Topics
نبوت کے دسویں سال حج کے لئے مکہ آنے والے قبائل کے سربراہوں سے رابطہ کر کے سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اسلام کی دعوت دی۔ لیکن قبائلی سرداروں میں سے کسی نے بھی آپ ؐ کی باتوں پر توجہ نہ دی۔ قریش نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ محمدؐ مجنوں ہو گئے ہیں ان کی باتوں پر توجہ نہ دی جائے۔ لیکن حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا کام جاری رکھا۔ مکہ اور منیٰ کے درمیان عقبہ کے مقام پر آپ علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کو چند لوگ ملے۔ آپؐ نے ان سے اپنا تعارف کرایا اور وحدۂ لاشریک کی صفات بیان کیں۔ ان کی کل تعدادچھ تھی اور وہ یثرب سے آئے تھے۔ ان کے قبیلے کا نام خزرج تھا۔ ان لوگوں نے آپس میں صلاح و مشورہ کیا اور ان چھ لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ لوگ جب یثرب پہنچے تو انہیں نبی کریم ؐ کے پیغام کو عام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اگلے برس عقبہ کے مقام پر مزید بارہ افراد آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دین حنیف میں داخل ہونے کے بعد یہ عہد لیا گیا:
۱۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔
۲۔ تخریب اور بُرے اعمال سے دور رہیں گے۔
۳۔ جان و مال کے ساتھ سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی حمایت کریں گے۔
۴۔ اسلام کی حمایت اور سربلندی کے لئے مشرکین سے لڑنا پڑا تو لڑیں گے۔
عقیدہ توحید سے سرفراز ہو کر یہ لوگ واپس جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو ان کے ہمراہ کر دیا تا کہ وہ نو مسلم حضرات کو تعلیم دیں۔ اس سے اگلے سال یثرب سے آنے والے لوگوں میں سے ۷۵ افراد نے اسلام قبول کیا اور اسلام کے لئے جان و مال قربان کرنے کے عہد کو دہرایا۔ یثرب میں اسلام کا غلغلہ بلند ہونے اور شب و روز مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ سے مسلمانوں کو ایک پناہ گاہ میسر آگئی۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے مکہ سے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ یثرب کی طرف ہجرت کر جائیں۔ مسلمان اپنا گھر بار اور سب کچھ چھوڑ کر مکہ سے یثرب ہجرت کر گئے۔ مسلمان اگرچہ چھوٹے چھوٹے قافلوں میں ہجرت کر رہے تھے، مگر مکہ میں یہ بات پھیل گئی۔ مکہ میں مسلمانوں کو ہجرت سے روکنے اور مکہ سے باہر نکلنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہوا۔
مسلمانوں میں سے تین افراد حضرت عباسؓ بن ربیعہ اور دوسرے دو بھائی حضرت امیہ اور حضرت ہاشم بن عاص پر مشتمل گروپ جب مکہ سے روانہ ہونے لگا تو حضرت ہاشم کو کفار نے گرفتار کر لیا۔ اس زمانے میں رائج سزاؤں میں سے ایک سزا یہ تھی کہ زنجیروں میں جکڑ کر صحرا کی تپتی ہوئی ریت پر چھوڑ دیتے تھے۔ حضرت ہاشمؓ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔
حضرت ابو سلمہؓ نے جب ہجرت کا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان کے سسرال والوں نے ان سے ان کی بیوی چھین لی اور ان کے والدین نے بچہ لے لیا۔ ان کی بیوی نے شوہر اور بچے کی جدائی میں پورا سال رو رو کر گزار دیا۔ بالآخر ان کے گھر والوں نے انہیں شوہر کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ انہوں نے دادا دادی سے بچہ کو لیا اور مدینہ پہنچ گئیں۔حضرت صہیبؓ کی ہجرت کا کفار مکہ کو جب پتہ چلا تو قریش نے کہا کہ تم جب ہمارے پاس آئے تھے تو مفلس تھے۔ یہاں تم نے مال و دولت کمایا ہے۔ اب تم یہ چایتے ہو کہ اپنا مال اور اپنی جان دونوں لے کر چل دو تو یہ ناممکن ہے۔حضرت صہیبؓ نے اپنا تما م مال و اسباب ان کے حوالے کر دیا ۔
مشرکین کو بہت قلق اور رنج ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان مال، دولت، اولاد، گھر بار کی پرواہ کیے بغیر اپنے رہبر کی بات پر بلا چون و چراں عمل کرتے ہیں ۔ وہ اپنے ہر منصوبے میں بُری طرح ناکام ہو گئے تھے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔