Topics

پیش لفظ


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

پیش لفظ


قسم ہے زمانہ کی، انسان خسارہ اور نقصان میں ہے مگر وہ لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں جو رسالت اور قرآن کی تعلیمات کو اپنا کر اس پر عمل پیرا ہو گئے۔

۔۔۔۔۔۔ (القرآن)۔۔۔۔۔۔

پیدائش کے بعد انسان کا تعلق تین نظاموں سے ہے۔ پہلا نظام وہ ہے جہاں اس نے خالقِ حقیقی کو دیکھ کر اس کے منشاء کو پورا کرنے کا عہد کیا۔ دوسرا نظام وہ ہے جس کو ہم عالمِ ناسوت، دارالعمل یا امتحان گاہ کہتے ہیں۔ اور تیسرا نظام وہ ہے جہاں انسان کو امتحان کی کامیابی یا ناکامی سے باخبر کیا جاتا ہے۔

انسان کی کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ یہ جان لے کہ اس نے اللہ کے سامنے عہد کیا ہے کہ اللہ اس کا خالق اور رب ہے۔ 

علمائے باطن کہتے ہیں کہ انسان ستر ہزار پرت کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق انسان جب عالمِ ناسوت میں آتا ہے تو اس کے اوپرایک پرت ایسا غالب آ جاتا ہے جس میں سرکشی، بغاوت، عدم تحفظ، عدم تعمیل، کفرانِ نعمت، ناشکری، جلد بازی، شک،  بے یقینی اور وسوسوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ یہی وہ ارضی زندگی ہے جس کو قرآن پاک نے اسفل السافلین کہا ہے۔

انبیاء کرام کی تعلیمات یہ ہیں کہ پوری کائنات میں دو طرزیں کام کر رہی ہیں۔ ایک طرز اللہ کے لئے پسندیدہ ہے اور دوسری طرز اللہ کے لئے ناپسندیدہ ہے۔ وہ ناپسندیدہ طرز جو بندے کو اللہ سے دور کرتی ہے اس کا نام شیطنت ہے اور وہ پسندیدہ طرزِ فکر جو اللہ سے بندے کو قریب کرتی ہے اس کا نام رحمت ہے۔

روحانیت کے راستے پر چلنے والے مبتدی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوتی ہے کہ انسان کا کردار اس کی طرزِ فکر سے تعمیر ہوتا ہے۔ 

طرزِ فکر میں اگر پیچ ہے تو آدمی کا کردار بھی پُر پیچ بن جاتا ہے۔ طرزِ فکر الٰہی قانون کے مطابق راست ہے تو بندے کی زندگی میں سادگی اور راست بازی کار فرما ہوتی ہے۔ طرزِ فکر اگر سطحی ہے تو بندہ سطحی طریقہ پر سوچتا ہے۔ طرزِ فکر میں گہرائی ہے تو بندہ شئے کی حقیقت جاننے کے لئے تفکر کرتا ہے۔

حقیقت پسندانہ طرزِ فکر ہر آدمی کے اندر موجود ہے لیکن ہر آدمی اسے استعمال نہیں کرتا۔ آدمی دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی غیر حقیقی باتوں کو اصل اور حقیقی سمجھتا ہے۔ سالک جب راہ سلوک میں قدم بڑھاتا ہے تو والدین اور معاشرہ سے ملی ہوئی غیر حقیقی طرزِ فکر تبدیل ہو جاتی ہے۔ 

جس قسم کا ماحول ہوتا ہے اسی طرز کے نقوش کم و بیش ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔ جس حد تک یہ نقوش گہرے ہوتے ہیں اسی مناسبت سے انسانی زندگی میں طرزِ فکر تشکیل ہوتی ہے۔ ماحول اگر ایسے کرداروں سے بنا ہے جو ذہنی پیچیدگی، بے یقینی، بددیانتی، تخریب اور نا پسندیدہ اعمال کا مظاہرہ کرتے ہیں تو فرد کی زندگی امتلا میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ماحول میں اگر راست بازی اور اعلیٰ اخلاقی قدریں موجود ہیں تو ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والا فرد پاکیزہ نفس اور حقیقت آشنا ہوتا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ مادری زبان سیکھنے کے لئے بچے کو قاعدہ پڑھنا نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔شک اور بے یقینی کا پیٹرن جس طرح بچے کے اندر ماحول سے خود بخود منتقل ہو جاتا ہے اسی طرح پاکیزہ ماحول اور روحانی استاد کی قربت سے سالک کے اندر یقین کا پیٹرن بن جاتا ہے۔

جتنے بھی پیغمبر تشریف لائے سب کی طرز فکر یہ تھی کہ ماورائی ہستی کے ساتھ ہمارا رشتہ قائم ہے۔ یہی روحانی طرز فکر ہے اور یہی رشتہ کائنات کی رگِ جان ہے۔

روحانی طرز فکر مسلسل ایک عمل ہے جو سالک کے اندر خون کی طرح دور کرتارہتا ہے۔ اس عمل میں بڑی رکاوٹ صدیوں پرانی وہ روایات ہیں جن کا مطمعِ نظر مادیت ہے۔ آدمی جس ماحول میں جوان ہوتا ہے وہ ماحول خاندان اور قبیلوں کی روایات بن جاتی ہیں۔ روایات کے امین والدین ہوتے ہیں، بھائی بہن ہوتے ہیں، کنبہ برادری کے لوگ اور تمام قرابت دار ہوتے ہیں۔ انسانی برادری میں دو طرح کے لوگ ہیں۔

۱۔ جو خاندانی روایات میں زندہ رہتے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور اگر ہو رہا ہے تو کیوں ہو رہا ہے۔ ان کے لئے اتنا کافی ہے کہ ہمارے باپ دادا اس طرح کرتے تھے۔

۲۔ دوسرا گروہ سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔

مشرکین مکہ باوجود یہ کہ جانتے تھے کہ تین سو ساٹھ(۳۶۰) بت ہمارے جیسے آدمیوں نے پتھروں سے تراشے ہیں۔ یہ آدمیوں کی طرح بول نہیں سکتے، سن نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔لیکن خاندانی روایات کا اتنا زیادہ غلبہ تھا کہ وہ ان بے جان پتھروں کے مجسم ٹکڑوں کو خدا کا درجہ دیتے تھے نہ صرف خود خدا مانتے تھے بلکہ کوئی اس حقیقت کو بیان کرتا تھا کہ ہمارے خدا پتھروں کے بے جان مجسمے ہیں تو اس کے درپے آزار ہو جاتے تھے۔ شرمناک حد تک سزائیں دینا ان کے نزدیک بہترین عمل تھا۔ صدیوں پرانی روایات اور جہالت کی گرد سے اٹا ہوا ماحول ان کے اندر سے فہم کا چشمہ خشک کردیتا ہے۔

ہمارے سامنے ہمارے بچوں کی مثال ہے۔ ہم جب بچوں کو جہالت سے معمور ماحول سے الگ کر کے علمی ماحول میں داخل کرتے ہیں تو۔۔۔۔۔۔دراصل جہالت کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہیں۔ بچے کو اسکول (یعنی جاہلانہ ماحول سے آزاد ماحول) میں داخل کرتے ہیں۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے میں دس سال لگ جاتے ہیں۔ ایک سال کا وقفہ شمار کیا جائے تو ساڑھے تین ہزار گھنٹے صرف کر کے ہمارا بچہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ سو(۱۰۰) تک گنتی یاد کرلیتا ہے۔

میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے میں پینتیس ہزار(۳۵۰۰۰) گھنٹوں کا وقت اور ہزاروں روپے صرف ہوتے ہیں۔ ان پینتیس ہزار گھنٹوں میں ماں کی کوشش ہوتی ہے کہ بچہ پڑھائی میں لگا رہے۔ باپ بھی اس طرف توجہ دیتا ہے کہ بچے کی تعلیم میں کوتاہی نہ ہو۔ بھائی بھی کتابیں کاپیاں لے کر ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔ بہن بھی پڑھنے کی تلقین کرتی ہے۔ گھر کے سبھی افراد توجہ دیتے ہیں تب سیکنڈری سطح کی تعلیم حاصل ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم ابھی شروع نہیں ہوئی۔ میٹرک کے بعد راستہ کھلتا ہے کہ کس فیلڈ میں آگے بڑھنا ہے۔ 

ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے، اکاؤنٹنٹ بننا ہے، جہاز اڑانا ہے، مشین بنانی ہے وغیرہ وغیرہ۔ دس سال میں آدمی عالم نہیں بن جاتا۔ قابلِ ذکر علوم کے حصول کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ تذکرہ دنیاوی تعلیم کا ہے۔

دوسری طرف روحانی علوم ہیں۔ ایک ہفتہ میں ایک گھنٹہ کا وقت آدمی بمشکل نکالتا ہے۔ اس تناسب سے ایک ماہ میں چار گھنٹے اور ایک سال میں اڑتالیس(۴۸) گھنٹے بنتے ہیں۔ آدمی کے دیگر معمولات بھی جاری رہتے ہیں۔ کاروبار بھی ہوتا رہتا ہے۔ ملازمت بھی جاری رہتی ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر امور بھی انجام دیئے جاتے ہیں اور صدیوں پرانی روایات اور ماحول سے بھی آدمی ذہنی طور پر وابستہ رہتا ہے۔

ایک سال میں صرف (۴۸) گھنٹے صرف کر کے اگر یہ سوچا جائے کہ کچھ حاصل نہیں ہوا، میں کشف کی لذت سے آشنا نہیں ہوا، مافوق الفطرت باتیں سامنے نہیں آئیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانیت کی اہمیت دنیاوی علوم کی ابتدائی کلاسوں سے بھی کم کر دی گئی ہے۔۔۔۔۔۔دس سال تک ہر سال ساڑھے تین ہزار گھنٹے صرف کرنے کے بعد طالب علم اس قابل ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے کسی شعبہ کا انتخاب کرے تو ۴۸ گھنٹے کا وقت دے کر وہ کس طرح کہتا ہے کہ روحانی علوم حاصل نہیں ہوئے۔

خالص دنیاوی ماحول میں رائج طرزِ فکر سے روحانی استاد کی طرزِ فکر منفرد ہوتی ہے۔ روحانی استاد میں توکل اور استغناء ہوتا ہے، دنیا طلبی نہیں ہوتی۔ اس کی مرکزیت ’’توحید‘‘ ہے۔

روحانی علوم سیکھنے کے لئے طالبات اور طلباء کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اندر منفی، شیطانی اور غیر اسلامی روایات سے بغاوت کرنے کا حوصلہ اور جذبہ ہو۔۔۔۔۔صراط مستقیم پر چلنے اور مستقل مزاجی سے آگے بڑھنے کا عزم ہو۔ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقوشِ قدم پر قائم رہنے اور اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل کرنے کے لئے طاغوتی طاقتوں اور نفس کی ہر سرکشی سے ٹکرانے اور انہیں زیر کرنے کی ہمت ہو۔

پیشِ نظر صفحات میں سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات طیبہ کے وہ پہلو جمع کئے گئے ہیں جن میں مثبت طرزِ فکر کو فروغ دینے میں شر کے نمائندوں کی طرف سے قدم قدم پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کا تذکرہ ہے۔ توحید کے راستے میں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اور ذہنی اذیتوں میں گزر گئی۔ اور بالآخر وہ اللہ کا پیغام پہنچانے میں کامیاب و کامران ہوئے۔ وہ اللہ سے راضی ہو گئے اور اللہ ان سے راضی ہو گیا۔

مشن کی پیش رفت کے سلسلے میں جب تک انسان  ہر قسم کے دنیاوی مفاد حرص و آس، حسد، طمع، کبر و نخوت، بڑائی ، احساس برتری اور احساسِ کمتری سے نجات حاصل نہیں کر لیتا اس کے اندر مشن کے لئے دیوانگی پیدا نہیں ہوتی۔

یہ مختصر کتابچہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تبلیغ دین کے سلسلے میں ۲۳ سال جد وجہد اور کوشش فرمائی ہے۔ پیدائش کے بعد سے چالیس سال تک کی عمر بھی سالکان کے لئے مشعل راہ ہے۔


خواجہ شمس الدین عظیمی

مرکزی مراقبہ ہال

سرجانی ٹاؤن، کراچی

۱۲ ربیع الاول ۱۴۱۷ ہجری

بمطابق ۲۹ جولائی ۱۹۹۶ عیسوی

 



Mohammad Rasool Allah (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے  اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔

محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام  کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔