Topics
قریش مکہ نے مدینہ پر سیاسی تسلط قائم کرنے کے لئے یہودیوں کے ساتھ جنگی معاہدہ کیا اور بنی فزارہ کو اور بنی غطفان قبیلوں کو بھی اپنا اتحادی بنا لیا۔ طے یہ پایا کہ اس سال کھجوروں کی ساری فصل قبیلہ غطفان اور بنی فزارہ کو دے دی جائے اور اس کے بدلے میں وہ لوگ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف قریش مکہ اور یہودیوں کی مدد کریں گے۔ مدینہ کے مشرق میں قبیلہ بنو سلیم آباد تھا۔ قریش نے اس قبیلہ کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور اس کے علاوہ دو اور قبیلے جن کا نام کنان اور ثاقف تھا قریش کے اتحادی بن گئے اور یوں ان کے بزعم خود مدینہ پر قریش کا سیاسی تسلط قائم ہو گیا اور بہت جلد یہ سیاسی محاصرہ ایک مکمل اقتصادی پابندی میں تبدیل ہو گیا۔اس صورتحال میں مدینہ کے تجارتی قافلے شمال جنوب اور مشرق کی طرف نہیں جا سکتے تھے۔شام کی سرحد کے نزدیک اب ایک ہی شہر دومتہ الجندل ایسا تھا کہ جس سے تجارتی قافلے گزر سکتے تھے اور وہاں کے حکمران نے بھی مسلمان قافلوں پر پابندی لگا دی۔ مسلمان تاجروں کے لئے ضروری تھا کہ مدینہ کے شہریوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے یہ راستہ استعمال کریں۔ مدینہ کی سیاسی اور اقتصادی ناکہ بندی مکمل ہونے کے بعد اتحادیوں اور جملہ منافقوں کے سربراہ عبداللہ بن ابی نے پیغمبر اسلامؐ اور عام مسلمانوں کے خلاف ایک نئی سازش کا منصوبہ بنایا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے سے باہر بلایا جائے اور جب محمدصلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں نہ ہوں تو اچانک حملہ کر کے مسلمانوں کا قتل عام کر دیں۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے قبیلہ بنو مصطلق کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔
سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کو جب پتہ چلا کہ بنو مصطلق کا قبیلہ مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو جوابی کاروائی کا فیصلہ صادر کر دیا۔ ادھر منافقوں کا سربراہ عبداللہ بن ابی مسلمانوں کے قتل کی تدبیر کر رہا تھا۔ ادھر اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک گروہ کی قیادت اس کے سپرد کی اور اپنے ہمراہ محاذ جنگ پر لے گئے۔ اس طرح منافقوں کی جماعت مدینہ میں سربراہ کے بغیر رہ گئی۔ اس حکمت عملی کا یہ نتیجہ نکلا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غیر موجودگی میں مدینہ پر حملہ کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔اس سفر میں کل تیس افراد تھے۔ جن میں دس افراد مہاجر اور بیس انصار تھے۔ جبکہ بنو مصطلق کا لشکر دو سو سپاہیوں پر مشتمل تھا۔ قبیلہ بنو مصطلق کے دس افراد موت کے گھاٹ اُتر گئے اور پورا قبیلہ اسیر ہو گیا۔ اس جنگ میں ایک مسلمان شہید ہوا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔