Topics
مورخہ 13مارچ 2001 ء بروز منگل
اللہ تعالیٰ نے جہاں عذاب کا تذکرہ فرمایا ہے وہاں معافی کا اعلان بھی فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔
اگر غلطی ہو جائے میرے پاس آ جاؤ، معافی مانگ لو، میں معاف کر دوں گا۔ دوبارہ غلطی ہو جائے پھر میرے پاس آ جاؤ میں معاف کر دوں گا۔ جتنی بار بھی غلطی ہو جائے میرے پاس آ جاؤ میں رحم کرنے والا ہوں میں معاف کرنے والا ہوں۔
آدمی کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ غلطی نہ کرے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرے۔ لیکن اگر غلطی ہو جائے اور گناہ کا ارتکاب ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے۔
میں نے (خواجہ شمس الدین عظیمی) ایک مرتبہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہئے، معلوم تو ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ میں نے رجسٹر میں لکھنا شروع کر دیا۔ لکھتا چلا گیا، لکھتا چلا گیا۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ میں نے رجسٹر کے کتنے صفحات لکھے۔ میں نے جب ان نعمتوں کو شمارکیا تو معلوم ہوا کہ کوئی ایسی نعمت نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا نہ فرمائی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے والدین عطا فرمائے، بہترین رفیقۂ حیات عطا کی، بیٹے بیٹیاں عطا فرمائیں، روزی عطا فرمائی، بے حساب رزق عطا فرمایا، آنے جانے کے لئے وسائل عطا فرمائے۔ دوست احباب عطا کئے، عزت دی، صحت عطا فرمائی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت اور ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ آگے، پیچھے، نیچے، اوپر جو بھی نعمتیں ہیں، سب عطا ہوئی ہیں۔
میں نے مرشد کریم قلندر بابا اولیاءؒ سے عرض کیا۔۔۔
’’حضور میں اللہ تعالیٰ سے کیا مانگوں؟ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مجھے سب کچھ عطا فرما دیا ہے۔‘‘
قلندر بابا اولیاءؒ لیٹے ہوئے تھے، میری یہ بات سن کر ایک دم اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ نے تیز لہجہ میں فرمایا۔۔۔
’’خواجہ صاحب آپ نے یہ کیا بات کہہ دی۔ خبردار! اس قسم کا خیال آئے تو لاحول والا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پڑھو اور بھائی مانگنے کا کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ سے اللہ تعالیٰ کو مانگو۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ مل جاتا ہے تو کائنات سرنگوں ہوجاتی ہے۔ صفت بستہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے نظر آتے ہیں۔ نسبت سکینہ حاصل ہوجاتی ہے، ایسے بندے کے دل سے ڈر اور خوف نکل جاتا ہے، اس میں قناعت آ جاتی ہے۔
ایک دفعہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے پاس گھوڑا ہونا چاہئے۔ معلوم ہوا کہ فیصل آباد میں اچھا گھوڑا مل جاے گا۔ گھوڑے کی قیمت اتنی زیادہ نہیں تھی کہ ادا نہ ہو سکے لیکن جب غور کیا تو بہت ساری باتیں ذہن میں آ گئیں۔
گھوڑے کے لئے اصطبل چاہئے، چارہ چاہئے، سائیس چاہئے تا کہ وہ گھوڑے کی خدمت کر ے اور اس پر روزانہ سواری کرے۔ اگر اس کی صحیح خدمت نہ کی گئی تو وہ بیمار ہوجائے گا۔ گھوڑے کی ضروریات کی اتنی طویل فہرست بن گئی کہ گھوڑے کا خیال ہی دل سے نکل گیا۔
ہارون الرشید نے ایک دفعہ نمائش لگائی، اس نمائش میں دنیا بھر کی چیزیں تھیں۔ بادشاہ نے اعلان کیا جس کا جو دل چاہے لے جائے۔ ہجوم ہو گیا، لوگوں نے اپنی پسند کی چیزوں کو اٹھانا شروع کر دیا۔ ہارون الرشید کی ایک کنیز تھی اس نے ایک چیز بھی نہیں اٹھائی۔ وہ نہایت ادب سے آگے بڑھی اور بادشاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
آپ غور فرمایئے!
عقل مند کون تھا کنیز یا وہ لوگ جنہوں نے مختلف چیزیں پسند کیں؟ کنیز بادشاہ کا انتخاب کر کے سب سے ممتاز ہو گئی۔ اتنی عقل مند تھی کہ ملکہ بن گئی۔
میرے دوستو! میرے بچو!
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اللہ تعالیٰ کو مانگو۔ جو دنیاوی نعمتیں ہمیں حاصل ہیں یا مطلوب ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہمیں عطا فرما رہے ہیں۔ دنیا کی ہر نعمت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ بے حساب رزق عطا فرماتے ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے جو چیز ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے وہ ہی ہم اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں۔ رزق دینے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔
جو چیزیں حاصل ہیں ان کو خوش ہو کر استعمال کرو اور شکر کرو۔ اس لئے کہ شکر کرنے والے بندے کم ہیں۔
بزرگوں کا فرمانا ہے۔۔۔
’’آیت الکرسی میں اسم اعظم ہے اور جب بندے کو اسم اعظم معلوم ہو جاتا ہے تو دنیا کی ہر شئے اس کے آگے سرنگوں ہو جاتی ہے۔ آیت الکرسی کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے اسم اعظم کی برکتیں مانگیں۔ یہ ضروری ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے، اس کا شکر ادا کریں۔‘‘
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگیں گے مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا دسترخوان وسیع ہے، جتنی حرکت و کوشش کریں گے، وسائل مل جائیں گے۔ وسائل حاصل کرنے کے لئے دعا کے ساتھ ساتھ جدوجہد اور کوشش بھی ضروری ہے۔
عظیمیہ جامع مسجد میں جتنے لوگ موجود ہیں وہ سب چھوٹے سے بڑے ہوئے ہیں، جس طرح بچوں کا ماں باپ سے رشتہ استوار ہے، اسی طرح بندے کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے استوار ہونا چاہئے۔ دعا میں خلوص ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہمارے اندر ایثار ہونا چاہئے۔ ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنے کا جذبہ ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر بندہ کی ضروریات کے کفیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہئے ۔ رسول اللہﷺ کی قربت مانگنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔
مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔