Topics

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا

حضورؐ کی عمر مبارک جب چالیس برس کی ہوئی تو طبیعت کا میلان تنہائی کی طرف زیادہ ہو گیا ۔ستو اور پانی لے کر مکہ سے دو میل دور غارِحرا میں تشریف لے جاتے اور کائناتی امور اور قدرت کی پھیلائی ہوئی نشانیوں پر تفکر کرتے،مظاہر قدرت کے پس ِپردہ کام کرنے والے حقائق کا کھوج لگاتے۔اس ہی غار میں آپؐ کے جد امجد حضرت عبدالمطلب ہر سال ایک ماہ کا عرصہ گزارتے تھے۔ غار حرا میں ایک رات جبرائیل امین تشریف لائے اور آپﷺ سے کہا ’’ پڑھو! ‘‘

 آپﷺ نے فرمایا ’’ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘‘۔ 

جبرائیل امین نے آپﷺ کو اپنے سینے سے لگا کر بھینچا اور کہا ’’پڑھو ‘‘ ۔ آپﷺ نے وہی جواب دہرایا۔ جبرائیل نے دوبارہ بھینچ کر سینے سے لگایا اور کہا ، پڑھو۔ آپﷺ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔جبرائیل امین نے تیسری مرتبہ بازوؤں کے حلقہ میں لے کر دبایا اور کہا۔ 

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے بنایا۔

آدمی لہو کی پھٹکی سے ۔

پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے۔

جس نے علم سکھایا قلم سے۔

سکھایا آدمی کہ جو نہ جانتا تھا۔ (علق)

اس واقعہ کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام گھر کی جانب روانہ ہوئے۔جس وقت آپﷺ گھر تشریف لائے آپﷺ کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ چکا تھا اور طبیعت میں ضعف اس قدر غالب تھا کہ آپﷺ دیوار کا سہارا لے کر چل رہے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کو سہارا دیا اور اس تھکان کی وجہ دریافت کی۔آپﷺ نے جواب میں کہا۔ ’’ مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو‘‘ ۔انہوں نے آپﷺ کو چادر اوڑھا دی۔ جب طبیعت سنبھلی تو آپﷺ نے سارا واقعہ بیان کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کو تسلی دی اور کہا ، ’’ اللہ تعالی آپﷺ کو رسوا نہ کرے گا، آپﷺ صلۂ رحمی کرتے ہیں ۔ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں‘‘۔ حضرت خدیجہؓ آپﷺ کو اپنے چچازاد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے غار حرا میں پیش آنے والا واقعہ بتایا تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ خدا کا یہ کلام بلاشبہ وہی ’’ ناموس‘‘ہے جو اس سے پہلے حضرت موسیٰ پر نازل ہوا تھا۔ لغوی اعتبار سے ناموس خدا کے ان احکام کا نام ہے جو بنی نوع انسان کے لئے وضع کئے جاتے ہیں ۔ورقہ بن نوفل نے حضور ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ تم لائے ہو اس کی بناء پرلوگ تمہارے دشمن بن جائیں گے۔ اے کاش میں اس وقت تک زندہ رہ سکوں کہ دشمنوں کے مقابلے میں تمہاری مدد کر سکوں۔تین سال تک حضورﷺ راتوں کو غارحرا میں جاتے رہے اور وہاں صبح تک غور و خوض میں ڈوبے رہتے اور دائم خدا کے بارے میں سوچتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی جبرائیل کی آواز بھی سنائی دیتی جو صرف یہ کہتے کہ یا محمد ﷺ ! آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور میں اس کا فرشتہ جبرائیل ہوں۔ لیکن اس کے علاوہ جبرائیل کوئی اور بات نہ کہتے تھے۔ ایک رات جبرائیل غار میں حضورﷺ کے پاس آئے اور سورۃ الضحیٰ تلاوت کی۔ عربی زبان میں والضحیٰ کا مفہوم یہ ہے، قسم اس وقت کی جب سورج کی شعاعیں افق سے نمودار ہوں اور رفتہ رفتہ یوں پھیلنے لگیں کہ زمین کا گوشہ گوشہ سورج کی روشنی سے چمک اٹھے اور پھر ساری کائنات آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے سورج کے نور سے منور ہو جائے۔

’’ والیل اذ ا سجیٰ ‘‘ اس آیت کی دوسری سوگند ہے۔ پہلی سوگند کی طرح اس کے مجازی معنی بھی بہت وسیع ہیں۔قسم اس وقت کی جب تاریکی چھا جاتی ہے اور دنیا تاریکی میں ڈوب جاتی ہے اور اس جہاں پر طاری ہونے والا سکوت اتنا گہرا ہوتا ہے کہ کہیں دور سے اٹھنے والی ہلکی سی آواز بھی بہت قریب سے سنائی دیتی ہے۔مذکورہ سورۃ کی تیسری آیت میں خدا نے حضورﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد کیا ہے ، ’’ ماود عک ربک وما قلٰی‘‘ اس آیت میں حضورﷺ کے ذہن میں ابھرنے والی تشویش کا جواب دیتے ہوئے کہا گیاہے کہ آپ پریشان تھے اور یہ تصور کر رہے تھے کہ خدا نے اپنی شناسائی کے بعد آپ کو اکیلا چھوڑ دیا ہے اور آپ سے اپنی دوستی اور محبت واپس لے لی ہے ۔ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں اور خدا نے آپ کو چھوڑا نہیں اور آپ بد ستور خدا کے محبوب ہیں۔

 حضور ﷺ پر ایمان لانے والی پہلی شخصیت ان کی زوجہ حضرت خدیجہؓ تھیں اور اس کے بعد ان کے چچا کے بیٹے حضرت علیؓ ابن ابی طالب مسلمان ہوئے۔ جنہیں حضورﷺ نے اپنی اولاد کی طرح پالا پوسا تھا۔ تیسرے مسلمان حضور ﷺ کے غلام زیدؓ تھے۔جنہیں رسول خدا نے آزاد کر دیا تھا لیکن وہ اپنے والدین کے پاس جانے پر رضا مند نہ ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں حضورﷺ کو اپنے ماں باپ سے زیادہ عزیز رکھتاہوں۔ حضرت خدیجہؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ کے بعد کوئی اور شخص حضور ﷺ پر ایمان لانے پر آمادہ نہ ہوا۔ تین سال کی مدت میں یعنی ۶۱۰ ء سے ۶۱۳ ء تک مسلمانوں کی تعداد خود حضور ﷺ کے علاوہ ، انہی تین افراد پر مشتمل تھی۔ اس سال حضرت ابوبکرؓ بھی مسلمان ہو گئے اور یوں مسلمانوں کی تعدادچار ہو گئی۔



Mohammad Rasool Allah (1)

خواجہ شمس الدین عظیمی

معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے  اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔

محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام  کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔