Topics
مشرکین کی کاروائیاں حق
کے پرچار کو روکنے میں کامیاب اور مؤثر ثابت نہیں ہو رہی تھیں ۔ کفار اس صورتِ حال
سے پریشان تھے۔ بالآخر ۲۵
سرداران قریش کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا سربراہ ابی لہب تھا۔ کمیٹی نے طے
کیا کہ اسلام کی مخالفت، پیغمبر اسلام کی ایذاء رسانی اور اسلام لانے والوں کو طرح
طرح کے جورو ستم اور ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے
گی۔
ابو لہب عداوتِ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں اس قدر بڑھ گیا کہ جب
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دوسرے صاحبزادے حضرت عبداللہ کا انتقال ہوا تو ابو
لہب خوشی سے دوڑتا ہوا اپنے رفقاء کے پاس پہنچا اور انہیں اپنے تئیں خوشخبری سنائی
کہ محمد ﷺ ابتر (نسل بریدہ) ہو گئے ہیں۔ قرآن حکیم نے ابی لہب کے اس عمل سے سرور
کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچنے والے دکھ کا مداوا سورۃ کوثر میں کیا ہے۔
ترجمہ:
’’ ہم نے تجھ کو دی کوثر
۔
سو نماز پڑھ اپنے رب کے
آگے اور قربانی کر۔
بے شک جو بیری ہے تیرا
وہی رہا پیچھا کٹا‘‘۔
(الکوثر)
ایک دن جب حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام خانہ کعبہ میں اللہ کی عبادت کر رہے تھے ابوجہل اپنے قبیلے کے کچھ
دوسرے افراد کے ہمراہ وہاں پہنچ گیا۔ ابو جہل کے ہاتھ میں اونٹ کی اوجڑی تھی جس
میں کثیف خون اور دوسری گندگیاں بھری ہوئی تھیں۔ جزیرۃ العرب میں کسی کو سزائے موت
دینے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ پانی یا خون یا دوسری گندگیوں سے بھری ہوئی اونٹ کی
اوجڑی کو سر پر اس طرح چڑھا دیتے تھے کہ سر اور چہرا اوجڑی کے اندر پھنس جاتا تھا
اور پھر اوجڑی کے نچلے حصے کو کسی تھیلے کے منہ کی طرح مضبوطی سے گردن میں باندھ
دیا جاتا تھا۔ اس طرح ناک اور منہ مکمل طور پر اوجڑی کے غبارہ میں بند ہو جاتے تھے
اور سانس رک جاتا تھا............ دم گھٹنے کے باعث جلد ہی موت واقع ہو جاتی تھی ۔
اس روز ابو جہل اور اس کے ساتھی یہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ وہ حضورعلیہ الصلوٰۃ
والسلام کو اوجڑی کے ذریعے ہلاک کر دیں گے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی جب خانہ کعبہ
میں داخل ہوئے تو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے گردوپیش سے بے خبر اللہ کے سامنے
سربسجود تھے۔ ابوجہل نے اونٹ کی اوجڑی سجدہ کی حالت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے سر پر رکھ دی اور جلد ہی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چہرہ اور سر اس اوجڑی میں
مبتلا ہو گیا۔ پھر ابو جہل نے بڑی پھرتی کے ساتھ اوجڑی کے دوسرے سرے کوایک تھیلی
کی طرح حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی گردن میں باندھ دیا۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام
کو جیسے ہی احساس ہوا کہ کوئی چیز ان کے سر پر رکھ دی گئی ہے تو انہوں نے اٹھ کر
اپنے آپ کو نجات دلانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
جو لوگ حضورعلیہ الصلوٰۃ
والسلام کے آس پاس موجود تھے وہ انہیں اپنی رہائی کے لیے تگ و دد کرتا ہوا دیکھ
رہے تھے انہیں بخوبی یہ احساس تھا کہ سانس رکنے کے باعث حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام
جلد ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے قراری
اور بے تابی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے سوچا کہ وہ حضرت محمد ﷺ کے چہرے سے اور سر سے
اوجڑی کا غلاف اتار دیں لیکن انہیں ابو جہل کا خوف تھا اور وہ جانتے تھے کہ اگر وہ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد کریں گے تو ابو جہل جیسے خوفناک شخص کی دشمنی
مول لیں گے۔
قریش کی ایک عورت جو وہاں
موجود تھی اس کربناک منظر کی تاب نہ لاسکی اور دوڑتی ہوئی حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام کے گھر پہنچی اور ان کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ کو اطلاع دی۔ حضرت رقیہ ؓ
سراسیمہ حالت میں روتے ہوئے خانہ کعبہ تک پہنچیں۔ ابو جہل اور دوسرے لوگوں نے جب
حضرت رقیہ ؓ کو آتے دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے اور حضرت رقیہ ؓ نے بلا تاخیر حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام کے چہرے اور سر کو اوجڑی کی گرفت سے آزاد کیا اور اپنے دامن سے ان
کے چہرے کو صاف کیا۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام دم گھٹنے کے باعث ایک گھنٹہ تک حرکت
کرنے کے قابل نہ ہو سکے اور اس کے بعد اپنی بیٹی کے سہارے کھڑے ہوئے اور آہستہ
آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچ کر حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے حضرت رقیہ ؓ کی مدد سے اپنے چہرے اور سر سے خون اور دیگر کثافت کو صاف
کیا، کپڑے تبدیل کئے۔ حضرت رقیہ ؓ نے اپنے والد کے کپڑے دھو کر سکھانے کے لیے دھوپ
میں ڈال دیئے۔ اگلے دن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام گزشتہ روز کے واقعہ سے خوفزدہ
ہوئے بغیر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر عبادت میں مشغول ہو گئے۔
اس مرتبہ عقبہ نامی شخص نے سجدے کی حالت میں اپنی چادر ان پر ڈال دی اور اتنا شدید
حملہ کیا کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناک اور منہ سے خون جاری ہو گیا۔ عقبہ یہ
کوشش کر رہا تھا کہ سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے ہی پے در پے وار کر کے حضورعلیہ
الصلوٰۃ والسلام کا خاتمہ کر دے۔ لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا اور حضور
علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے آپ کو حملہ آور کے ہاتھوں سے چھڑانے میں کامیاب ہو گئے
اور خون آلود چہرہ کے ساتھ گھر واپس لوٹ آئے۔
ابو لہب کی بیوی ام جمیل
جس کا نام ارویٰ تھا۔ ابو سفیان کی بیٹی تھی وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم کو ایذاء پہنچانے کی مہم میں پیش پیش تھی۔ وہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم کے راستے میں اور ان کے دروازے پر کانٹے ڈال دیا کرتی تھی۔ اس
مذموم فعل پر قرآن میں سورۃ لہب نازل ہوئی۔ ام جمیل کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کی
اور اس کے شوہر کی مذمت میں آیات نازل ہوئی ہیں تو وہ سیدنا علیہ الصلوۃ و السلام
کو تلاش کرتی ہوئی خانہ کعبہ پہنچ گئی۔ اس کے ہاتھ میں پتھر تھے جو وہ سنگ باری کے
لیے لائی تھی۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ہمراہ اس وقت حضرت ابو بکر صدیقؓ
بھی موجود تھے۔ وہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس آئی اور پوچھا کہ تمھارا ساتھی کہاں
ہے؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ میری ہجوکرتا ہے۔ اگر میں نے اس کو ڈھونڈ لیا تو یہ
پتھر اس کے منہ پر دے ماروں گی۔ اس شور شرابے کے بعد وہ چلی گئی۔ اس کے جانے کے
بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام سے دریافت کیا کہ کیا وہ
آپ کو دیکھ نہیں رہی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ اللہ نے اس کو
وقتی طور پر اندھا کر دیا تھا۔
امیہ بن خلف ابو لہب کی ٹیم کا رکن تھا۔ وہ جب بھی سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلا م
کو دیکھتا لعن طعن کرتا اور مغلظات بکتا تھا۔ قرآن پاک کی سورۃ حمزہ کی پہلی آیت
اسی سیاہ بخت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
ترجمہ:
’’ لعن طعن اور برائیاں
کرنے والے کے لیے تباہی ہے‘‘۔
اخنس بن شریق ثقفی بھی
رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کے ستانے والوں میں تھا۔ قرآن نے سورۃ القلم میں اس
کی خباثتیں گنوائی ہیں۔
ترجمہ:
’’ اور کہا نہ مان کسی
قسم کھانے والے کا بے قدر۔ طعنے دیتا چغلی لیے پھرتا، بھلے کام سے روکتا۔ حد سے
بڑھتا گنہگار۔ اجڈ ، اس سب کے پیچھے بدنام‘‘ ( آیت ۱۰۔ ۱۳)
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔