Topics

دارالندوۃ

دارالندوۃ میں اجلاس ہوا۔ سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کو زنجیروں میں جکڑ کر قید کرنے اور جلا وطن کرنے کی تجاویز پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ ابو جہل کی طرف سے تجویز پیش کی گئی کہ ہر قبیلہ سے ایک تندرست و توانا آدمی لیا جائے سب مل کر محمدؐ پر حملہ آور ہوں اور تلواروں کے پے در پے وار کر کے ان سے نجات حاصل کر لی جائے۔ اس طرح محمدؐ  کا خون کسی ایک قبیلہ کے سر نہیں ہوگا۔ محمدؐ کے قبیلے والے اور ان کے اتحادی تمام عرب سے جنگ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ تجویز شرکائے مجلس کو پسند آئی اور اس پر عملدرآمد کا منصوبہ تیار کر لیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ  کو کفار کے ارادہ سے با خبر کر دیا اور مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔رات کے دوسرے پہر سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کے گھر کے باہر مسلح نوجوانوں کی مشکوک حرکت شروع ہو چکی تھی۔ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے ناپاک ارادہ پر عمل کرنے کے لئے تیار تھے۔سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میری چادر اوڑھ کر میرے بستر پر سو جاؤ۔ چند مزید ہدایات دے کر گھر سے باہر تشریف لے آئے۔اس وقت آپؐ نے سورۃ یٰسین کی نویں آیت تلاوت کی۔

ترجمہ:

’’ اور بنائی ہم نے ان کے آگے دیوار اور ان کے پیچھے دیوار، پھر اوپر سے ڈھانک دیا، سو ان کو نہیں سوجھتا‘‘ ۔

سیدنا حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کفار کی صفوں کے بیچ میں سے نکلتے چلے گئے۔ پروگرام کے مطابق کفار مکہ جب سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کے گھر میں داخل ہوئے توحضورؐ کے بستر پر حضرت علیؓ کو دیکھ کر انہیں اپنی ناکامی پر سخت افسوس ہوا۔

ترجمہ:

’’اور جب فریب بنانے لگے کافر کہ تجھ کو بٹھا دیں یا مار ڈالیں یا نکال دیں اور وہ بھی فریب کرتے تھے اور اللہ بھی فریب کرتا تھا اور اللہ کا فریب سب سے بہتر ہے‘‘ ۔

 (الانفال ۔ ۳۵) 

سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ساتھ پوری رات سفر کرتے رہے۔ صبح صادق کے وقت وہ لوگ غار ثور کے نزدیک پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ ، عمر کے لحاظ سے حضورعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام سے تین سال بڑے تھے۔ ان کا شمار مکہ کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنی تمام دولت اور جائداد اسلام کی راہ میں قربان کر دی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ غار میں پہنچے ۔ غار کو صاف کیا اور اپنی قباء پھاڑ کر اس کے ٹکڑوں سے غار میں موجود مختلف سوراخوں کو بند کر کے پیغمبر اسلام حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو غار میں داخل ہونے کی دعوت دی۔ غار ثور میں کوئی ایسی چیز موجود نہ تھی جس پر سر رکھ کر حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام استراحت فرماتے۔ 

حضرت ابو بکرؓ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا سر مبارک اپنی گود میں رکھ لیا۔ 

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے دیکھا کہ غار میں ایک سوراخ باقی رہ گیا ہے۔ انہوں نے اپنا پیر اس سوراخ پر رکھ دیا۔ اس سوراخ میں سانپ تھا جس نے انہیں ڈس لیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے آرام کے خیال سے اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ لیکن درد کی شدت سے پسینے کے قطرے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشانی پر ٹپکے تو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی آنکھ کھل گئی۔ 

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا تو حضرت ابو بکرؓ کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا تھا۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے لعاب دہن لگا کر زہر کے اثر کو زائل کر دیا۔قریش کے کارندے اسی رات مکہ کے آس پاس پھیل گئے اور گرد و نواح کے بیابانوں میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تلاش شروع کر دی۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کروا دیا کہ جو شخص آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ڈھونڈ نکالے گا اسے انعام کے طور پر اونٹ پیش کئے جائیں گے۔ اگلے روز قریش کے کارندے تیز رفتار اونٹوں کے ذریعے اس علاقے تک پہنچ گئے جہاں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت ابو بکرؓ کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ قریش کے افراد غار کے سامنے سے گزرے۔ تعاقب کرنے والوں نے دیکھا کہ غار کے منہ پر مکڑی کا جالا بنا ہوا ہے۔ پیغمبر اسلام حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا تعاقب کرنے والے دوسرے گروہ کے لوگ بھی غار کے قریب سے گزرے اور انہوں نے دیکھا کہ غار میں ایک پرندے کا گھونسلہ بنا ہوا ہے اور اس کے انڈے بھی ہیں قریش کی آمدورفت ، دیکھ کر حضرت ابو بکرؓ پریشان ہو گئے لیکن پیغمبر اسلام حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں تسلی دیتے ہوئے خدا کی مدد کا یقین دلایا۔

ترجمہ:

’’ اگر تم نہ مدد کرو گے رسول کی تو اس کی مدد کی ہے اللہ نے جس وقت اس کو نکالا کافروں نے، دو جان سے جب دونوں تھے غار میں جب کہنے لگا تو غم نہ کھا اللہ ہمارے ساتھ ہے ، پھر اللہ نے اتاری اپنی طرف سے تسکین اس پر اور مدد کو بھیجیں وہ فوجیں جو تم نے نہ دیکھیں اور نیچے ڈالی بات کافروں کی اور اللہ کی بات ہمیشہ اوپر ہے ۔ اللہ زبردست ہے حکمت والا‘‘ ۔

(توبہ ۔ ۴۰)

حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیقؓ تین شب و روز تک اسی غار میں ٹھہرے رہے۔

تین دن کی جستجو کے بعد قریش بھی تھک گئے اور مکہ واپس چلے گئے۔ اسی اثناء میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کا غلام عامر بن فہیرہ طے شدہ منصوبے کے مطابق دو سفید اونٹنیاں لے کر مذکورہ غار تک پہنچ گیا۔

سفر ہجرت کے اگلے مرحلے میں حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام’’ قبا ‘‘ میں داخل ہوئے اور اُم کلثوم بن الہدم، سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام اور ان کے رفیق غار حضرت ابو بکر صدیقؓ کی میزبانی کے شرف سے مشرف ہوئے۔ 

سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بیس روز تک قبا میں قیام فرمایا اور اسلام کی پہلی مسجد قبا میں تعمیر کی۔ مسجد کی تعمیر میں سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام بنفس نفیس شریک ہوئے۔



Mohammad Rasool Allah (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے  اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔

محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام  کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔