Topics
مکہ کے رہنے والے دو طریقوں سے اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرتے تھے ایک تجارت اور دوسرے مویشیوں خاص طور پر اونٹوں کی پرورش کے ذریعے۔حضورعلیہ ا لصلوٰۃو السلام نے تجارت کو ذریعہ معاش بنانا پسند فرمایا۔سوداگر قیس بن زید اپنا سامان تجارت حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے سپرد کر دیتا تھا تاکہ و ہ اسے فروخت کرنے کے لئے دوسرے شہروں میں لے جائیں ۔حساب کتاب میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا۔آپؐ اشیائے تجارت کی فروخت کے لئے جب بھی سفر پر روانہ ہوتے مکہ کے دوسرے تاجر یہ خواہش کرتے تھے کہ حضورؐ ان کا سامانِ تجارت بھی لے جائیں۔ انہی تاجروں میں سے ایک خاتون حضرت خدیجہؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کویہ پیغام بھجوایا کہ اگر وہ چاہیں تو ان کے تجارتی قافلے کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوں۔حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے اس پیشکش کو اپنے چچا کے مشورے سے قبول کر لیا۔ حضرت خدیجہؓ کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کی خاندانی شرافت،عزت و توقیر اور اعلیٰ کردار کی بناء پر مکہ کے بڑے بڑے رئیس اور سردار ان سے شادی کے خواہاں تھے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجموعہ صفات ذات نے حضرت خدیجہؓ کو بے حد متاثر کیا۔ انھوں نے اپنی سہیلی نفیسہ بن منبہ کے ذریعے شادی کا پیغام بھیجا۔نکاح میں بنی ہاشم اور رؤسائے مکہ شریک ہوئے۔حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے پانچ سو درہم بطور حق مہر حضرت خدیجہؓ کو ادا کئے۔ یہ روایات بھی ملتی ہیں کہ حق مہر کے طور پر بیس اونٹ دئیے گئے تھے۔
سن ۶۰۵ عیسوی میں جبکہ حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پینتیس (۳۵) سال کے تھے مکہ میں دو ناگوار واقعات پیش آئے۔ پہلا یہ کہ خانہ کعبہ میں آگ لگ گئی اور دوسرا یہ کہ سیلاب اس کے کچھ حصوں کو بہا لے گیا۔جس کی بناء پر خانہ کعبہ کو خاصا نقصان پہنچا۔ قریش کے دس قبیلوں نے یہ فیصلہ کیا کہ لوگوں سے چندہ جمع کیا جائے اور عوامی چندہ کی مدد سے خانہ کعبہ کی مرمت کی جائے۔ مرمت کاکام جس رومی معمار کو سونپا گیا اس نے مشورہ دیا کہ مرمت کے بجائے خانہ کعبہ مکمل طور پر ڈھا دیا جائے اور از سر نو تعمیر کی جائے۔ قریش کے بزرگوں نے صلاح مشورہ کے بعد خانہ کعبہ کو ڈھانے کی منظوری دے دی اور رومی معمار نے بلاتوقف اپنا کام شروع کر دیا۔تعمیر کعبہ میں تمام قبائل نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن جب حجراسود کی تنصیب کا مرحلہ آیا تو قریش کے دس قبیلوں کے درمیان شدید اختلاف ہوگیا۔کیونکہ ہر قبیلہ کی خواہش تھی کہ حجراسود کو خانہ کعبہ میں لگانے کا اعزاز صرف اسے حاصل ہونا چاہئے۔اس قضیئے کا حل حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے یہ نکالا کہ ایک چادر منگوا کر حجراسود کو اس چادر پر رکھ دیا اور قریش کے دوسرے لوگوں نے اس چادر کو چاروں طرف سے پکڑ کر اٹھایا اور خانہ کعبہ کی دیوار تک لے گئے۔خود حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس چادر کا ایک کونہ اپنے ہاتھ میں تھاما اور قریش کے دوسرے لوگوں کی مددسے حجراسود کو خانہ کعبہ کی دیوار تک پہنچا کر نصب کردیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔