Topics
پیغمبر اسلام سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اللہ نے ایسے وقت میں اپنے حضور طلب فرمایا۔ جب روئے زمین پر ان کے لئے عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔ چہیتی ، جان نثار بیوی اور مشفق چچا بھی دنیا میں نہیں تھے۔
قرآن میں ارشاد ہے:
ترجمہ:
قسم ہے تارے کی جب گرے۔
بہکا نہیں تمہارا رفیق اور بے راہ نہیں چلا۔
اور نہیں بولتا اپنے چاؤ سے۔
یہ تو حکم ہے جو پہنچتا ہے۔
اس کو سکھایا زبردست قوتوں والے نے۔
زور آور نے پھر سیدھا بیٹھا۔
اوور وہ تھا اونچے کنارے آسمان کے پھر نزدیک ہوا اور خوب اتر آیا۔
پھر رہ گیا فرق دو کمان کا میانہ یا اس سے بھی نزدیک۔
پھر باتیں کیں اللہ نے اپنے بندے سے جو باتیں کیں۔
جھوٹ نہ دیکھا دل نے‘جو دیکھا۔
اب تم کیا اس سے جھگڑتے ہو، اس پر جو اس نے دیکھا۔
اوراس کو اس نے دیکھا ہے ایک دوسرے اتارے میں۔
(نجم ۔ ۱ تا ۱۲)
اگلی صبح سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جب گذشتہ رات کے واقعات قریش مکہ کو سنائے تو دل کے اندھے لوگوں نے آپ ؐ کا تمسخر اڑایا اور آپؐ کے گرد جمع ہو کر طرح طرح کے سوالات کرنے لگے۔ رؤسائے قریش نے بیت المقدس کی بناوٹ اور طرز تعمیر سے متعلق سوالات کئے۔ سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام نےبیت المقدس گذشتہ رات سے قبل کبھی نہ دیکھا تھا۔ اللہ نے آپؐ کو سرخرو فرمایا اور منکرین کے سوالوں کا صحیح صحیح جواب دیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ایک مشرک نے پوچھا کیا ایک رات میں کوئی شخص مکہ سے بیت المقدس آنے جانے کا سفر طے کر سکتا ہے؟ حضرت ابو بکرؓ جو اس وقت تک واقعۂ معراج سے با خبر نہ تھے، انکار میں جواب دیا۔ اس پر مشرکین نے کہا کہ تمہارا پیغمبر تو یہی کہتا ہے کہ اس نے راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک اور پھر وہاں سے آسمانوں تک کا سفر کیا ہے۔ سیدنا ابو بکرؓ نے فرمایا کہ میں نے حضرت محمدؐ رسول اللہ کی حق گو زبان سے اگرچہ یہ بات ابھی تک نہیں سنی لیکن جیسا کہ تم کہہ رہے ہو کہ یہ ان کا بیان ہے تو میں تصدیق کرتا ہوں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔