Topics
دشمن کو دشمن کے ہتھیار سے ہلاک کرنے کی جنگی حکمت عملی کے تحت مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح قبیلہ قریش نے مدینہ کو معاشی محاصرے میں لے رکھا ہے اسی طرح وہ بھی مکہ کے تجارتی قافلوں کو مدینہ کی حدود سے گزرنے کی اجازت نہ دیں۔ اس حکمت عملی پر عمل درآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ قریش نے اپنے تجارتی قافلوں کی گزر گاہوں پر آباد قبائل سے معاہدہ کر رکھا تھا۔ جس کے عوض اہل مکہ انہیں ’’ باج ‘‘ ادا کرتے تھے۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام بدوی قبائل میں تشریف لے گئے اور مکہ والوں کی زیادتیوں اور چیرہ دستیوں سے بدوی قبیلوں کو آگاہ کر کے انہیں مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کی دعوت دی۔ قبیلوں نے یہ پیشکش قبول کر لی اور اہل مکہ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے دستبردار ہو گئے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے قبیلہ غفار، قبیلہ بنو ضمرہ، قبیلہ جہینیہ اور قبیلہ بنو مدلیج کے سرکردہ افرادکو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ بہت سارے لوگ مسلمان ہوئے اور کئی قبیلے مسلمانوں کے اتحادی بن گئے۔ ان قبائل کی بستیاں ایسی جگہ پر تھیں جہاں سے قافلے گزرتے تھے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی غیر موجودگی میں ابن جبیر کی قیادت میں تیز رفتار اونٹوں پر سوار کچھ سواروں نے مدینہ پر حملہ کر دیا۔ گھروں میں آگ لگا دی۔ مسلمانوں کا مال و اسباب لوٹ کر لے گئے۔ انکوائری کے بعد پتہ چلا کہ یہ قریش کی سازش تھی۔ قریش کی ریشہ دوانیوں کا قلع قمع کرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے آٹھ مسلمانوں کو منتخب کیا اور ان میں سے عبد اللہ بن حجش کو سربراہ بنایا۔ جب عبداللہ نخلہ پہنچے تو رجب کا مہینہ ختم ہونے میں ابھی ایک دن باقی تھا۔رجب کا مہینہ اہل مکہ کے نزدیک حرمت والا مہینہ تھا۔ اسی دن ایک کارواں نے جو کشمش اور کھالیں لے کر طائف سے مکہ جا رہا تھا نخلہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ عبد اللہ بن حجش نے کارواں کو روک لیا۔ اس قافلے میں قریش کے چار افراد شامل تھے۔ ان افراد میں سے ایک مارا گیا۔ دو اسیر ہو گئے اور ایک بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیااور مسلمانوں نے قافلے کا سارا مال اور مویشی اپنے قبضے میں لے لئے۔ مکہ میں صدائے اعتراض بلند ہوئی اور مدینہ کے بت پرست یہودیوں نے بھی احتجاج کیا اور حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف الزام تراشی کی مہم شروع کر دی کہ مسلمانوں نے رجب کے مہینے میں کارواں پر حملہ کر کے دیرینہ قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ عبداللہ بن حجش مال غنیمت لے کر آئے تو مسلمان بھی شبہ میں پڑ گئے۔ سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام بھی غمگین و ملول ہوئے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حکم دیا کہ سارا سامان ایک جگہ جمع کر دیا جائے اور کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے جب تک کوئی فیصلہ نہ ہو۔ اس موقع پر سورۃ بقرہ کی آیات نازل ہوئیں۔
ترجمہ:
’’ آپ سے (اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم) حرمت والے مہینوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔آپ کہہ دیجئے کہ اس ماہ میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے مگر اللہ کی راہ روکنا اور خدا سے کفر کرنا اور مسجد الحرام میں داخلے پر پابندی لگانا اور ان لوگوں کو جو اس کے اہل ہیں وہاں سے نکال دینا اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے اور فتنہ انگیزی قتل سے بھی بڑا جرم ہے‘‘ ۔
کچھ عرصہ بعد کفار مکہ کا ایک اور قافلہ مدینہ کی حدود سے گزر کر مکہ پہنچنے والا تھا۔ قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں دو ہزار اونٹوں پر پچاس ہزار مالیت کا سامان لے کر جا رہا تھا۔ مکہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مسلمان قافلہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ کفار مکہ نے اس بات کو بنیاد بنا کر نو سو پچاس جنگجو مرد، سات سو اونٹ اور ایک سو گھوڑوں پر مشتمل فوج مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دی۔
مسلمانوں کو جب اس کی اطلاع ملی تو تین سو تیرہ افراد ستر اونٹوں اور دو گھوڑوں پر مشتمل جماعت مقابلہ کے لئے تیار ہو گئی۔ہجرت کے دوسرے سال سترہ رمضان کو بدر کے مقام پر دونوں افوج کا سامنا ہوا۔ اس جنگ میں مسلمان تعداد کے لحاظ سے قریش کے مقابلے میں صرف ایک تہائی تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور فتح و نصرت عطا کی۔ قریش کی فوج کا سپاہ سالار ابو جہل اس جنگ میں ہلاک ہوا۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کا تذکرہ قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے۔
ترجمہ:
’’سو تم نے ان کو نہیں مارا لیکن اللہ نے مارا اور تو نے نہیں پھینکی مٹھی خاک جس وقت پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی ، اور کیا چاہتا تھا ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان ، تحقیق اللہ ہے سنتا جانتا‘‘ ۔
(الانفال ۔۱۷)
جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی خبر مکہ پہنچی تو اہل مکہ نے ایک اور جنگ کے ذریعے مسلمانوں سے بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور دیگر مسلمانوں سے جنگ و جدل کرنے والے گروہ کا سربراہ ابو سفیان تھا۔ جنگ بدر میں اس کا ایک بیٹا، سسر اور داماد مارے گئے تھے۔ جبکہ دوسرا بیٹا مسلمانوں کے پاس قید تھا۔ ابو سفیان نے قسم کھائی کہ مسلمانوں سے انتقام لئے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گا اور نہ ہی اپنی بیوی کے ساتھ مباشرت کرے گا۔ ابو سفیان کی بیوی نے بھی قسم کھائی کہ اگر اس کے بیٹے ، باپ اور بھائی کے قاتل اس کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس کا کلیجہ چبا لے گی۔اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ اگر اس کے بیٹے باپ اور بھائی کے قاتل کئی لوگ ہوئے تو وہ ان سب کے کان، ناک اور زبان کاٹ کر ان کا ہار بنائے گی اور جس دن اسلام کو شکست ہوگی تو وہ یہ ہار گلے میں ڈال کر میدان جنگ میں ناچے گی۔
جنگ بدر کے بعد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی صاحبزادی دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔ ابھی حضرت رقیہ ؓ کو فوت ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک اور صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ ان کا پہلا نواسہ اور ان کی دوسری بیٹی حضرت زینبؓ بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔(انا للہ و انا الیہ راجعون)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اہل مدینہ کے لئے ایک بنیادی آئین مرتب کیا تھا۔ جس کی ایک شق یہ تھی کہ مدینہ کے یہودی مسلمانوں کے خلاف اہل مکہ سے گٹھ جوڑ نہیں کریں گے۔ لیکن یہودیوں نے اس آئین کی خلاف ورزی کی اور ان کے کچھ شاعر مدینہ سے نکل کر مکہ پہنچ گئے تا کہ اہل مکہ کے جذبات کو مشتعل کریں اور انہیں مسلمانوں سے لڑنے پر اکسائیں۔ مدینہ کے یہودی شاعر ایسے وقت پر مکہ پہنچے جب وہاں مسلمانوں کے خلاف غضب و انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ قریش کے سرداروں نے یہ اعلان کروا دیا تھا کہ مکہ کا کوئی شہری جنگ بدر کے مرنے والوں پر آنسو بہائے گا تو خواہ وہ مرد ہو یا عورت اسے شہر سے اور قبیلے سے نکال دیا جائے گا۔ جنگ بدر میں ابو جہل کی موت کے بعد مکہ میں تین افراد پر مشتمل ایک تنظیم قائم ہوئی۔ جس میں ایک ابی لہب ، دوسرا ابو سفیان اور تیسرا صفوان بن امیہ تھا۔ ان تینوں نے یہ عہد کیا کہ جب تک اسلام ختم نہیں ہو جائے گا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔