Topics
ہجرت کے گیارہویں سال ربیع الاول کے مہینے میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام علیل ہو گئے ۔ ایک روز مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنے والے مسلمانوں کو مخاطب کیا:
’’ اے مہاجرو ! جو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے ہو ، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ انصار سے جو مدینہ کے اصل باشندے ہیں انتہائی نیک برتاؤ کرو کیونکہ مجھے انصار پر بہت بھروسہ ہے۔ جب ہم ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے تو ان لوگوں نے ہمارے لیے بڑی قربانیا ں دیں اور از حد فدا کاری کا مظاہرہ کیا۔ لہٰذا اگر انصار سے کوئی خطا ہو جائے تو درگزر سے کام لینا کیونکہ انصار میرے لئے میرے جسم کی پوشاک کے مانند ہیں۔انہوں نے آج تک اپنے فرائض بخوبی انجام دیئے ہیں اور اب ان پر کوئی فرض باقی نہیں رہتا۔
مگر تم لوگوں پر ان کا بہت حق بنتا ہے۔
اے لوگو! جب میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں اور تم مجھے سپرد خاک کر دو تو میری قبر کے سامنے سجدہ نہ کرنا۔رکوع و سجود کے لائق صرف خدائے وحدہ کی ذات ہے۔‘‘
جب سیدنا علیہ الصلوٰۃو السلام اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے پاس دنیا کے مال و متاع میں سے ایک خچر (جو حبشہ کے بادشاہ نے تحفۃً پیش کیا تھا) اور چند تلواروں کے سوا کچھ نہ تھا۔
سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہیں سپرد خاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا جہاں آپؐ نے وفات پائی تھی۔ جب مسجد میں جمع عام مسلمانوں کو یہ علم ہوا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام رحلت فرما گئے ہیں تو ان میں کہرام مچ گیا اور سب لوگ بے اختیار ہو کر رونے لگے۔ حضرت عمرؓ بن خطاب مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں کو روتا دیکھ کر گرجدار آواز میں بولے، ’’کیوں روتے ہو یہ شیون زاری کیا ہے؟‘‘پھر انہوں نے میان سے اپنی تلوار نکال لی اور بہت رعب دار آواز میں بولے! ’’ جو کوئی یہ کہے گا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہو چکے ہیں تو میں اس کی گردن اُڑا دوں گا۔ ہمارے رسولؐ فوت نہیں ہوئے بلکہ اللہ کے پاس گئے ہیں اور جلد ہی واپس آ جائیں گے اور ہم انہیں دوبار ہ دیکھ سکیں گے۔ ابھی یہ مکالمہ جاری تھا کہ حضرت ابو بکرؓ مسجدمیں تشریف لائے اور حضرت عمرؓ کومخاطب کر کے فرمایا،
’’یا عمرؓ ! خاموش رہو اور اپنی تلوار میان میں رکھ لو ‘‘ ۔ پھر انہوں نے حاضرین کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’ اے لوگو !تم میں سے جو شخص محمد رسولؐ اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد ؐ کا وصال ہو گیا ہے اور جو شخص تم میں سے اللہ کی پر ستش کرتا تھا تو اللہ زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔ پھر سورۃ آل عمران کی آیت تلاوت فرمائی۔
ترجمہ:
’’اور محمدؐ تو ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے تو کیا اگر وہ انتقال فرما جائیں یا شہید ہو جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو الٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اللہ شکر ادا کرنے والوں کو اجر دے گا۔‘‘۔
(آل عمران ۱۴۴)
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔