Topics
دومتہ الجندل کے حکمران نے شام اور بین النہرین کو جانے والے مدینہ کے کاروانوں پر پابندی عائد کر کے اہل مدینہ کا اقتصادی گلا جکڑ رکھا تھا۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک ہزار افراد کے ساتھ دومتہ الجندل کی جانب روانہ ہوئے۔راستے میں قبیلہ غطفان کے سربراہ سے ملاقات کی تاکہ جنگ کی صورت میں اسے غیر جانبدار رہنے کی ترغیب دے سکیں۔ رئیس نے کہا کہ وہ قریش مکہ اور خیبر کے یہودیوں کا اتحادی ہے۔معاہدہ کے تحت وہ مدینہ پر ہونے والے متوقع حملہ میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کی مدد کرے گا۔حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انکوائری کروائی اور جب معلوم ہوا کہ یہ اطلاع درست ہے تو آپؐ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔جنگی سازوسامان سے لیس قریش کی فوج دس ہزار تھی۔ معزز صحابی سلمان فارسیؓ نے بتایا کہ عجم میں قلعے یا شہر کا دفاع کرنے کے لئے اس کے گردونواح میں خندق کھودی جاتی ہے۔ خندق کی گہرائی اور چوڑائی اتنی ہوتی ہے کہ دشمن کی پیادہ یا سوار فوج اسے پھلانگ نہ سکے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خندق کھودنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور حکم دیا کہ مدینہ کے مضافات میں پھیلے ہوئے کھیت اور باغات کی ساری پیداوار مدینہ کے گوداموں میں ذخیرہ کر دی جائے۔مدینہ کے تمام مسلمان مرد اور عورتیں حتیٰ کہ جواں سال لڑکے اور لڑکیاں اور جو بھی بیلچہ اور کدال اُٹھانے کے قابل تھے خندق کھودنے میں مصروف ہو گئے۔چھ کلو میٹر لمبی خندق کھودنے کے لئے مسلمانوں نے روز وشب محنت کر کے ایثار و وفاداری کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ خود حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی دن رات کام کیا اور دوسروں کا ہاتھ بٹایا۔ کبھی کدال چلاتے اور کبھی مٹی ڈھونے میں مصروف ہو جاتے۔ مسلمان دس دس کی ٹولیوں میں خندق کھود رہے تھے۔ جب دس افراد اپنا مقررہ کام قبل از وقت پورا کر لیتے تو رضا کارانہ طور پر دوسروں کے کام میں شریک ہو جاتے تھے۔
خدا وحدہ لا شریک کی منکر دس ہزار جنگجو سپاہیوں پر مشتمل مکہ کی فوج مدینہ پہنچی تو موسم بدل رہا تھا۔ سپاہیوں کو خیموں میں سردی لگ رہی تھی۔ مسلمان بھی جو خندق کے مختلف مقامات پر نگہبانی کے فرائض انجام دے رہے تھے سردی کی وجہ سے تکلیف میں تھے۔ ابو سفیان خندق سے گزرنے اور مدینے پر حملہ کرنے میں جب ناکام رہا تو اس نے یہودیوں سے رابطہ قائم کر لیا۔ مسلمانوں کو جب پتہ چلا کہ بنو قریظہ اور قریش مکہ کے درمیان جنگی معاہدہ ہونے والا ہے تو انہیں تشویش ہوئی۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا، یا رسول اللہ ؐ !ہم خطرے میں ہیں۔ اگر بنو قریظہ پشت سے اور قریش سامنے سے حملہ کر دیں تو ہمیں بہت نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ ہو سکتا ہے ہم فتح حاصل نہ کر سکیں ۔حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے انتہائی سکون اور یقین سے فرمایا۔’’ مشرکوں کو یہودیوں کی کمک پر بھروسہ ہے جبکہ میں اللہ کی مدد پر یقین رکھتا ہوں۔ یقین رکھو! اللہ ہمیں بے یارو مدد گار نہیں چھوڑے گا‘‘ ۔ حالات کچھ ایسے بنے کہ بنو قریظہ اور قریش کے درمیان بدگمانی اور عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو گئی اور مسلمانوں کے خلاف متحد نہیں ہو سکے۔
خندق کے پار ، جب دس ہزار فوج کو پڑے ہوئے دو ہفتے گزر گئے تو غذا اور مویشیوں کی خوراک کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ فوج کا سپہ سالار پریشان تھا کہ اگر خوراک کا انتظام نہ ہوا تو بغاوت ہو جائے گی اور سپاہی آپس میں لڑ مریں گے۔ابھی مسئلہ کا کوئی حل سامنے نہیں آیا تھا کہ رات کو اتنی تیز آندھی آئی کہ خیمے اُکھڑ گئے۔ خیمے ہوا میں غباروں کی طرح اُڑنے لگے۔ آ گ بجھ گئی تو شدید سردی ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش برسنے لگی۔ اتنی زیادہ بارش ہوئی کہ پانی کا سیلاب آگیا۔ ابو سفیان پر ایسا خوف طاری ہوا کہ اس نے کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ خود ابو سفیان کو بھاگنے کی جلدی تھی کہ جب وہ اونٹ پر بیٹھا تو اسے اتنا ہوش نہیں تھا کہ اونٹ بندھا ہوا ہے۔ وہ اونٹ کو کو بھگانے کے لئے پے درپے تازیانے مار رہا تھا۔مشرکوں کی فوج مدینے کا محاصرہ چھوڑ کر اُلٹے پاؤں بھاگ گئی۔
اگرچہ جنگ ختم ہو چکی تھی۔ دشمنان اسلام کی فوج جا چکی تھی۔ لیکن مدینہ کا اقتصادی اور معاشی محاصرہ جاری تھا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔