Topics
کفار مکہ کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح اپنا شرف اور اقدار برقرار رکھیں۔ باہمی مشاورت سے اشرافِ قریش کی جماعت آپﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس آئی انہوں نے شکایت کی کہ اے ابو طالب ! آپ کا بھتیجا ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتا ہے۔ اس نے ہمارے باپ دادا کے طریقے پر نقطہ چینی کی ہے۔ ہمیں عقل و فہم سے عاری قرار دیتا ہے۔ محمد ہمارے باپ دادا کو بھی گمراہ کہتا ہے۔ ہم یہ توہین برداشت نہیں کر سکتے ۔ آپ یا تو اسے روک دیں کہ وہ ان باتوں سے باز آ جائے یا ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جائیں۔
سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حق کا پرچار جاری رکھا اور باطل کی تکذیب کرتے رہے۔اہل مکہ سے صبر نہ ہو سکا وہ دوبارہ ابو طالب کے پاس آئے اور سختی سے مطالبہ کیا کہ اپنے بھتیجے کو ان باتوں سے روک دو یا اس کی حمایت سے دستبردار ہو جاؤ۔ ورنہ ہم سب تمہارے خلاف جنگ کریں گے۔ یہاں تک کہ فریقین میں سے ایک دنیا میں نہ رہے۔ابو طالب کو اپنے یتیم بھتیجے کی فکر لاحق ہوئی اور انہیں بلا کر سمجھانے لگے۔ حضورﷺ نے جب اپنے مہربان چچا کے منہ سے تبلیغ حق ترک کردینے کا مشورہ سنا تو فرمایا: ’’
خدا کی قسم ! وہ میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لا کر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا کا حکم اس کی مخلوق کو نہ پہنچاؤں، میں ہر گز اس کے لئے آمادہ نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جاں دے دوں‘‘ ۔
ابو طالب نے جب اپنے بھتیجے کا یہ عزم دیکھا تو کہا ، ’’ تم اپنا کام کرتے رہو ۔ میں تمہاری حمایت سے کسی وقت بھی دستبردار نہیں ہوں گا‘‘ ۔
اسی دوران حج کا موسم آ گیا ۔ قریش کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ عرب کے وفود کے سامنے محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نئے دین کا پر چار ضرور کریں گے۔ لہٰذا اس کے توڑ کے لئے پہلے ہی اقدامات طے کر لئے جائیں۔ اس مقصد کے لئے وہ ’’ دارالندوۃ ‘‘ میں جمع ہوئے ۔ دارالندوہ قریش کا پارلیمنٹ ہاؤس تھا۔ یہ کعبہ شریف کے پہلو میں ایک ذی شان محل تھا۔ قریش جب کسی اہم اور خاص کام کو شروع کرنا چاہتے تو سب اسی محل میں جمع ہو کر صلاح مشورہ کرتے تھے۔
ولید بن مغیرہ کی سرکردگی میں گفت و شنید ہوئی۔ کسی نے کہا کہ پاگل مشہور کر دیا جائے ، کسی نے مشورہ دیا کہ کاہن کے نام سے شہرت دی جائے۔کسی نے کہا شاعر کہا جائے ۔ لیکن ولید بن مغیرہ کسی بات سے متفق نہ ہوا۔ بالآخر سب نے اس سے رائے مانگی تو اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کی حیثیت سے مشہور کر دیا جائے۔ لہٰذا طے پایا کہ مکہ کے تمام راستوں پر اپنے آدمی بٹھا دئیے جائیں تا کہ اطراف عالم سے جو لوگ حج کے لئے آئیں انہیں یہ باور کرایا جائے کہ یہاں ایک ساحر ہے جو اپنے کلام سے باپ بیٹے اور خاوند بیوی میں اور تمام رشتوں میں باہمی تفریق ڈال دیتا ہے۔ لہٰذا تم لوگ اس کے پاس نہ جانا۔قرآن نے اس مجلس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے :
ترجمہ :
‘‘اس نے سوچا اور اندازہ لگایا۔
وہ غارت ہو اس نے کیسا اندازہ لگایا۔
پھر غارت ہو اس نے کیسا اندازہ لگایا۔
پھر نظر دوڑائی۔
پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بسورا۔
پھر پلٹا اور تکبر کیا۔
آخر کار کہا کہ یہ نرالا جادو ہے جو پہلے سے نقل ہوتا آ رہا ہے۔
یہ محض انسان کا کلام ہے۔ ’’(مدثر، ۲۴- ۱۸)
اس کام میں سب سے زیادہ پیش پیش ابولہب تھا۔ وہ لوگوں کے ڈیروں اور عکاظ ، مجنہ اور ذوالمجار کے بازاروں میں آپﷺ کے پیچھے پیچھے چلتا رہتا۔ جہاں آپﷺ تبلیغ کرتے ابولہب پکار پکار کر لوگوں کو کہتا کہ اس کی بات نہ ماننا ۔ لوگ جب حج سے واپس ہوئے تو ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ آپﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔ اس طرح پورے عرب اور قرب و جوار میں آپﷺ کا چرچا پھیل گیا اور کفار کی تدبیر الٹ گئی۔
کفار مکہ نے جب یہ دیکھا کہ ان کی تدبیریں ناکام ہو رہی ہیں اور آپ کی دعوت عام ہو رہی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی تعلیمات سے واقف ہو رہے ہیں تو انہوں نے مشورہ کر کے مکہ کے سب سے چالاک اور زیرک سردار عقبہ بن ربیعہ کو آپﷺ کے پاس بھیجا کہ وہ آپﷺ کو دنیاوی طمع اور لالچ دے کر تبلیغ دین سے روک دے۔
عقبہ نے آپ کے پاس پہنچ کر کہا ،’’بھتیجے تم حسب و نسب میں ہم سب سے بہتر ہو ۔ تم نے ہمارے آباؤ اجداد کے طریقہ کو باطل قرار دیا ہے اور انہیں جاہل سے تعبیر کیا ہے۔ تم آج اپنے دل کی بات کہہ دو کہ تمہاارا مدعا کیا ہے؟ اگر تم دولت کے لئے یہ سب کچھ کر رہے ہو تو ہم تمہارے واسطے اتنا مال جمع کر دیں گے کہ تم اہل مکہ میں سب سے زیادہ مالدارہو جاؤ گے۔ اگر سرداری حاصل کرنا چاہتے ہو تو ہم اس پر راضی ہیں کہ تمہیں قریش کا سردار بنا دیں۔ اگر تم شادی کے خواہش مند ہو تو مکہ کی سب سے خوبصورت لڑکی کو تمہاری دلہن بنا دیں گے اور اگر یہ سب نہیں ہے اور تم کسی جن یا ماورائی طاقت کے زیر اثر ہو جس کی باتیں تم لوگوں کو سناتے ہو اور اس سے چھٹکارا پانے سے عاجز ہو تو ہم تمہارے لئے حاذق طبیب تلاش کرتے ہیں تا کہ وہ تمہارا علاج کرے اور تمہیں صحت حاصل ہو‘‘۔
عقبہ کے طویل لیکچر کے بعد سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جواب میں سورۃ حٰم السجدہ کی تلاوت کی۔ عقبہ گم سم سنتا رہا ۔ پھر اٹھ کر اپنی قوم میں واپس آگیا۔ عقبہ کو آتا دیکھ کر مشرکین مکہ نے ایک دوسرے سے کہا ، خدا کی قسم ! ابو الولید تمہارے پاس وہ چہرہ لے کر نہیں آ رہا جو چہرہ لے کر گیا تھا۔ عقبہ نے کہا ،’’آ ج میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ اس سے پہلے اپنی عمر میں کبھی نہیں سنا تھا۔ خدا کی قسم ! نہ وہ شاعری ہے، نہ جادو، نہ وہ نجومیوں کا کلام ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ تم سب اس کو اذیت دینے سے باز آ جاؤ۔جو کلام میں نے سنا ہے اس کی شان ظاہر ہونے والی ہے۔میری بات مانو اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر عرب اس پر غالب آگئے تو تمہارا کام دوسرے کے ذریعے انجام پائے گا اور اگر وہ عرب پر غالب آ گیا تو اس کی عزت ہماری عزت ہے۔ کیونکہ وہ ہمارے ہی قبیلہ سے ہے‘‘ ۔ لوگ حیرت سے اس کو تکنے لگے پھر انہوں نے رائے قائم کی کہ عقبہ پر محمدﷺ کا جادو چل گیا ہے۔
ایک روز جبکہ رسول اللہﷺ کعبہ کا طواف کر رہے تھے قریش کے سرکردہ افراد ان کے پاس آئے اور تجویز پیش کی کہ اے محمد ! آؤ جسے تم پوجتے ہو اسے ہم بھی پوجیں اور جسے ہم پوجتے ہیں اسے تم بھی پوجو۔ اس طرح ہم اور تم اس کام میں مشترک ہو جائیں۔ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی کہ ایک سال آپﷺ قریش کے معبودوں کی پوجا کریں اور ایک سال قریش آپﷺ کے رب کی عبادت کیا کریں گے۔ قریش کی اس قسم کی تجاویز کے جواب میں سورۃ کافرون نازل ہوئی۔جب قریش کا کوئی حیلہ کارگر نہ ہوا تو ایک بار پھر انہوں نے غور و خوض کیا اور آپﷺ کی دعوت کا قلع قمع کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے۔ قرآن نے کفار کی اس مہم کا تذکرہ جگہ جگہ کیا ہے:
ترجمہ:
’’ اور لوگ کہتے ہیں ، اے شخص کہ تجھ پر اتری ہے نصیحت تو یقینادیوانہ ہے‘‘ ۔(الحجر ۶)
ترجمہ:
’’ اور اچنبھا کرنے لگے اس پر ان کو ایک ڈر سنانے والا انہی میں سے ، اور لگے کہنے منکر یہ جادوگر ہے جھوٹا‘‘ ۔(ص ۴)
ترجمہ:
’’ اور منکر تو لگے ہی ہیں کہ ڈگادیں تجھ کو اپنی نگاہوں سے، جب سنتے ہیں سمجھوتی اور کہتے ہیں وہ باولا ہے‘‘۔ (القلم ۵۱)
ترجمہ:
’’اور اسی طرح آزمایا ہے ہم نے ایک کو ایک سے کہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے فضل کیا ہم سب میں سے؟ کیا اللہ کو معلوم نہیں حق ماننے والے‘‘۔ (انعام۔۵۳)
ترجمہ:
’’جو گنہگا ر ہیں ، وہ تھے ایمان والوں سے ہنستے۔ اور جب ہو نکلتے ان کے پاس آپس میں اشارے کرتے۔ اور جب پھر کر جاتے اپنے گھر ، پھر جاتے باتیں بناتے۔ اور جب ان کو دیکھتے ، کہتے بیشک یہ لوگ بہک رہے ہیں۔ اور ان کو بھیجا نہیں ان پر نگہبان‘‘ ۔ (المطففین۲۹۔۳۳)
ترجمہ:
’’اور کہنے لگے یہ نقلیں ہیں اگلوں کی، جو لکھ لایا ہے، سو وہی لکھوائی جاتی ہیں اس پاس صبح و شام‘‘ ۔ (الفرقان۔۵)
ترجمہ:
’’ اور کہنے لگے جو منکر ہیں اور کچھ نہیں یہ مگر جھوٹ باندھ لایا ہے اور ساتھ دیا اس کا اس میں اور لوگوں نے، سو آئے بے انصافی اور جھوٹ پر‘‘۔ (الفرقان۔۴)
ترجمہ:
’’اور ہم کو معلوم ہے کہ وہ کہتے ہیں اس کو سکھاتا ہے آدمی‘‘ ۔(النحل ۔۱۶)
ترجمہ:
’’ اور کہنے لگے یہ کیسا رسول ہے کھاتا ہے کھانااور پھرتا ہے بازاروں میں، کیوں نہ اترا اس کی طرف کوئی فرشتہ کہ رہتا اس کے ڈرانے کو‘‘۔ (الفرقان ۔ ۱۷)
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔