بھائی کی چیز تم کو اس وقت تک جائز نہیں جب تک وہ خوشی سے نہ دے۔
خبردار !۔۔۔۔۔۔ زمانہ جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے کچل دی گئی ہیں۔ زمانہ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں۔
خبردار !۔۔۔۔۔۔نا انصافی کو پاس نہ آنے دینا۔ میں نے تم میں ایک ایسی چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اس کو مظبوط پکڑے رکھو گے اور اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ وہ چیز خدا کی کتاب ہے۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں۔
خبر دار !۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کی عبادت کرتے رہو ، صلوٰۃ قائم کرو۔ ماہ رمضان کے روزے رکھو۔ اپنے اموال کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔ اپنے رب کے گھر (بیت اللہ) کا طواف کرو۔
مذہب میں غلو اور مبالغے سے بچو۔ کیونکہ تم سے پہلی قومیں اسی عمل سے برباد ہو چکی ہیں۔
خبردار !۔۔۔۔۔۔میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا اور ایک دوسرے کو قتل نہ کرنا ۔ تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا۔
اگر کوئی حبشی غلام بھی تمہارا امیر ہو وہ تم کو اللہ کی کتاب کے مطابق چلائے تو اس کی اطاعت کرو۔
اے لوگو!
عمل میں اخلاص ، مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی اور جماعت میں اتفاق یہ باتیں سینہ کو صاف رکھتی ہیں۔
اے لوگو!۔۔۔۔۔۔تم سے میرے متعلق سوال کیا جائے گا۔ تو بتاؤ ، تم کیا کہو گے؟
لوگوں نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیں گے کہ آپؐ نے اللہ کا پیغام ہمیں پہنچا دیا ہے اور اپنا فرض پوراکر دیا ہے تو آپؐ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اُٹھایا پھر لوگوں کی طرف جھکا کر فرمایا۔
یا اللہ! تو گواہ ہے۔۔۔۔۔۔
پھر فرمایا:
خبردار ! ۔۔۔۔۔۔ جو حاضر ہیں وہ یہ کلام ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں نہیں ہیں خواہ وہ اس وقت موجود ہیں یا آئندہ پیدا ہوں گے کیونکہ بہت سے وہ لوگ جن کو میرا کلام پہنچے گا خود سننے والوں سے زیادہ اس کی حفاظت کریں گے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔