Topics
عام مسلمان معاہدہ کے دیر پا اثرات کو نہ سمجھ سکے تھے۔ جب وہ اپنے سر منڈوانے اور احرام سے نکلنے کے بعد سوئے مدینہ روانہ ہوئے تو بہت غمزدہ اور دل گرفتہ تھے۔ ایسی حالت میں جب کہ مسلمان دلوں میں درد چھپائے مدینہ کی جانب گامزن تھے راستے میں ایک اور مسلمان ابو بصیرؓ نے جو مکہ سے بھاگ نکلے تھے مسلمانوں سے پناہ کی درخواست کی۔ ابو بصیرؓ ابھی اطمینان کا سانس نہ لینے پائے تھے کہ قریش کے دو افراد بھی وہاں پہنچ گئے اور مطالبہ کیا ،’’ یا محمدؐ ! معاہدے کی رو سے ابو بصیرؓ کو ہمارے حوالے کیا جائے‘‘۔
حضرت عمرؓسے نہ رہا گیا وہ آگے بڑھ کر بولے، ’’ یا رسول اللہ ؐ! اس مرتبہ آپ اس شخص کو واپس نہ بھیجیں۔ یہ ہم سے پناہ مانگنے آیا ہے۔ اگر ہماری جان بھی چلی جائے تو اسے قریش کو نہ دیں گے‘‘ ۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جواب دیا کہ ہم ایفائے عہد کے پابند ہیں۔ یہ جواب سن کر مکہ سے آنے والے دو آدمیوں نے مسلمانوں کے سامنے ابو بصیر ؓ کو اونٹ کی پیٹھ پر باندھا اور روانہ ہو گئے۔
ابو بصیرؓ نے راستے میں اپنی رسیاں توڑ ڈالیں اور رہائی پانے میں کامیاب ہو گئے۔ ابو بصیرؓ نے دو میں سے ایک شخص کو موت کی نیند سلا دیا۔جبکہ دوسرا جان بچا کر بھاگ گیا۔ ابو بصیرؓ دوبارہ مسلمانوں سے آملے اور ان سے پناہ کی درخواست کی۔ اگلے روز زندہ بچ جانے والا شخص مسلمانوں کے قافلے تک پہنچ گیا اور ابو بصیرؓ کا مطالبہ کرنے لگا ۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے حکم دیا کہ ابو بصیرؓ کو اس شخص کے حوالے کر دیا جائے۔ لیکن اس سے پہلے کہ قریش کا نمائندہ ابو بصیرؓ کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے جائے وہ اس کے ہاتھوں سے نکل کر فرار ہو گئے۔ انہوں نے مکہ جانے کے بجائے ریگستان میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔
ابو بصیرؓ ذوالمروہ کے مقام پر پناہ گزین ہو گئے۔ کچھ دنوں کے بعد ابو جندلؓ بھی مکہ سے فرار ہو گئے اور ذوالمروہ پہنچ کر ابو بصیرؓ سے آ ملے اور پھر ایک اور مسلمان جن کا نام عتبہ بن اسد تھا مکہ سے بھاگ کر ذوالمروہ پہنچے۔ رفتہ رفتہ دوسرے مسلمان بھی مکہ سے نکل کر وہاں پہنچنا شروع ہو گئے اور ایک اسلامی گروہ تشکیل پا گیا۔
حدیبیہ کا معاہدہ ہوئے ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ ذوالمروہ میں مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ فوج بن گئی۔ وہ مکہ جانے والے کاروانوں کا راستہ روک کر ان سے مال غنیمت حاصل کرنے لگے۔ ذوالمروہ کے مسلمانوں نے کچھ اس طرح قریش کو ناکوں چنے چبوا دیئے کہ انہوں نے عاجز و لا چار ہو کر خود ہی پیغمبر اسلام ؐ سے درخواست کی کہ وہ مکہ سے بھاگ کر ذوالمروہ میں جمع ہونے والے مسلمانوں کو مدینہ بلوا لیں۔
اس سال خشک سالی کی وجہ سے مکہ قحط سالی میں آگیا۔قبیلہ یمامہ کی سرزمین اشیائے خورد و نوش کا انبار سمجھی جاتی تھی اور قبیلہ یمامہ کے سارے افراد مسلمان ہو چکے تھے۔ قبیلہ کے سربراہ نے مکہ والوں سے تجارت پر پابندی عائد کر دی۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے یمامہ کے سربراہ کو ہدایت جاری کیں کہ وہ اہل مکہ کو اشیائے خوردنی فروخت کرنے پر پابندی نہ لگائے۔ اسکے علاوہ پیغمبر اسلامؐ نے پانچ سو سونے کے سکے مکہ بھجوائے تا کہ وہاں کے غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔
پانچ سو سکوں کے علاوہ بہت زیادہ وزن میں کھجوریں ابو سفیان کو بھجوائیں اور پیغام دیا کہ ان کھجوروں کی قیمت کے برابر چمڑے یا کھالوں کا تبادلہ کر سکتا ہے۔ ابو سفیان نے کوشش کی کہ کھجوریں واپس کر دے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا ۔ کیونکہ اہل مکہ کو کھجوروں کی آمد کا علم ہو چکا تھا۔وہ بھوک سے نڈھال تھے۔ ابو سفیان نے بادل نخواستہ کھجوریں قبول کر لیں اور ان کی جگہ چمڑا روانہ کر دیا۔
دوسری طرف جب مکہ کے عام باشندوں کو پتہ چلا کہ یہ کھجوریں محمدؐ کی جانب سے بھیجی گئی ہیں تو پیغمبر اسلام ؐ کے بارے میں ان کے اندر نیک جذبات پیدا ہوئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔