Topics
شہر مدینہ بلندی پر واقع ہے۔اس کے شمال اور جنوب میں دو پہاڑ ہیں مدینہ کے تین طرف یعنی مشرق ، مغرب، جنوب میں منجمد شدہ آتش فشاں پھیلا ہوا ہے۔ مدینہ کی آب و ہوا معتدل ہے اور وہاں جزیرۃ العرب کے دوسرے علاقوں کی نسبت بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔
سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام قصویٰ نامی اونٹنی پر سوار جب مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ کے باشندوں نے آگے بڑھ کر اونٹنی کی مہار تھام لی۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی میزبانی کا شرف اسے نصیب ہو۔ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے کہا میری اونٹنی کی لگا م چھوڑ دو میری اونٹنی وہاں بیٹھے گی جہاں خدا کی مرضی ہو گی اور میں بھی وہیں قیام کروں گا جہاں خدا چاہے گا۔سیدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام کی اونٹنی قصویٰ مدینے کے کئی محلوں سے گزری اور محلہ ’’ النجار‘‘ میں داخل ہو گئی۔ مدینہ کے سارے مسلمان پیغمبر ؐکی اونٹنی کے پیچھے چل رہے تھے اور یہ جاننے کے مشتاق تھے کہ اونٹنی کہاں بیٹھے گی۔
قصویٰ کچھ دیر تک قبیلہ النجار کے محلے میں چکر لگاتی رہی پھر ایسے قطعہ زمین میں داخل ہو گئی جو بالکل خالی تھا ۔ اونٹنی وہاں پہنچ کر چند قدم اور آگے بڑھی پھر ٹھہر گئی اور زمین پر گھٹنے ٹیک دئیے۔ اس جگہ پر جہاں اونٹنی نے گھٹنے ٹیکے تھے کوئی گھر موجود نہیں تھااور اس قطعہ زمین کو کھجوریں خشک کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ البتہ وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک گھر تھا اور مسلمانوں نے اپنے پیغمبرعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتایا کہ یہ گھر ابو ایوبؓ نامی شخص کی ملکیت ہے۔ جس جگہ حضورؐ کی اونٹنی بیٹھ گئی تھی وہ زمین دو یتیم بچوں کی تھی۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مالیت سے زیادہ رقم دے کر وہ زمین خرید لی۔ مدینہ پہنچنے کے دوسرے دن پیغمبر اسلامؐ نے مسلمانوں کی مدد سے اس جگہ پر مسجد کی تعمیر شروع کر دی۔ بلا امتیاز سارے مرد جن میں خود حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام بھی شامل تھے اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈھوتے، پتھر لاتے، گارا بناتے اور مسجد کی تعمیر میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے ۔ مذکورہ مسجد کی تعمیر میں سات ماہ کا عرصہ لگا۔ مسجد کا قبلہ بیت المقدس تھا۔
مسجد میں ان مہاجرین کے لئے جن کے پاس رہنے کے لئے جگہ نہ تھی اینٹوں اور گارے کی مدد سے ایک بہت بڑا چبوترا بنایا جو آج بھی صفہ کے نام سے معروف ہے۔ صفہ میں قیام کرنے والے لوگوں کو’’ اہل صفہ‘‘کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مکہ سے آنے والے مسلمان چونکہ تہی دست تھے اور ان کے پاس رہنے کے لئے جگہ نہیں تھی ، پیغمبر اسلام ؐ نے انصار سے فرمایاکہ مسلمانوں میں کسی ایک کے ساتھ ’’ عہد اخوت‘‘ باندھ لیں اورانہیں اپنے گھروں میں جگہ دیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حصول معاش کا کام کریں ۔ مکہ سے آنے والے ایک سو چھیاسی (۱۸۶) مسلمانوں نے مدینہ کے مسلمانوں یعنی انصار کے ساتھ ’’عہد اخوت‘‘باندھا اور ان لوگوں کے گھروں میں پناہ گزین ہو گئے۔
ترجمہ:
’’ اور جو لوگ ایمان لائے اور گھر چھوڑے اللہ کی راہ میں اور جن لوگوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی ہیں تحقیق ایمان والے ۔ ان کو بخشش ہے اور روزی عزت کی‘‘ ۔ سورۃ الانفال ۔آیت نمبر 74
یہودی قوم حضورؐ سے ناخوش تھی۔ انہوں نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ بوقت ضرورت قریش کا ساتھ دیں گے۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام اپنے رفقاء کے ساتھ جب اہل مکہ کی دسترس سے دور ہو گئے تو قبیلہ قریش نے حضورؐ کے خلاف معاشی حربہ استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ قبیلہ قریش نے جزیرۃ العرب کے شمال میں واقع تجارتی راستوں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور مدینہ کو کچھ اسطرح اقتصادی محاصرے میں جکڑ دیا کہ ہر قسم کی اشیائے ضرورت مدینہ پہنچنا بند ہو گئیں۔
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ کی معاشی ناکہ بندی سے بہت ملول خاطر تھے۔ انہیں احساس تھا کہ قریش نے ان کی دشمنی میں شہر کے سارے باشندوں کو بھوکا رہنے کی سزا دے رکھی ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔