Topics
ایک دن جب کچھ لوگ ابو جہل کے اکسانے پر سیدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام کی طرف پتھر پھینک رہے تھے تو اس منظر کو دیکھنے والا ایک شخص حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا ’’ حمزہ‘‘ کے پاس پہنچا جو اپنے وقت کے مشہور پہلوان سمجھے جاتے تھے۔ حمزہؓ شکار سے واپس آرہے تھے۔ اس شخص نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا۔’’اے حمزہ ! تیری غیرت اور حمیت یہ کیونکر گوارہ کرتی ہے کہ لوگ تیرے بھتیجے کو سنگسار کریں بُرا بھلا کہیں اور تو جو دلیروں اور بہادروں میں شمار ہوتا ہے اس کی کوئی مدد نہ کرے؟‘‘حضرت حمزہؓ کو اس دن تک حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دین میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن جب انہوں نے یہ سنا کہ لوگ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو پتھروں سے مارتے ہیں انہیں زدوکوب کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ لوگ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو دشنام بھی دیتے ہیں تو ان کی حالت دگرگوں ہو گئی اور انہوں نے اس شخص سے پوچھا کہ میرے بھتیجے کو جو دشنام دیئے جاتے ہیں وہ کیا ہیں؟ اس شخص نے جب چند ایسے الفاظ کو دہرایاجنہیں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمن ان کے لئے استعمال کرتے تھے تو حضرت حمزہؓ کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہو گیا۔
عرب زبان سے نکلی ہوئی ہر بات کو انتہائی اہمیت اور وقعت دیتے تھے ۔ عرب قبائل میں دشنام گوئی کرتے وقت کسی قریبی رشتہ دار کا نام لینا ایک ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا تھا۔ کسی قبیلے کے کسی بھی فرد کو برا بھلا کہنا ایسا تھا جیسے پورے قبیلے کو توہین کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی قبیلے کے تمام ارکان آپس میں خون کے رشتے میں منسلک ہوتے تھے۔ حضرت حمزہؓ اسی حالت میں ابو جہل کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر پتھر پھینکنے والوں کا سرغنہ ابو جہل ہی ہے۔وہاں پہنچ کر ابو جہل کی بری طرح پٹائی کر دی اور کہا ’’اے ابو جہل ! تو سمجھتا ہے کہ محمدﷺبے آسرا ہے اور اس کا کوئی نہیں اور اسی لئے تو اس پر پتھر برساتا ہے اور اسے دشنام دیتا ہے؟ لیکن اب جان لے کہ میں آج سے محمدﷺ کے دین میں داخل ہو گیا ہوں اور آج کے بعد جو کوئی بھی محمدﷺ کو دشنام دے گا تو اس کا واسطہ مجھ سے ہو گا‘‘ ۔
حضرت حمزہؓ کا مسلما ن ہو جانا اسلام کے لئے بڑا خوش آئند تھا کیونکہ حضرت حمزہؓ کا شمار مکہ کے نامور دلیروں میں ہوتا تھا۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت حمزہؓ کے مسلمان ہو جانے کے بعد کچھ اور لوگ بھی مسلمان ہو گئے اوریوں مسلمانوں کی تعداد تیس سے زیادہ ہو گئی۔ مکہ کے رہنے والے اور خاص طور پر قبیلہ قریش کے افراد اسلام کو پھیلتا دیکھ کر مزید تشویش میں مبتلا ہو گئے اور انہوں نے ’’ دارالندوۃ‘‘ میں جمع ہو کر مشورہ کرنا شروع کر دیا کہ محمدؐ کے دین کو کس طرح نا بود کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ لوگ اپنے مذاکرات سے کوئی خاص نتیجہ اخذ نہیں کر سکے۔ جب دارالندوۃ کا اجلاس ختم ہوا تو عمر بن خطاب نے یہ اعلان کر دیا کہ میں خود ہی محمدﷺ کو قتل کر کے اہل مکہ کو اس مشکل سے نجات دلا دوں گا۔ راستے میں نعیم بن عبد اللہؓ نے عمر کو تیز تیز قدموں سے جاتے دیکھا تو پوچھا ، اے عمر ! کہاں جا رہے ہو؟ عمر نے کہا ، ’’ کسی نے ہمارے اجداد کی اتنی توہین نہیں کی جتنی محمدؐ کرتا ہے۔ اس شخص نے اپنے نئے دین کی وجہ سے تمام اہل مکہ کا چین و آرام ختم کر دیا ہے۔ ہمارے بزرگوں کے دین کو باطل قرار دیتا ہے، کہتا ہے کہ ہمیں اپنے خداؤں کی پرستش چھوڑ دینی چاہئے۔میں جا رہا ہوں کہ اسے موت کے گھاٹ اتار دوں‘‘ ۔ نعیمؓ نے کہا۔ یا عمر !تمہارے دو قریبی عزیز بھی مسلمان ہیں ۔ ان میں سے ایک تمہاری بہن فاطمہ اور دوسرا اس کا شوہر سعید بن زید ہے۔ جب عمر گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی بہن فاطمہؓ ان کے شوہر سعید بن زیدؓ اور ایک دوسرے مسلمان حضرت خبابؓ قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں۔ عمر غصہ میں لال بھبوک ہو گئے اور اپنی بہن اور ان کے خاوند پر اتنے کوڑے برسائے کہ جسم میں جگہ جگہ سے خون بہنے لگا۔
عمر نے اپنی بہن کو حکم دیا کہ اگر تم مجھ پر اتنے کوڑے برساؤ کہ میری جان نکل جائے تو بھی میں محمدؐ کے دین کو نہیں چھوڑوں گی اور اگر تم بھی قرآن کی تلاوت کرو تو جان جاؤ گے کہ یہ دین سچا اور بر حق ہے۔ عمرؓ نے اپنی بہن کے خاوند کو کہا کہ وہ قرآن کو سنائیں ۔ سورۃ طہٰ کی چند آیات تلاوت کی گئیں۔
ترجمہ:
طٰہٰ۔
اس واسطے نہیں اتارا ہم نے تجھ پر قرآن کہ تو محنت میں پڑے۔
مگر نصیحت کے واسطے جس کو ڈر ہے۔
اتارا ہے اس کا جس نے بنائی زمین اور آسمان اونچے۔
وہ بڑی مہر والا تخت کے اوپر قائم ہوا۔
اس کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں اور زمین میں اور ان کے بیچ اور نیچے سیلی زمین کے۔
اور اگر تو بات کہے پکار کر تو اس کو خبر ہے چھپے کی اور اس سے چھپے کی۔
اللہ ہے جس کے سوا بندگی نہیں کسی کی، اس کے ہیں سب نام خاصے۔
اور پہنچی ہے تجھ کو بات موسیٰ کی۔
جب اس نے دیکھی ایک آگ ، تو کہا اپنے گھر والوں کو، ٹھہرو ! میں نے دیکھی ہے ایک آگ شاید لے آؤں تم پاس اس میں سے سلگا کر، یا پاؤں اس آگ پر راہ کا پتا۔
پھر جب پہنچا آگ پاس ، آواز آئی اے موسیٰ !
میں ہوں تیرا رب سو اتار اپنی پاپوشیں تو ہے پاک میدانِ طویٰ میں۔
اور جس نے تجھے پسند کیا سو تو سنتا رہ جو حکم ہو۔
میں جو ہوں ، میں اللہ ہوں کسی کی بندگی نہیں سوا میرے سو میری بندگی کر، اور نماز قائم رکھ میری یاد کو۔
(آیت ۱ ۔ ۱۴)
حضرت عمرؓ قرآن سن کر غور و فکر میں ڈوب گئے ۔ پھر گویا ہوئے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو میں بھی مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ حضرت خبابؓ جو اس مار پیٹ کے دوران چھپ گئے تھے، سامنے آگئے اور کہنے لگے ، اے عمر ! خوش ہو جاؤ کہ رسول اللہ ﷺ کی دعا تمہارے حق میں قبول ہو گئی ہے۔سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دعا فرمائی تھی:
" اے قادر مطلق ! میرا کام کوشش کرنا اور کامیابی دینا تیرا کام ہے۔ اسلام کے دو بد ترین دشمنوں عمر بن ہشام (ابو جہل) یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو نور ایمان عطا فرما کہ کمزور مسلمانوں کو ہمت حاصل ہو‘‘ ۔
دارارقم (۱)کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ایک صحابیؓ نے جھانک کر دیکھا تو حضرت عمر بن خطابؓ تلوار حمائل کئے نظر آئے۔
(۱)دارارقم کوہِ صفاء پر واقع ارقم بن ابی الارقم مخزومی کا مکان تھا۔ جسے نبوت کے پانچویں سال میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے اجتماع اور تبلیغ کی سر گرمیوں کے مرکز کے طور پر استعمال کیا۔
سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اطلاع دی گئی ۔ سیدنا امیر حمزہؓ نے جو تین دن قبل ایمان لائے تھے کہا ’’ دروازہ کھول دو اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو ہم اسے خیر عطا کریں گے اور اگر کوئی بُرا ارادہ لے کر آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اس کا کام تمام کر دیں گے۔‘‘
حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کی خوشی میں صحابہ کرام نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ مسجد الحرام میں موجود لوگوں نے بھی یہ صدائے حق سن لی۔
حضرت عمرؓ نے صحابہ کرام کو دو صفوں میں ترتیب دیا ایک میں حضرت حمزہؓ اور ایک میں حضرت عمرؓ تھے۔ سب سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زیر سایہ مسجد الحرام کی جانب روانہ ہوئے۔ عمر و حمزہ کے جلو میں پیغمبر اسلامؐ اور ان کے ساتھیوں کو جرأت مندی سے آتا دیکھ کر قریش مکہ میں کہرام مچ گیا۔ اس موقع پر سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے حضرت عمرؓ کو’’ فاروق‘‘کے لقب سے نوازا۔
حضرت عمرؓ اس کے بعد دشمن اسلام ابو جہل کے مکان پر پہنچ گئے ۔ ابو جہل باہر آیا اورخوشخبری سننے کے اشتیاق میں کہنے لگا۔
’’خوش آمدید ، خوش آمدید کیسے آنا ہوا؟‘‘حضرت عمرؓ نے کہا ، میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لا چکا ہوں، اور محمد الرسولﷺ جو کچھ لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق کر چکا ہوں۔ ابو جہل کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور دروازہ بند کرتے ہوئے بولا، اللہ تیرا بُرا کرے اور جو کچھ تو طے کر آیا ہے اس کا بھی بُرا کرے۔
حضرت عمرؓ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کی خبر جمیل بن معمر حمجی کو دی جو کسی بات کا ڈھنڈورہ پیٹنے میں ممتاز تھا تو اس نے چیخ چیخ کر لوگوں کو بتانا شروع کر دیا کہ خطاب کا بیٹا بے دین ہو گیا ہے۔ حضرت عمرؓ اس کے پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے۔ بولے یہ جھوٹ بولتا ہے میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ لوگ اگرچہ حضرت عمرؓ کی عزت و قوت، شرف اور زور بازو سے خائف رہتے تھے۔ لیکن اس وقت بہت بڑی تعداد نے مل کر انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ حضرت عمرؓ بھی لوگوں کو مار رہے تھے یہاں تک کہ سورج سر پر آ گیا اور حضرت عمرؓ تھک کر بیٹھ گئے۔ حضرت عمرؓ نے لوگوں سے کہا جو بن پڑے کر لو۔ خدا کی قسم اگر ہم لوگ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکہ میں تم رہتے یا ہم رہتے۔
حضرت عمرؓ کے خلاف انفرادی سطح پر کوئی اقدام اٹھانے سے مشرکین گھبراتے تھے۔ وہ جم غفیر کی صورت میں اکٹھے ہوئے اور حضرت عمرؓ کے گھر پر ہلہ بول دیا تاکہ انہیں جان سے مار ڈالیں۔ اس دوران قبیلہ سہم جو حضرت عمرؓ کا حلیف قبیلہ تھا، سے تعلق رکھنے والے ابو عمرو عاص بن وائل سہمی آگئے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے قبول اسلام اور قوم کے دشمن بن جانے کا تذکرہ کیا ۔ ابو عمرو بن عاص یہ سن کر باہر نکلے اور لوگوں کی بھیڑ سے پوچھا کیا ارادہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ خطاب کا بیٹا مطلوب ہے جو بے دین ہو گیا ہے ۔ ابو عمرو نے کہا کہ تم لوگ اس تک نہیں پہنچ سکتے وہ میری پناہ میں ہے۔ لوگ یہ سن کر مایوس ہوئے اور واپس چلے گئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔