Topics

حدیبیہ

ایک رات سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواب دیکھا کہ آپؐ صحابہ کرامؓ کے ہمراہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ہیں اور عمرہ ادا کیا ہے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب تمام مسلمانوں کے ساتھ مکہ جانے کا عزم کیا تو صحابہ نے پوچھا۔ کیا آپؐ کا ارادہ ہے کہ مکہ پر حملہ کر دیا جائے ۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام نے جواب دیا ۔ نہیں ہم صرف عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ جا رہے ہیں۔ ہجرت کے چھٹے سال حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دو ہزار (۲۰۰۰) ساتھیوں کے ہمراہ مکہ کی جانب روانہ ہوگئے۔اس بار مسلمانوں کے قافلے میں کئی سو اونٹ بھی شامل تھے۔سرداران قریش کے لئے یہ وقت بہت سخت تھا۔ وہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھے۔اگر اجازت دے دی جائے کہ مسلمان کئی سو اونٹوں کے ہمراہ شہر میں داخل ہو جائیں تو یہ اندیشہ تھا کہ وہ مکہ پر قبضہ کر لیں گے۔ اگر دو ہزار مسلمان مکہ میں داخل ہو جائیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جب وہ وہاں سے نکلیں گے تو دو ہزار سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ 

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کے خدشات اور اندیشوں کو دور کرنے کے لئے ایک ایلچی بھیجا جو قریش مکہ کو بتائے کہ مسلمان لڑائی کے لئے نہیں آئے۔ ان کا مقصد صرف کعبہ کی زیارت کرنا ہے۔ ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے، اگر مسلمان جنگ کے لئے آتے تو ہتھیار پہن کر آتے۔ لیکن سیدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ایلچی مکہ نہ پہنچ سکا ۔ دو سو سواروں کا دستہ جس کی قیادت عکرمہ ابن ابو جہل کر رہا تھا، راستہ میں مزاحم ہوا اور مسلمانوں کو پکڑ لیا۔ان کے جتنے اونٹ تھے۔ ان کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ ایلچی اور اس کے ساتھی اونٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد ریگستان میں بھٹک گئے۔ قریب تھا کہ وہ ہلاک ہو جائیں خدائی مدد سے مسلمانوں کے قافلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

’’ذوالحلیفہ‘‘ کے مقام پر مسلمانوں نے قربانی کے اونٹوں پر نشان لگانے کی رسم ادا کی۔مسلمانوں نے اسی مقام پر عمرہ کے لئے احرام باندھے اور مکہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہر قسم کے ٹکراؤ سے بچنے کے لئے ذوالحلیفہ کا پہاڑی علاقہ اختیار کیا اور مکہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھا ۔ پھر ذوالحلیفہ کی سر زمین سے گزرنے کے بعد وہ لوگ ایک انتہائی تنگ اور دشوار گزار پہاڑی علاقے میں داخل ہوئے جہاں سے اونٹوں کا گزرنا مشکل اور خطرناک تھا۔اس پہاڑی علاقے میں مسلمانوں کو سورج کی حدت اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بہت تکلیف ہوئی۔ لیکن انہوں نے کسی نہ کسی طرح راستہ طے کر لیا۔اور ایسے علاقے میں داخل ہو گئے جو ’’ حدیبیہ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔حدیبیہ مکہ سے گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یہاں سے مکہ شہر پوری طرح نظر آتا ہے۔ مکہ کے رہنے والے لوگوں کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ان کے سینے میں دل تڑپ اُٹھا کہ تھوڑی دیر بعد وطن کی مٹی کی سوندھی خوشبو سے جسم و جان معطر ہو جائیں گے۔

لیکن ٹھیک ایسے لمحات میں جبکہ مسلمان احترام کے جذبے اور والہانہ عشق سے مکہ پہنچنے کی تمنا کر رہے تھے پیغمبر اسلام ؐ کا اونٹ جس کا نام ثعلب تھا چلتے چلتے رکا اور زمین پر بیٹھ گیا۔سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اونٹ کو اُٹھانا چاہا وہ اٹھ گیالیکن اُٹھنے کے بعد دو قدم پیچھے ہٹا اور دوبارہ زمین پر بیٹھ گیا۔سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام اونٹ سے اتر آئے اور مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا خدا کی مرضی یہی ہے کہ ہم لوگ اس جگہ قیام کریں ۔رسول اللہؐ کا یہ ارشاد سُن کر سارے مسلمان اونٹوں سے اتر آئے۔ لیکن وہ بہت غمگین اور دل گرفتہ تھے۔انہیں توقع نہ تھی کہ مکہ کی حدود میں داخل ہو کر، مکہ سے باہر ٹھہرنا پڑے گا۔ یہ جگہ حدیبیہ کے علاقے میں تھی۔ موسم بہار میں پانی یہاں وافر مقدار میں ہوتا تھا۔ لیکن اس وقت وہاں پانی نہیں تھا۔ 

مسلمانوں نے اللہ کے محبوب دوست پیغمبر اسلام رسول اللہ ؐ سے عرض کیا ، یا رسول اللہؐ ! ہمارے ساتھ کئی سو اونٹ ہیں اور ہم تقریباً دو ہزار افراد ہیں۔ یہاں پانی نہیں ہے۔ ایسے خشک علاقے میں کیسے رہیں گے؟ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ہماری گزارش ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور ایسی جگہ پہنچ جائیں جہاں پانی میسر ہو۔

رسول اللہ ؐ نے دعا کے لئے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے اور بارگاہ الٰہی میں عرض کی،’’ اے خالق و مالک اللہ! اگر تو پانی مہیا نہ کرے تو مسلمان بے اختیار حرم میں داخل ہو جائیں گے‘‘ ۔آپؐ نے وہاں موجود متروک اور خشک کنویں میں اپنے تیر کش میں سے ایک تیر گاڑنے کا حکم دیا۔ تیر گاڑتے ہی کنویں میں سے پانی کا چشمہ ابل پرا۔

محمد الرسول اللہؐ کی آمد کی خبر سن کر قریش کے لوگ اس الجھن میں پھنس گئے کہ اگر ہم مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں،جزیرۃ العرب کے لوگ مخالف ہو جائیں گے۔ عرب قبائل یہ سمجھیں گے کہ ہم خانہ کعبہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اور حج و عمرہ اور زیارت کعبہ اب قریش کی مرضی سے ہو گا اور محمدؐ کے بڑے قافلے کو مکہ میں آنے دیتے ہیں تو سارے عرب میں سبکی ہو گی کہ محمدؐ ہم پر غالب آگئے۔

اس مخدوش صورت حال سے نمٹنے کے لئے انہوں نے عروہ بن مسعود ثقفی کو سفیر مقرر کیا تا کہ وہ حدیبیہ جا کر محمدؐ سے مذاکرات کرے۔ عروہ بن مسعود نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کس مقصد سے آئے ہو؟ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ ہم خانہ کعبہ کی زیارت کرنے آئے ہیں۔ لڑنے اور جھگڑا کرنے نہیں آئے۔عروہ بن مسعود کو قربانی کے اونٹ دکھائے جن پر قربانی کے نشان لگے ہوئے تھے۔ گفتگو کے دوران عروہ نے بڑی بد تمیزی سے سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام کے چہرہ اقدس کو ہاتھ لگایا۔ حضرت مغیرہؓ بن شعبہ نے غضبناک ہو کر تلوار کی نوک اس کے ہاتھ میں چھبوئی اور بولے ، گستاخی نہ کر ادب سے بات کر۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عروہ سے کہا، اے عروہ!اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو اس گستاخی کی سزا میں ہم تجھے موت کی نیند سلا دیتے۔

عروہ بن مسعود جب قریش کے پاس پہنچا تو اس نے قریش کے بزرگوں سے کہا:

’’میں نے روم کا دربار، حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا دربار دیکھا ہے۔ لیکن جو وفاداری اور جاں نثاری مسلمانوں کے دلوں میں محمدؐ کے لئے ہے وہ مجھے قیصر اور نجاشی کے لئے نظر نہیں آئی‘‘ ۔

عروہ بن مسعود کے بعد ایک اور شخص قریش کے سفیر کی حیثیت سے حدیبیہ گیا۔ اس نے دیکھا کہ مسلمان احرام باندھے ہوئے ہیں اور قربانی کے اونٹ ان کے ساتھ ہیں۔واپس جا کر قریش سے کہا کہ میں نے قربانی کے اونٹوں کو دیکھا ہے۔ جن پر سلیقہ (قربانی کا مخصوص نشان) بنا ہوا تھا۔اس کے علاوہ میں نے سنا کہ وہ حج کا مخصوص ورد پڑھ رہے تھے۔لہٰذا اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں کہ وہ کعبہ کی زیارت کرنے آئے ہیں اور میرے خیال میں ان کے اوپر پابندی نہیں لگانی چاہیئے۔لیکن قریش مطمئن نہیں ہوئے۔

تیسری بار حلیس بن علقمہ کو بھیجا گیا۔ حلیس جب وہاں پہنچا تو سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:

’’قریش کے نمائندے کو آزاد چھوڑ دیا جائے تا کہ وہ جہاں جانا چاہے، جائے۔ جس سے چاہے ملاقات کرے اور جو چاہے دیکھے‘‘ ۔ حلیس بن علقمہ نے بھی یہی دیکھا کہ سارے مسلمان احرام باندھے ہوئے ہیں۔ اور قربانی کے لئے اپنے ساتھ اونٹ لائے ہیں۔حلیس کو مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں کہیں جنگی ہتھیار نظر نہیں آئے۔ حلیس تیزی سے مکہ پہنچا اور قریش کے سامنے اپنے تاثرات بیان کر کے کہا:

’’اے مکہ کے سردارو ! میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مسلمان خانہ کعبہ کی زیارت کرنے آئے ہیں۔ ان کی نیت میں کھوٹ نہیں ہے۔ میرے خیال میں انہیں مکہ آنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ ہر شخص کو خانہ کعبہ کی زیارت کا حق ہے۔ خانہ کعبہ پر کسی کی اجارہ دار نہیں ہے۔‘‘ 

قریش کے سردار مکہ میں مسلمانوں کے داخلہ پر رضامند نہیں ہوئے۔ تو حلیس ناراض ہو گیا۔ اور کہا’’ اگر تم نے محمدؐ اور ان کے پیروکاروں کو مکہ میں آنے اور کعبہ کی زیارت سے روکا تو میں تم لوگوں سے علیحدہ ہو جاؤں گا اور تم بھی آج کے بعد مجھے اپنا اتحادی نہ سمجھنا‘‘ ۔

قریش اپنی ضد پر اڑے رہے۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے قاصد فراش بن امیہ خزاعی کو مکہ بھیجا تا کہ وہ اہل مکہ کے خدشات کو دور کریں۔قریش نے ان کو گرفتا ر کر لیا اور ان کے اونٹ کو مار ڈالا۔ سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپؐ نے حضرت عثمان غنیؓ کو قاصد بنا کر مکہ بھیجا۔ حضرت عثمانؓ نے جب قریش سے ملاقات کی تو اہل قریش نے کہا کہ آپ ہمارے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ کعبہ کا طواف کریں اور عمرہ ادا کریں لیکن محمد ؐ کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ خانہ کعبہ میں داخل ہوں۔کور چشم قریش کی ضد اور ہٹ دھرمی سے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ اس دوران مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا ہے۔



Mohammad Rasool Allah (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے  اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔

محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام  کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔