Topics
سورۃ الشعراء کی آیت ۲۱۴ ’’ وانذرعشیرتک الاقربین ‘‘یعنی ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو دین اسلام کی دعوت دیں‘‘۔ کے نازل ہونے کے بعد حضورﷺ نے اپنے چچا ؤں اور ان کی اولاد کو ضیافت میں جمع کیا اور پیغام حق سنایا۔ ابولہب یہ سن کر بولا۔تمہارا خاندان سارے عرب سے مقابلے کی تاب نہیں رکھتا۔ نادانی کی باتیں نہ کرو۔تمہارے لئے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اگر تم اپنی بات پر قائم رہے تو یہ بہت آسان ہو گا کہ قریش کے سارے لوگ تم پر ٹوٹ پڑیں اور بقیہ عرب بھی ان کی مدد کریں اور میں سب سے زیادہ حق دار ہوں کہ تمہیں پکڑلوں۔اس پر نبی کریمﷺ نے خاموشی اختیار کر لی اور اس مجلس میں کوئی گفتگو نہ کی۔ کچھ عرصہ بعد حضورﷺ نے انہیں دوبارہ جمع کیا اور اللہ تعالی کی حمدوثنا کے بعد اپنی رسالت کا اعلان کیا۔ لیکن اہل خاندان نے بات سنی اَن سنی کر دی اور کسی بات کو قبول نہیں کیا۔قرابت داروں کو تبلیغ کے حکم پر جب عملدرآمد ہو گیا تو سورۃ الحجر کی آیت نازل ہوئی:
ترجمہ:’’سو سنا دے کھول کر جو تجھ کو حکم ہوا اور دھیان نہ کر شرک والوں کا‘‘۔ (آیت ۹۴)
حکم کی تعمیل میں سیدناعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اہل مکہ کو دعوت دی کہ وہ مقررہ دن کوہ صفا پر جمع ہوں کیونکہ وہ ایک اہم بات ان تک پہنچانا چاہتے ہیں ؟ سبھی لوگ جن میں حضورﷺ کے قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے کوہ صفا پر جمع ہو گئے۔ حضورﷺ نے بلندی پر کھڑے ہو کر حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’ اے لوگو! اگر میں کوئی اہم بات تمہارے لئے بیان کروں تو کیا تم قبول کر لو گے؟ ‘‘ ۔ حاضرین نے ایک آواز ہو کر جواب دیا ، ’’ اے محمدﷺ ! ہمیں تمہاری بات پر یقین ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تم راست گو ہو اور کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے ‘‘ ۔ حضورﷺ نے کہا ’’ اے لوگو ! اللہ نے مجھے رسالت کے لئے منتخب کر لیا ہے اور میں اس کی طرف سے مامور ہوں تا کہ میں تمہیں احکام خداوندی کو ماننے اور اللہ تعالی کی اطاعت کرنے کی دعوت دوں اور اگر تم لوگ اللہ کی اطاعت سے منہ پھیرو گے تو تم پر اس کا غضب نازل ہو گا۔ جب حضورﷺ نے ان کلمات کو ادا کیا تو ابی لہب نے چلاتے ہوئے کہا کہ ’’ اے محمد ! کیا تو نے یہی بات سنانے کے لئے ہمیں یہاں بلایا تھا؟ اور کیا تو نے یہ نہیں سوچا کہ ان باتوں کی اتنی اہمیت نہیں کہ ہم اپنا کاروبار چھوڑ کر یہاں چلے آئیں ‘‘ ۔ پھر ابی لہب وہاں موجود لوگوں سے مخاطب ہوا ’’اس کی باتوں پر کان مت دھرو اور اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ محمد تو اپنی عقل کھو بیٹھا ہے‘‘ ۔ لوگ منتشر ہو گئے اور اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔ حضورﷺ کے پاس صرف دو افراد رہ گئے ایک حضرت علیؓ اور دوسرے حضرت زیدؓ ۔ اس واقعہ کے بعد حضورﷺ کے قریبی رشتہ داروں نے ان کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی اور انہیں طعن و تمسخر کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ جب جماعت قریش اور خاص طور پر ابی لہب اور اس کی بیوی ام جمیل نے یہ دیکھا کہ ان کی زبان کے تیر حضورﷺ پر بظاہر اثرانداز نہیں ہو رہے تو وہ لوگ پیغمبر اسلام کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچانے پر اتر آئے۔ اگرچہ ابی لہب اور اس کی بیوی کا تعلق مکہ کے ’’ مہذب‘‘طبقے سے تھا لیکن اخلاقی طور پر وہ انتہائی پست درجے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ دونوں حضورﷺ کی طرف پتھر پھینکتے تھے جس کے باعث ان کے گھر کی کھڑکیاں جو لکڑی سے بنی ہوئی تھیں ٹوٹ جاتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ پیسے دے کر آوارہ بچوں کے ذریعے حضورﷺ کے گھر پر پتھراؤ کرواتے تھے اور مردہ جانوروں کی آلائشیں اور ان کی گندگی کو حضورﷺ کے گھر پھینکواتے تھے۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام جب بھی گھر سے باہر نکلتے تو ام جمیل اور ابی لہب کے اکسانے پر گلی کوچوں کے بچے اور دوسرے آوارہ لوگ انہیں پتھروں کا نشانہ بناتے۔ جس سے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے سر اور چہرے سے خون بہنے لگتا تھا۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دامن سے خون پونچھتے اور جب گھر واپس پہنچتے تو حضرت خدیجہؓ انہیں اس حال میں دیکھ کر دکھ بھرے لہجے میں پوچھتیں، ’’ یا محمدصلی اللہ علیہ و سلم ! کیا آج بہت رنج اٹھایا ہے؟ ‘‘ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام جواب میں کہتے ’’ اے خدیجہؓ !جب انسان یہ جان لے کہ وہ کس مقصد کے لئے اور کس کی خاطر رنج اٹھا رہا ہے تو اسے دکھ اور درد کا احساس نہیں رہتا‘‘ ۔ ابی لہب کی بیوی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی راہ میں نوکیلے کانٹے بچھاتی تھی تاکہ وہ ان کے پاؤں میں چبھ جائیں اور جب حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام گھر پہنچ کر اپنے پاؤں سے کانٹے نکالتے تو خون جاری ہو جاتا تھا۔حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان والوں نے انہیں اتنی تکالیف پہنچائیں کہ ایک دن دلبرداشتہ ہو کر خدا کے حضور عرض کیا ’’ اے اللہ! تو بہتر جانتا ہے ان میں سے کوئی بھی تیرے دین کو قبول کرنے پر تیار نہیں‘‘ ۔ اس موقع پر اللہ تعالی نے اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دلجوئی کی:
ترجمہ:
’’سو سنا دے کھول کر جو تجھ کو حکم ہوا اور دھیان نہ کر شرک والوں کا۔ ہم بس ہیں تیری طرف سے ٹھٹھے کرنے والوں کو۔ جو ٹھہراتے ہیں اللہ کے ساتھ اور کسی کی بندگی ، سو آگے معلوم کریں گے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تیرا جی رکتا ہے ان باتوں سے۔ سو تو یاد کر خوبیاں اپنے رب کی جب تک پہنچے تجھے یقین‘‘۔(الحجر ۹۴ تا ۹۹)
ابی لہب نے جب یہ دیکھا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام حق بات کہنے سے نہیں رکتے تو اس نے کمینگی کی انتہا کر دی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ ابی لہب کے گھر بیاہی ہوئی تھیں۔حضورﷺ کو رنج میں مبتلا کرنے کے لئے اس نے اپنے دونوں بیٹوں سے انہیں طلاق دلوا کرباپ کے گھر بھیج دیا اور کہلا بھیجا کہ ابو لہب کے بیٹوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان کی بیویاں ’’ محمد‘‘جیسے شخص کی بیٹیاں ہوں کیونکہ آج محمد تمام لوگوں کی نفرت اور مذمت کا شکار ہے اور ایسے شخص کے ساتھ تعلقات رکھنا مکہ میں شرم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔حضرت خدیجہؓ اس واقعہ سے دلبرداشتہ ہوئیں لیکن حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں تسلی دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک باپ تھے اور دوسرے تمام والدین کی طرح انہیں بھی اپنی بچیوں کا گھر بار اجڑنے پر صدمہ پہنچا تھا لیکن خاندانی دشمنی اور طرح طرح کے نفسیاتی دباؤ کے باوجود ان کے قدم نہ ڈگمگائے اور انہوں نے خدا کے دین کی تبلیغ میں ایک لحظہ بھی فروگزاشت نہیں کیا۔ بہرحال بعثت کے چوتھے سال تک ان کے قریبی رشتہ دار اور قبیلہ قریش کے دوسرے افراد انہیں مختلف قسم کی اذیتیں پہنچاتے رہے۔اس کے بعد انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے راستے سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے عملی طور پر اپنے دین کی منادی شروع کر دی تھی اور وہ اپنے رشتہ داروں اور قبیلہ قریش کے دوسرے افراد سے فرماتے تھے:
’’ان خداؤں کی پرستش نہ کرو جو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں ۔ صرف اس خدا کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں اور جو ساری کائنات کا مالک ہے‘‘ ۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب رشتہ دار اور قبیلہ قریش کے دوسرے افراد ان سے یہ پوچھتے کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ہم ان خداؤں کی پوجا کرناچھوڑ دیں جن کی پرستش ہمارے آباؤ اجداد کرتے تھے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب میں فرمایا ۔’’ ہاں ! خود ساختہ خداؤں کی پرستش چھوڑ دو، ایک اللہ وحدہ لاشریک کی پرستش و عبادت کرو‘‘ ۔
یہ جواب سن کر قریش کا غیض و غضب شدت اختیار کر گیا اور وہ فیصلہ کن اقدام کے بارے میں سوچنے لگے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام دن کے وقت اپنے گھر سے نکل کر خانہ کعبہ کی طرف تشریف لے جاتے تھے۔ قریش نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر پابندی عائد کر دی کہ وہ ’’بیت اللہ‘‘ میں داخل نہیں ہو سکتے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔