Topics
سیدنا علیہ و الصلوٰۃ و السلام کے خلاف کفار مکہ کی کارستانیاں اپنے عروج پر تھیں باوجود اس کے کہ آپؐ کے اعلیٰ کردار اور کریمانہ اخلاق کے مشرکین معترف تھے اور آپ کے معزز چچا ابو طالب کی حمایت و حفاظت آپﷺ کو حاصل تھی۔ دیگر مسلمانوں خصوصاً کمزور افراد کی ایذاء رسانی کی کاروائیوں کی تفصیل کچھ زیادہ ہی سنگین اور تلخ ہے۔
ابو جہل نے یہ وطیرہ اپنا رکھا تھا کہ جب کسی معزز اور طاقتور آدمی کے مسلمان ہونے کی خبر سنتا تو اسے بُرا بھلا کہتا۔ ذلیل و رسوا کرتا اور مال و جاہ کو سخت خسارے سے دوچار کرنے کی دھمکیاں دیتا اور اگر کوئی کمزور آدمی مسلمان ہوتا تو اسے مارتا اور دوسروں کو بھی برانگیختہ کرتا۔
حضرت عثمان بن عفانؓ جب مسلمان ہوئے تو ان کا چچا انہیں کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر نیچے سے دھواں دیتا تھا۔
حضرت مصعب بن عمیرؓ بھی بڑے نازو نعم میں پلے تھے۔ان کے قبول اسلام کی خبر جب ان کے گھر والوں کو ملی تو گھر والوں نے ان کا دانہ پانی بند کر دیا اور انہیں گھر سے نکال دیا۔ حالات کی شدت سے دوچار ہوئے تو کھال اس طرح ادھڑ گئی جیسے سانپ کینچلی چھوڑتا ہے۔
حضرت عمار یاسرؓ بنو مخزوم کے غلام تھے۔ انہوں نے اور ان کے والدین نے اسلام قبول کیا تو کفار نے اس قدر ظلم کیا کہ وہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ سخت دھوپ کے وقت انہیں پتھریلی زمین پر لٹا کر سینے پر سرخ پتھر رکھ دیتے تھے اور کبھی پانی میں ڈبویا جاتا۔ مشرکین ان سے مطالبہ کرتے کہ جب تک محمدﷺ کو بُرا بھلا نہیں کہو گے یا لات و عزیٰ کے بارے میں کلمہ خیر نہ کہو گے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ حضرت عمارؓ ان کی بات ماننے پر مجبور ہو گئے اور روتے ہوئے خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی:
ترجمہ:
’’ جو کوئی منکر ہو اللہ سے یقین لائے پیچھے مگر وہ نہیں جس پر زبردستی کی اور اس کا دل برقرار رہے ایمان پر، لیکن جو کوئی دل کھول کر منکر ہوا سو ان پر غضب ہے اللہ کا اور ان کو بُری مار ہے" ۔ (النحل ۔۱۰۶)
حضرت عمارؓ نے اسی ظلم و ستم کے نتیجہ میں شہادت پائی۔ ان کی والدہ حضرت سمیہؓ اسلام کی پہلی شہید خاتون تھیں جن کو ابو جہل نے نیزہ مار کر شہید کر دیا تھا۔
حضرت خباب بن ارت اُم انمار کے غلام تھے۔ ان کی مالکہ قبیلہ خزاء سے تعلق رکھتی تھی۔ قبیلہ والوں نے حضرت خباب کو سزا دینے کا یہ طریقہ استعمال کیا کہ دھکتے ہوئے انگاروں پر لٹا کر ان کے اوپر پتھر رکھ دیتے تھے ۔ ان کے بال نوچے جاتے اور گردن تکلیف دہ حد تک مروڑتے تھے۔
حضرت فکہیہؓ جن کا نام ا فلج تھا، بنی عبد الدار کے غلام تھے۔ ان کے پاؤں رسی سے باندھ دئیے جاتے اور زمین پر گھسیٹا جاتا۔
حضرت عمرؓ قبیلہ بنی عدی سے تعلق رکھتے تھے۔ قبیلہ کے خانوادہ بنی مؤمل کی خادمہ مسلمان ہو گئیں تو حضرت عمرؓ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ، انہیں اس قدر مارتے تھے کہ مارتے مارتے خود تھک جاتے اور کہتے تھے کہ میں نے تجھے تھک جانے کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔ مشرکین بعض صحابہ کو اونٹ اور گائے کی کچی کھال میں لپیٹ کر دھوپ میں ڈال دیتے تھے۔ بعض صحابہ کو لوہے کی زرہ پہنا کر جلتے ہوئے انگاروں یا پتھر پر لٹا دیتے تھے۔
پہلے غلام جو حضرت زیدؓ کے بعد حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے وہ حضرت بلال حبشیؓ تھے۔ جزیرۃالعرب میں تین چیزیں کسی انسان کے لئے مکمل تیرہ بختی کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔ ایک اجنبی یا بیگانہ ہونا، دوسرے غلام ہونا اور تیسرے سیاہ فام ہونا اور حضرت بلالؓ میں یہ تینوں چیزیں موجود تھیں۔ جب ان کے مالک کو یہ اطلاع ملی کہ بلال مسلمان ہوگئے ہیں تو وہ انہیں مکہ سے باہر لے گیا اور ان کے کپڑے اتروا کر انہیں دہکتے ہوئے سورج کے نیچے تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا۔ ان کے ہاتھ پیر باندھ دیئے اور سینہ پر بھاری پتھر رکھوا دیا اور ان سے کہا کہ یا تو اسلام کو چھوڑ دے یا تپتی ہوئی ریت پر پڑا رہ۔ یہاں تک کہ تیری جان نکل جائے۔ حضرت بلالؓ یہ جانتے تھے کہ ان کامالک اپنے کئے پر عمل کرے گا اور ان کے ہاتھ پیر نہیں کھولے گا لیکن انہوں نے دین حنیف سے دستبردار ہونے کے بجائے موت سے ہم آغوش ہونا گوارا کر لیا اور مرنے کے لئے تیار ہو گئے۔ لیکن اسی دوران عبد اللہ بن عثمان جو حضرت ابو بکرؓ کے نام سے مشہور تھے حضرت بلالؓ کو نجات دلانے کی غرض سے ان کے مالک کے پاس پہنچے اور ان کے سامنے حضرت بلالؓ کو خریدنے کی تجویز پیش کر دی۔ حضرت بلالؓ کے مالک نے جب یہ دیکھا کہ حضرت ابو بکرؓ اس کے غلام کو بہت مناسب قیمت پر خرید رہے ہیں تو اس نے انہیں بیچنے پر رضا مندی ظاہر کر دی اور حضرت ابو بکرؓ نے حضرت بلالؓ کو خریدنے کے بعد آزاد کر دیا۔
دو عورتیں جو حضرت عمرؓ کی خادمہ تھیں حلقۂ اسلام میں داخل ہو گئیں ۔ ان میں سے ایک کا نام ’’ لبنیہ‘‘ اور دوسری کا نام ’’ زنیرہ‘‘ تھا ۔ عمر حضرت بلالؓ کے مالک کی طرح شقی القلب نہ تھے کہ ان کنیزوں کو بندھوا کر تپتی ہوئی زمین پر پھینک دیں بلکہ انہوں نے ان دونوں کو کوڑوں کی سزا کا مستحق سمجھا اور ان سے کہا کہ میں اس وقت تک تم پر کوڑے برساتا رہوں گا جب تک دو باتوں میں سے ایک پوری نہیں ہوگی۔ تم محمدؐ کے دین کو چھوڑ دو یا تمہاری جان نکل جائے۔ اگرچہ ان دونوں کنیزوں کا بدن لہولہان ہو چکا تھا لیکن انہوں نے محمدؐ کے دین کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ یہاں ایک بار پھر حضرت ابو بکرؓ ان کنیزوں کی مدد کو آگے بڑھے اور عمر سے کہا کہ وہ ان کنیزوں کو ان کے ہاتھ فروخت کر دیں۔ عمر نے دونوں کنیزوں کو حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھوں فروخت کر دیا اور انہوں نے دونوں کو آزاد کر دیا۔
چوتھی عورت جو اسلام لائی وہ صحرا میں رہنے والی ایک خاتون تھی جس کا نام غزیہ ؓ تھا۔ غزیہ کنیز نہیں تھی۔ وہ مکہ آنے کے بعد مسلمان ہو گئی اور پھر کھلے عام لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے لگی ۔ صحرا نشین عورتیں بھی بدوی مردوں کی طرح بہت بے باک اورنڈر ہوتی تھیں لہٰذا وہ خاتون بھی اہل قریش کے ڈرانے دھمکانے سے قطعاً خوفزدہ نہ ہوئی۔ قبیلہ قریش کے لوگوں نے جب دیکھا کہ حضرت غزیہؓ کسی طور بھی اسلام کی تبلیغ سے دستبردار نہیں ہوتیں تو انہیں اغواء کر کے مکہ سے باہر جانے والے ایک قافلے کے پاس لے گئے اور ایک اونٹ پر بٹھا کر مضبوطی سے رسیوں سے باندھ اور قافلہ والوں کے سپرد کرتے ہوئے بولے کہ اس عورت کو پانی اور غذا بالکل نہ دینا تا کہ یہ بھوک اور پیاس کی شدت سے ہلاک ہو جائے اور جب تمہیں یہ یقین حاصل ہو جائے کہ یہ مر چکی ہے تو اس کی لاش کو اونٹ سے اتار کر صحرا میں پھینک دینا تا کہ صحرائی جانوروں کا لقمہ بن جائے اور اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت غزیہؓ کہتی ہیں کہ تین دن بھوک اور پیاس نے مجھے بالکل نڈھال کر دیا تھا۔ لیکن چوتھے دن مجھے اپنے ہونٹوں پر ٹھنڈے پانی کی نمی محسوس ہوئی اور میں نے بے اختیا ر ہو کر پانی پینا شروع کر دیا اور اتنا پیا کہ میری پیاس بجھ گئی ۔اگلے دن قافلے والوں نے جو یہ تصور کر رہے تھے کہ میں بھوک اور پیاس کی شدت سے ہلاک ہو چکی ہوں جب مجھے ہشاش بشاش دیکھا تو انہیں حیرت ہوئی اور جب میں نے انہیں گذشتہ رات کا واقعہ سنایا تو وہ اپنے کئے پر نادم ہوئے اور انہوں نے میری رسیاں کھول دیں اور مجھ سے بڑی عزت و احترام کے ساتھ پیش آئے۔
ابو جہل کی ایک کنیز جس کا نام سمیہؓ تھا مسلمان ہو گئی تو ابو جہل نے انہیں بلایا اور حکم دیا کہ فوری طور پر نئے دین سے دستبردار ہو جاؤ۔ سمیہؓ نے جواب میں کہا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کو نہیں چھوڑ سکتی۔ ابو جہل نے طیش میں آکر اپنی ناتواں کنیز پر تازیانے برسانے شروع کر دیئے اور انہیں اتنا مارا کہ وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر گئیں۔ حضرت ابو بکرؓ اس واقعہ سے مطلع ہو گئے وہ ابو جہل کے گھر پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ سمیہؓ بے جان زمین پر پڑی ہوئی ہیں ۔ حضرت ابو بکرؓ نے ابو جہل سے کہا کہ میں اس کنیز کو خریدنا چاہتا ہوں ابو جہل بولا کہ میں اسے نہیں بیچنا چاہتا ۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا کہ اے ابو جہل اگر تو سمیہؓ کو فروخت کرنے پر رضامند ہو جائے تو میں تجھے ایک سو دینار ادا کرنے پر تیار ہوں۔ ابو جہل غرایا کہ میں اسے نہیں بیچوں گا۔ حضرت ابو بکرؓ نے قیمت بڑھا دی اور بولے کہ میں تمہیں سمیہؓ کے بدلے ڈیڑھ سو دینار دینے کو تیار ہوں۔ لیکن ابو جہل کی ضد برقرار رہی اور وہ بولا کہ میں سمیہؓ کو فروخت نہیں کروں گا۔ حضرت ابو بکرؓ قیمت بڑھاتے رہے لیکن ہر بار ابو جہل کا جواب وہی تھا کہ اپنی لونڈی کا سودا نہیں کرنا چاہتا۔ حضرت ابو بکرؓ نے جو اپنی ساری دولت اسلام کی راہ پر خرچ کر چکے تھے جب یہ دیکھا کہ ابو جہل کسی طور بھی سمیہؓ کو فروخت کرنے پر راضی نہیں تو انہوں نے ایک نئی تجویز پیش کی اور ابو جہل سے کہا کہ اگر تو سمیہؓ کو میرے ہاتھوں فروخت کرنے پر راضی ہو جائے تو میں تجھے’’ ابلِ قاضیہ‘‘دینے کو تیار ہوں۔ ’’ اہلِ قاضیہ ‘‘بادیہ نشین عربوں کی مخصوص اصطلاح کا نام تھا۔اس کا اطلاق دراصل ان اونٹوں پر ہوتا تھا جو کسی کے قتل کے بدلے میں اس کے لواحقین کو دیئے جاتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں ’’ابل قاضیہ‘‘اس خون بہا کا نام تھا جو مقتول کے ورثاء کو ادا کیا جاتا تھا اور اس عنوان سے منہ مانگی رقم طلب کی جا سکتی تھی۔ ابو جہل کے دل میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں اتنی کدورت اور عداوت موجود تھی کہ وہ منہ مانگی قیمت پر بھی اپنی کنیز کو حضرت ابو بکرؓ کے ہاتھوں فروخت کرنے پر رضا مند نہ ہوا۔ حضرت ابو بکرؓ نے اس دن تک چھ بردوں کو خرید کر آزاد کر دیا تھا جن میں دو مرد اور چار عورتیں شامل تھیں۔ لیکن اس بار وہ سمیہؓ کو رہائی دلانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جب قریش کی عورتوں نے سنا کہ سمیہؓ ہر روز ابو جہل کے گھر میں تازیانے کھاتی ہے لیکن اسلام کو چھوڑنے پر تیار نہیں تو وہ ابو جہل کے پاس سفارش لے کر گئیں اور اس سے درخواست کی کہ وہ اس عورت کو کو تازیانے مارنا بند کر دے جس نے قریش کی بے شمار عورتوں کی مدد کی ہے۔ لیکن ابو جہل نے ان کی درخواست کو بھی ٹھکرا دیا۔ ابو جہل نے سمیہؓ پر اتنے کوڑے برسائے کہ ان کا سارا بدن خون ہو گیا اور ان میں ہلنے جلنے کی سکت نہ رہی لیکن وہ اس کے باوجود یہی کہتی رہیں کہ میں محمدؐ کے دین سے روگردانی نہیں کر سکتی۔ جب ابو جہل اپنی کنیز کے ایمان کو بدلنے میں ناکام ہو گیا تو اسے قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ایک دن حضرت سمیہؓ کو خانہ کعبہ کے سامنے لا کھڑا کر دیا اور جب اہل مکہ وہاں جمع ہو گئے تو ابو جہل نے اتمامِ حجت کے طور پر حضرت سمیہؓ سے پوچھا کہ آیا تو اب بھی محمد ؐ کے دین کو چھوڑنے پر تیار نہیں؟ حضرت سمیہؓ نے جواب دیا ’’ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دین کو ہر گز نہیں چھوڑوں گی‘‘۔ ابو جہل نے جھلا کر کہا پھر میں تجھے یہیں اور اسی وقت موت کے گھاٹ اتار دوں گا۔اس کے بعد ابو جہل نے اہل مکہ کی آنکھوں کے سامنے اپنا نیزہ اتنی قوت سے حضرت سمیہؓ کے سینے میں گھونپ دیا کہ نیزے کا سرا اس ناتواں عورت کی پیٹھ سے باہر نکل آیا ۔ حضرت سمیہؓ اسلام کی راہ میں شہید ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔ روایت ہے کہ جب حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت سمیہؓ کی رہائی کے سلسلے میں حضرت ابو بکرؓ کی جدوجہد سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے ابو بکرؓ کے حق میں دعا کی کہ’’ خدا تیرے چہرے کی درخشندگی کو برقرار رکھے‘‘ ۔
سمیہؓ کے قتل کے بعد قریش کے سرکردہ لوگوں میں سے چار افراد نے جن میں ابو سفیان ، ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل بھی شامل تھی ، یہ پابندی لگا دی کہ مکہ کا رہنے والا کوئی شخص آج کے بعد اپنا کوئی غلام یا کنیز ابو بکرؓ کے ہاتھوں فروخت نہیں کرے گا۔ وہ لوگ یہ جان چکے تھے کہ اسلام کو غریب طبقہ اور خاص طور پر غلاموں میں تیزی سے مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور جو غلام بھی مسلمان ہو جاتا ہے ابو بکرؓ اسے خرید کر آزاد کر دیتے ہیں۔
کچھ صاحب حیثیت لوگ جن میں عثمان بن عفان جو عبدالمطلب کے بھتیجے تھے، عبدالرحمٰن بن عوف اور سعد بن ابی وقاصؓ حضرت آمنہؓ کے بھتیجے اور طلحہ بن عبیداللہ اور سعد بن عمروؓ شامل تھے جب مسلمان ہو گئے اور مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو قبیلہ قریش میں وحشت اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ نو مسلمانوں کا شمار مکہ کے جانے پہچانے اور ممتاز لوگوں میں ہوتا تھا۔ لہٰذا قریش نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایذا پہنچانے اور پریشان کرنے کے نئے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خانہ کعبہ جانے کے لئے جب بھی اپنے گھر سے باہر نکلتے تو آپ کی جان خطرے میں ہوتی تھی۔ اوباش لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی راہ میں کمین لگا کر بیٹھ جاتے اور جیسے ہی آپ ﷺ خانہ کعبہ جانے کے لئے اپنے گھر سے باہر قدم نکالتے یا کہیں اور جانے کا ارادہ کرتے تو وہ لوگ ان پر پتھر برساتے اور ان کے لباس کو گندگی سے آلودہ کر دیتے تھے۔ قبیلہ قریش کے لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دشمنی میں اتنے آگے نکل گئے کہ انہوں نے خانہ کعبہ کا احترام بھی پس پشت ڈال دیا۔ دونوں مرتبہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پرقاتلانہ حملہ ہوا وہ خانہ کعبہ میں ہوا اور پہلا مسلمان مرد جو اسلام کی راہ میں شہید ہوا وہ بھی خانہ کعبہ ہی میں قتل کیا گیا۔
ایک دن جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خانہ کعبہ سے اپنے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے تو قریش کے افراد نے اس شدت سے ان کے اوپر پتھراؤ کیا کہ جب وہ گھر پہنچے تو نڈھال ہو کر گر پڑے اور شدید زخمی ہو جانے کے باعث اگلے دن خانہ کعبہ نہ جا سکے۔ اس روز جب دوسرے مسلمان عبادت کی غرض سے خانہ کعبہ پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ آج حضور ؐ خانہ کعبہ نہیں آ سکتے لہٰذا انہوں نے اپنے طور سے عبادت شروع کر دی اور جب وہ لوگ سجدے میں گئے تو ان پر اچانک حملہ کر دیا گیا۔ اس حملے کے نتیجے میں کئی مسلمان شدید زخمی ہو گئے اور حضرت حارثؓ جو حضرت خدیجہ کے فرزند اور حضورؐ کے سوتیلے بیٹے تھے بیت اللہ میں شہید کر دیئے گئے۔ اس واقعہ کے بعد قبیلہ قریش کے افراد شب و روز خانہ کعبہ کی نگرانی کرنے لگے تا کہ حضور ؐ اور ان کے پیروکاروں کو خانہ کعبہ میں داخل ہونے سے روک سکیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب یہ دیکھا کہ اب وہ اپنے اصحاب کے ساتھ خانہ کعبہ میں عبادت نہیں کر سکتے تو انہوں نے مکہ سے باہر ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو اطراف کی زمینوں سے گہرائی میں تھی۔ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دن میں دوبار نماز قائم کرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں جانے لگے۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کرنے والوں میں سے ایک شخص ایسا تھا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے انتہا درجے کی دشمنی رکھتا تھا۔ وہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا رضائی بھائی ابو سفیان تھا۔ ابو سفیان کا کہنا تھا کہ قریش کو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو خطرہ لاحق ہے وہ صرف اسی صورت میں ٹل سکتا ہے کہ انہیں جان سے مار دیا جائے۔
حضرت ابو ذر غفاریؓ جلیل القدر صحابی اور حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے جانثار ساتھی تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ غفار سے تھا۔ یہ قبیلہ مکہ کے شمال میں سکونت پذیر تھا۔ بادیہ نشین عربوں کی رسم کے مطابق سال میں چار مہینے کے لئے غارتگری اور ڈکیتی حرام ہوتی تھی اور ان مہینوں کو ماہ حرام کہتے تھے۔ اسی طرح مکہ کی زیارت پر جانے والے افراد پر حملہ کرنے کی ممانعت بھی تھی لیکن قبیلہ غفار کے لوگ مذکورہ رسومات اور قوانین کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ وہ ماہ حرام میں قافلوں پر لوٹ مار کے غرض سے حملہ کرتے اور مکہ کی زیارت پر جانے والوں کو بھی معاف نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ذیقعد کے مہینے میں قبیلہ والوں نے اپنی حدود سے گزرنے والے ایک قافلے پر حملہ کر کے قافلہ کا مال اسباب لوٹ لیا اور قافلے میں شامل مرد، عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا۔
حضرت ابو ذر غفاریؓ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہیں شدید ندامت اور پریشانی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنا قبیلہ چھوڑ دیا۔ کئی ماہ صحرا نوردی کرنے کے بعد مکہ پہنچ گئے۔ یہاں ابو ذرؓ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام سنا اور یہ جانا کہ وہ لوگوں کو یکتا خدا کی طرف بلاتے ہیں اور انہیں برے کاموں سے پرہیز کرنے اور شرک کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ابو ذرؓ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملنے کا فیصلہ کر لیا اور ایک راہگیر سے پوچھا کہ حضورﷺ کا گھر کہاں ہے۔ اس شخص نے تعجب خیز نگاہوں سے ابوذرؓ کی طرف دیکھا اور پھر اونچی آواز سے چلانے لگا۔ ’’ اے لوگو ! ادھر آؤ اسے پکڑو اور مار ڈالو کیونکہ یہ ایک مسلمان ہے جو آج ہمارے ہاتھ لگ گیا ہے‘‘ ۔ پلک جھپکتے ہی لوگوں نے ابوذرؓ پر حملہ کر دیا اور وہ بوکھلا کر اپنی جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑے ہوئے لیکن قریش نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور ان پر پتھروں کی بارش کر دی ۔ اتنے پتھر برسائے کہ وہ نڈھال ہو کر زمین پر گرگئے اور مکہ والوں نے مردہ سمجھ کر انہیں وہیں چھوڑ دیا۔ کسی مسلمان کے سنگسار کئے جانے کی اطلاع حضرت ابو بکرؓ کو مل گئی تھی لہٰذا وہ رات کی تاریکی میں آئے اور ایک دوسرے مسلمان کی مدد سے ابو ذرؓ کو اُٹھا کر لے گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ ابو ذرؓ مسلمان نہیں بلکہ وہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ دوسرے دن ابو ذرؓ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کی۔ بعد میں حضرت ابو ذرؓ کا شمار اسلام کے نامور مسلمانوں میں ہونے لگا اور انہوں نے اپنے قبیلے کو مسلمان کر لیا۔ ان کا قبیلہ جو صرف لوٹ مار کے ذریعے زندگی گزارتا تھا اپنے نفرت انگیز اعمال سے ہمیشہ کے لئے دستبردار ہو گیا۔ اس واقعہ سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ مکہ کے باشندے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی دشمنی میں اتنے بڑھ گئے تھے کہ اگر کوئی ان کے گھر کا پتہ پوچھتا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ پتہ پوچھنے والا یا تو کوئی مسلمان ہے یا پھر مسلمان ہونا چاہتا ہے لہٰذا اس پر سنگباری شروع کر دیتے تھے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔