Topics

بیعت الرضوان

سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام ببول کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینا فرض ہے۔ جو شخص اس میں شریک ہونا چاہتا ہے۔وہ میرے ہاتھ پر بیعت کرے کہ آخری دم تک وفادار رہے گا۔ تمام صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے دست حق پرست پر بیعت کر لی۔ آپؐ نے اپنے دائیں ہاتھ کو عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا اور ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمانؓ کی طرف سے بھی بیعت کی۔

سورۃ فتح میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ:

’’ اور جو لوگ ہاتھ ملاتے ہیں تجھ سے ، وہ ہاتھ ملاتے ہیں اللہ سے، اللہ کا ہاتھ ہے اوپر ان کے ہاتھ کے، پھر جو کوئی قول توڑے سو توڑتا ہے اپنے بُرے کو اور جو کوئی پورا کرے جس پر اقرار کیا اللہ سے، دے گا اس کو اجر بڑا‘‘ ۔

 (آیت نمبر ۱۰)

’’ بیعت الرضوان‘‘ کے بعد اطلاع مو صول ہوئی کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر درست نہ تھی۔ 

دو دن دو رات کے طویل مذاکرات کے بعد ’’ سہیل بن عمرو‘‘کو ایک وفد کی قیادت سونپ کر قریش مکہ نے حدیبیہ بھیجا تا کہ سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام سے ضروری مذاکرات کرے۔ مسلمانوں اور اہل مکہ کے درمیان ’’عدم جارحیت‘‘کا معاہدہ کرے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت علیؓ کو بلوایا اور ان سے کہا کہ وہ معاہدے کی دستاویز تیار کریں۔ حضرت علیؓ نے لکھنا شروع کیا۔’’ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ سہیل بن عمرو نے فوراً ٹوکا اور بولا ہم رحمٰن اور رحیم کو نہیں جانتے۔علی کو’’ با سمک اللھم‘‘ لکھنا چاہیئے۔کیونکہ قدیم زمانے سے ہم عربوں کے تمام معاہدے اسی نام سے شروع ہوتے ہیں۔حضرت علیؓ نے اگلا فقرہ لکھا’’ یہ معاہدہ ہوا ہے محمدؐ اور سہیل بن عمرو کے درمیان‘‘۔لیکن سہیل بن عمرو نے ایک بار پھر اعتراض کیا اور کہا کہ یوں مت لکھو کیونکہ ہم محمد ؐ کو خدا کا رسول نہیں مانتے اور اگر مانتے تو مکہ میں آنے سے کیوں روکتے؟ لہٰذا اس معاہدے کا آغاز یوں ہونا چاہیے،’’ یہ معاہدہ منعقد ہوتا ہے محمد بن عبداللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان‘‘۔ حضرت علیؓ نے حضورؐ کی طرف دیکھا اور آپؐ نے کہا۔’’یا علی وہی لکھو جو سہیل کہتا ہے تا کہ اس کی رضامندی حاصل رہے‘‘ ۔ معاہدہ کے الفاظ یہ ہیں۔

’’با سمک اللھم ۔ یہ معاہدہ منعقد ہوتا ہے محمدبن عبداللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان اور اس معاہدے کی رو سے قریش یہ منظور کرتے ہیں کہ آئندہ دس سال تک مسلمانوں اور اہل مکہ کے درمیان جنگ نہیں ہو گی اور ان دس سالوں میں اگر کوئی شخص قریش کی اجازت کے بغیر مسلمانوں سے آملے تو مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ اسے قریش کے حوالے کر دیں لیکن اگر کوئی شخص مسلمانوں سے علیحدہ ہو کر قریش کے پاس آجائے تو وہ اسے مسلمانوں کے حوالے نہیں کریں گے۔متار کہ جنگ کے ان دس سالوں میں نہ کوئی فریق دوسرے کی جان اور مال پر تعرض کرے گا اور نہ ہی اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔اس دس سالہ مدت میں قریش کو اجازت ہو گی کہ جس کے ساتھ چاہیں عہدو پیمان باندھیں اور آزادانہ معاہدہ کریں اور اپنی مرضی سے راہ و رسم بڑھائیں۔مسلمانوں کو اس سال مکہ میں داخل ہونے اور کعبہ کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں ہو گی لیکن اگلے سال وہ کعبہ کی زیارت کے لئے آسکتے ہیں۔ تا ہم شرط یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ مکہ میں نہیں ٹھہریں گے اور تلوار کے علاوہ کوئی دوسرا ہتھیار اپنے ساتھ نہیں لائیں گے۔ 

یہ معاہدہ ہجرت کے ساتویں سال حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اور قریش مکہ کے درمیان ہوا۔ سبھی مسلمان قریش کی طرف سے لگائی ہوئی پابندی سے دل گرفتہ تھے اور اسے اپنی توہین سمجھ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس پہنچے اور سوال کیا۔ 

یا رسول اللہؐ کیا آپؐ نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا تم انشاء اللہ مکہ ضرور جاؤ گے اور خانہ کعبہ کا طواف کرنے کی سعادت حاصل کرو گے۔

معاہدہ حدیبیہ پر دستخط ہونے کے دو دن بعد ابو جندل(۱) مکہ سے بھاگ نکلے اور حدیبیہ پہنچ کر مسلمانوں سے آ ملے۔ابو جندلؓ کے حدیبیہ پہنچتے ہی سہیل بن عمرو بھی وہاں آگیا اور مسلمانوں کو مخاطب کر کے بولا، ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدے کی رو سے اگر کوئی شخص قریش کے ہاتھوں بھاگ نکلے اور تمہاری پناہ میں آجائے تو تمہارا یہ فرض ہے کہ اسے ہمارے حوالے کر دو۔لہٰذا میرے لڑکے ابو جندل کو میرے حوالے کیا جائے۔ چنانچہ ابو جندل مسلمان ہو گئے تھے لیکن ان کے باپ کو معلوم نہیں تھا۔آپؐ نے بادل نخواستہ ابو جندلؓ کو ان کے باپ کے حوالے کر دیا۔

ابو جندل نے ملتجی ہو کر کہا، یا رسول اللہ ؐ ! میرا باپ مجھے مار ڈالے گا۔ حضورؐ نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا، ابو جندل ڈرو نہیں اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ لیکن اس واقعہ سے مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور کعبہ کی زیارت سے محروم ہونے کے بعد ان کے اعصاب پر یہ دوسری کاری ضرب تھی۔ لیکن بیعت رضوان نے انہیں بے قابو نہ ہونے دیا۔حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب دیکھا کہ عام مسلمان بہت ملول اور رنجیدہ ہیں تو آپ نے انہیں جمع کر کے سورۃ فتح کی آیات سنائیں:

(۱) ابو جندل مسلمان ہو گئے تھے لیکن ان کے باپ کو معلوم نہیں تھا۔ 

ترجمہ:

’’ اللہ خوش ہوا ایمان والوں سے، جب ہاتھ ملانے لگے تجھ سے اس درخت کے نیچے، پھر جانا جو ان کے جی میں تھا ، پھر اتارا ان پر چین اور انعام دی ان کو ایک فتح نزدیک‘‘ ۔ (آیت نمبر ۱۸) 

صلح نامہ کے بعد سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور ذبح کر دو اور سر منڈوا کر احرام کھول دو۔سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین مرتبہ حکم دیا مگر صحابہ کرامؓ اس قدر غمگین ، شکستہ دل اور رنج و غم میں ڈوبے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔

سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام اس موقع پر بہت رنجیدہ ہوئے اور اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ سے اپنے دُکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ ؐ اپنا اونٹ ذبح کر کے سر منڈوا لیں مسلمان آپؐ کی پیروی کریں گے۔سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جب قربانی کر کے سر منڈوا لیا تو صحابہ کرامؓ نے قربانیاں دیں اور سر منڈوا کر احرام سے نکل آئے۔



Mohammad Rasool Allah (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے  اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔

محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام  کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔