Topics
ایک طرف جب کہ مکہ کے رہنے والے اپنے آپ کو مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کے لئے تیار و آمادہ کر رہے تھے تو دوسری طرف مدینہ میں وہ لوگ جو اسلام کے دشمن تھے ہجو آمیز اشعار کی آڑ میں مسلمانوں کے مقابل نکل آئے تھے۔ ابو سفیان نے مکہ پہنچ کر فوج کی تنظیم نو کی اور ہجرت کے تیسرے سال شوال کے مہینے میں مدینہ کی طرف کوچ کیا۔
اس مرتبہ تین ہزار جنگجو سپاہی ابو سفیان کے زیر کمان تھے۔ جن میں سات سو سپاہی مکمل طور پر مسلح پوش تھے۔ صفوان اس فوج کا نائب سالار تھا۔ ابو سفیان کے ہمراہ مدینہ آنے والے دوسرے سرداروں میں ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بھی شامل تھا۔ جس کے سینے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھری ہوئی تھی۔ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھی مدینہ کی طرف عازم سفر ہوئی وہ اعلان کر چکی تھی کہ مسلمانوں کے ناک، کان اور ہاتھ کاٹ کر ان کا ہار اپنے گلے میں ڈالے گی۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃو السلام نے اپنے ساتھیوں کے مشورے سے مدینہ سے باہر نکل کر کفار مکہ کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور احد کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ منافقین نے شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ عبد اللہ بن ابی ان کا سردار تھا۔
سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
ترجمہ:
’’ اور تاکہ اللہ انہیں بھی جان لے جنہوں نے منافقت کی، اور ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں لڑائی کرو یا دفاع کرو تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم لڑائی جانتے تو یقیناًتمہاری پیروی کرتے یہ لوگ ایمان کی بہ نسبت آج کفر کے زیادہ قریب ہیں۔ منہ سے ایسی بات کہتے ہیں جو دل میں نہیں ہے۔ اور یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اللہ اسے جانتا ہے‘‘ ۔
میدان جنگ میں لشکر کی ترتیب و تنظیم قائم کر کے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف مقامات پر دستے متعین فرمائے اور ہدایت کی کہ کسی بھی صورت میں اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔
جنگ احد میں بڑے نامی گرامی کفار ہلاک ہوئے۔ ان کی صفیں درہم برہم ہو گئیں ۔ جوش اور غیرت کے لئے دف بجا بجا کر اشعار سنانے والی قریشی عورتیں کفار کی پسپائی دیکھ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئیں۔ قریش مکہ کا جھنڈا جب زمین پر گر گیا اور دوسرا کوئی کافر اسے نہ اٹھا سکا تو فوج کے حوصلے پست ہوگئے اور فوج اپنے سپاہیوں کی لاشیں چھوڑ کر پسپا ہو گئی۔
متعین جگہ پہاڑی پر موجود مسلمانوں نے اپنی جگہ چھوڑی اور مال غنیمت سمیٹنے لگے۔ مسلمان حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایت کے برخلاف میدان میں کود پڑے۔ تو خالد بن ولید نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی لشکر کی پشت پر جا پہنچے۔پہاڑی مورچوں پر موجود چند مسلمان جنہوں نے جگہ نہ چھوڑی تھی مشرکین کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کے خلاف اس عمل سے مشرکین نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کافر فوج کا جھنڈا ایک عورت نے اٹھا کر ہوا میں بلند کر دیا۔ مشرکین کی پسپا فوج واپس پلٹ آئی اور مال غنیمت سمیٹتے ہوئے مسلمان چاروں طرف سے ان کے نرغے میں آگئے۔مسلمانوں میں ابتری پھیل گئی۔ کسی نے اعلان کر دیا کہ محمد ؐ شہید ہو گئے ہیں۔ لشکر آپس میں گڈ مڈ ہو گئے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں بعض مسلمان شہید ہو گئے۔ افراتفری کے عالم میں مسلمان جب منتشر ہونے لگے تو سیدنا علیہ الصلوٰۃو السلام نے پکار کر بلند آواز سے کہا ’’ میری طرف آؤ! میں اللہ کا رسول ہوں‘‘ ۔ یہ صدا کفار نے بھی سنی اور وہ مسلمانوں سے پہلے ہی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچ گئے۔ اس وقت حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے قریب نو (۹) صحابہ کرامؓ موجود تھے۔ کفار نے بھر پور حملہ کیا اور اس معرکہ آرائی میں سات صحابی شہید ہوگئے۔ مشرکین چاہتے تھے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو شہید کر دیں لیکن جان نثاروں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کر کے انہیں رسول صلی اللہ علیہ و سلم تک نہیں پہنچنے دیا۔اس حملہ میں عقبہ بن ابی وقاص نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانب پتھر پھینکا جس سے آپؐ پہلو کے بل گر گئے اور آپ ؐ کے دندان مبارک شہید ہو گئے۔ آپؐ کا نچلا ہونٹ زخمی ہو گیا۔ ایک مشرک نے آپؐ کی پیشانی زخمی کر دی ایک اور نے اتنے زور سے تلوار ماری کہ آپؐ ایک عرصہ تک کندھے میں چوٹ کا اثر محسوس کرتے رہے۔ اسی نے دوسرا وار چہرے پر کیا جس سے خود کی دو کڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں اور آنکھ کے نیچے کی ابھری ہوئی ہڈی پر زخم آئے۔
اس موقع پر جانثاری کی اعلیٰ ترین مثالیں سامنے آئیں۔جس وقت سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام چوٹ کھا کر زمین پر گرے حضرت طلحہؓ آپؐ پر بچھ گئے اور کفار مکہ کے بیشتر حملے انہوں نے اپنے جسم پر روک لئے۔حضرت ابو دجانہؓ دشمنوں میں گھرے ہوئے اپنے محبوب پیغمبرؐ تک پہنچے تو آپؐ کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے اور تیروں کی برسات روکنے کے لئے اپنی پیٹھ کو ڈھال بنا دیا۔
اس نازک ترین لمحہ اور مشکل ترین وقت میں اللہ نے غیب سے مدد نازل فرمائی ۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حفاظتی دستہ میں شامل حضرت سعدؓ کا بیان ہے کہ احد کے روز اس لمحہ انہوں نے دو سفید پوش آدمیوں کو دیکھا جو مشرکین کے تابڑ توڑ حملوں سے سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی حفاظت کر رہے تھے۔ کافر فوج نے سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شہادت کی افواہ پھیلا کر مسلمانوں میں بددلی پھیلا دی تھی۔ حضرت انسؓ کے چچا حضرت انس بن نصرؓ نے دیکھا کہ چند مسلمان ہتھیار پھینک کر حوصلہ ہارے بیٹھے ہیں۔ ان سے پوچھا کہ تم لوگ لڑتے کیوں نہیں؟ لوگوں نے جواب دیا۔ اب ہم لڑ کر کیا کریں گے؟ جس کے لئے لڑتے تھے وہ تو شہید ہو گئے۔ حضرت انس بن نصرؓ نے خطاب کیا ،’’ اگر واقعی محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہو گئے ہیں تو پھر ان کے بعد ہم زندہ رہ کر کیا کریں گے، چلو شہادت کے راستے پر قدم بڑھاؤ کہ ہم بھی آپؐ سے جا ملیں‘‘ ۔ یہ کہہ کر دشمنان اسلام کی فوج میں گھس گئے اور داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہو گئے۔ شہید ہونے کے بعد دیکھا گیا تو جسم پر اسی (۸۰)سے زیادہ زخم تھے۔تیر، تلوار اور نیزے کے اتنے وار ان پر کیے گئے تھے کہ کوئی ان کی لاش نہ پہچان سکا۔ان کی بہن نے انگلیاں دیکھ کر شہید بھائی کو پہچانا۔
قریش کے غلاموں میں ایک سیاہ فام غلام بھی تھا جس کا نام’’ وحشی‘‘ تھا ۔ اس نے لالچ میں حضر ت حمزہؓ کو ڈھونڈ لیا اور ان کی تاک میں بیٹھ گیا۔ حضرت حمزہؓ بڑی دلیری سے تلوار چلا رہے تھے۔ وحشی کو ان کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ وحشی نے جب دیکھا کہ حضرت حمزہؓ کی پیٹھ اس کی طرف ہے تو اس نے اپنا نیزہ اتنی قوت سے ان کی طرف پھینکا کہ نیزے کی نوک سینے کے پار ہو گئی اور حضرت حمزہؓ کی روح پرواز کر گئی۔جب ہندہ نے یہ سنا کہ حمزہؓ وحشی کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں تو اس نے اسی لمحہ نہ صرف یہ کہ وحشی کو آزاد کر دیا بلکہ میدان جنگ میں کھڑے کھڑے اپنے کنگن اور ہار اُتار کر اسے بخش دیئے۔ اور ایک تیز دھار چاقو سے حضرت حمزۃؓ کا پیٹ چاک کر کے جگر نکال کر چبانا شروع کر دیا۔پھر اس نے ان کے ناک اور کان کاٹے۔ہندہ جگر خور نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ قریب پڑی ہوئی مسلمانوں کی لاشوں کے کان اور ناک کاٹ کر ڈوری میں پرو کر ہار بنایا اور گلے میں ڈال کر وحشیانہ رقص کیا۔ ہندہ کے علاوہ قریش کی ایک اور عورت ’’سلافہ بن سعد‘‘ بھی میدان جنگ میں وارد ہوئی۔درندہ صفت سلافہ بن سعد اس مسلمان شہید کا سر کاٹ کر لے گئی جس نے جنگ بدر میں اس کے بیٹے کو قتل کیا تھا۔ بہت مکروہ چیخ میں اس نے کہا جب تک میں زندہ ہوں کھوپڑی کے اس پیالے میں پانی پیا کروں گی۔لڑائی ختم ہونے کے بعد حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا کہ چچا کا پیٹ اور سینہ چاک ہے اور کلیجہ چبا کر پھینک دیا گیا ہے۔ کان اور ناک بھی کٹے ہوئے ہیں تو آپ ؐ بے انتہا غمگین ہوئے۔ وحشی جب ابو سفیان کی فوج سے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اقرار کیا کہ وہ حضرت حمزہؓ کا قاتل ہے تو حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو معاف کر دیا۔ آپؐ نے صرف اتنا کہا کہ وہ کبھی ان کی نظروں کے سامنے نہ آئے۔ لہٰذا اس دن کے بعد وحشی کبھی بھی آپؐ کے سامنے نہیں آیا۔لیکن اس نے حضرت حمزہؓ کا خون بہا ادا کرنے کے لئے مسلیمہ کذاب سمیت حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔
جنگ اُحد میں مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث یہودیوں نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔یہودیوں نے لوگوں سے کہا اگر محمدؐ اللہ کے رسول ہوتے تو انہیں شکست نہ ہوتی۔ اس موقع پر سورۃ آل عمران کی یہ آیت نازل ہوئی۔
ترجمہ و مفہوم:
’’ کافروں کا مقابلہ کرنا نبیوں کا قدیم دستور ہے۔ اس سے پہلے بھی نبیوں پر تکالیف گزری ہیں ۔ لیکن وہ یاس و نا اُمیدی کا شکار نہیں ہوئے بلکہ وہ استقامت اور پائیداری کی وجہ سے کامیاب ہوئے اور اللہ صاحب استقامت لوگوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔