Topics
مسلمانوں اور اہل مکہ کے درمیان صلح حدیبیہ کے معاہدے کے باوجود خیبر کے یہودیوں نے اپنی عداوت بھرے طور طریقے نہیں بدلے۔ وہ لوگ بد ستور مسلمانوں کے تجارتی قافلوں کو خیبر کے مضافات سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے تا کہ مسلمان شمالی ملکوں سے اقتصادی رابطہ قائم نہ کر سکیں۔
یہود کی ریشہ دوانیوں کو ختم کرنے کے لئے سیدنا علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فیصلہ کیا کہ خیبر کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ خیبر میں آٹھ جنگی قلعے تھے۔ اسلامی فوج کے سپہ سالار حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام خود تھے۔ لیکن خیبر کی خراب آب و ہوا کی وجہ سے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام بیمار ہو گئے۔ حضرت ابو بکرؓ نے فوج کی کمان سنبھال لی اور یہودیوں پر حملہ کیا۔لیکن شدید مزاحمت کے باعث کامیابی نہیں ہوئی۔ خراب موسم سے حضرت ابو بکرؓ بھی متاثر ہوئے اور وہ بھی بیمار ہو گئے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی جگہ حضرت عمرؓ کو فوج کی قیادت سونپ دی۔مگر مضبوط قلعوں پر کوئی ضرب نہیں پڑ سکی۔ حضرت عمرؓ بھی بیمار ہو گئے۔
سیدنا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فوج کی قیادت سنبھالنے کے لئے حضرت علیؓ کو بلوایا۔ وہ آشوب چشم (آنکھوں کے درد) میں مبتلا تھے اور ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی اور نطات نامی قلعہ پر چڑھائی کر دی۔ قلعہ نطات پر غلبہ پانے کے بعد حضرت علیؓ نے ناعم نامی قلعہ کو فتح کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جنگ خیبر کے دوران حضرت علیؓ نے دس دنوں میں چار قلعوں کو تسخیر کیا۔ جبکہ بقیہ قلعوں کے رہنے والوں نے خود ہی ہتھیار ڈال دیئے۔
خیبر کی فتح میں مسلمانوں کو وافر مقدار میں غنیمت حاصل ہوئی۔ اس میں ہتھیار اور خوردنی اشیاء وافر مقدار میں تھیں۔ فتح خیبر کے بعد پیغمبر اسلامؐ نے یہودیوں کے ساتھ مہربانی اور عفو و درگزر فرمایا۔ انہیں اجازت دے دی گئی کہ چاہیں تو خیبر چھوڑ کر چلے جائیں اور اپنے ساتھ گھریلو سامان لے جا سکتے ہیں۔کھجوریں، بھیڑیں اور دوسرا غلہ لے جانے کی اجازت نہیں۔
جو یہودی خیبر چھوڑ کر نہیں جانا چایتے تھے انہیں وہاں رہنے کی اجازت مل گئی اور یہ رعایت بھی حاصل ہو گئی کہ وہ اپنا سابقہ کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں ۔یہودیوں کی تمام مقدس کتابیں اور دوسرے اہم کاغذات بھی لوٹا دیئے گئے اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلقات اتنے اچھے ہو گئے کہ ایک یہودی عورت نے اعلان کیا کہ میں اپنے ہاتھوں سے کھانا پکا کر پیغمبر اسلامؐ کے لئے بھیجوں گی۔
اس عورت کا نام زینب بنت حرث تھا۔ اس نے ایک دنبہ ذبح کروایا اور دونوں رانیں بریان کرتے وقت ان میں زہر ملا دیا اور وہ کھانا پیغمبر اسلام ؐ کو بھجوادیا۔ جب بریان شدہ گوشت سیدنا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پیش کیا گیا تو آپؐ کے پاس ایک صحابی بیٹھے تھے جن کا نام بشیرؓ بن براء تھا۔ بشیرؓ بن براء نے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹا، چبایا اورنگل گئے لیکن پیغمبراسلامؐ نے پہلا لقمہ چباتے ہی گوشت تھوک دیا اور بشیرؓ بن براء کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’ یہ گوشت مت کھاؤ اس میں زہر ملا ہوا ہے‘‘ ۔ بشیرؓ بن براء گوشت کا جو ٹکڑا نگل چکے تھے اس نے اپنا اثر دکھایا اور جلد ہی ان کی موت واقع ہو گئی۔زینب بنت حارث کو گرفتار کر لیا گیا اور اس سے پوچھا گیا، ’’ کیا زہر آلود گوشت تم نے بھیجا تھا؟‘‘اس عورت نے اعتراف کر لیا اور کہا ،’’میں نے یہ سوچ کر گوشت میں زہرملایا تھا کہ اگر محمدؐ فرستادہ خدا ہیں اور اس خداکے سچے نبی ہیں تو وہ گوشت کو ہر گز تناول نہیں کریں گے اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن اگر وہ اللہ کے رسول نہیں ہیں تو گوشت کھا کر مر جائیں گے‘‘۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
معروف روحانی اسکالر ، نظریہ رنگ ونورکے محقق حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے اپنے مخصوص اندازواسلوب میں سیرت طیبہ پر قلم اٹھایا ہے اس سلسلے کی تین جلدیں اب تک منظر عام پر آچکی ہیں ۔
محمدرسول اللہ ۔ جلد اول میں سیدناحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت پاک کے اس حصہ کا مجمل خاکہ ہے جس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دین کے سلسلے ۲۳سال جدوجہداورکوشش فرمائی۔ الہٰی مشن کی ترویج کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کے دورکرنے کے لئے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی ساری زندگی پریشانیوں اورذہنی اذیتوں میں گزرگئی اوربالآخرآپ ﷺ اللہ کا پیغام پنچانے میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ آپ ﷺ اللہ سے راضی ہوگئے اوراللہ آپ ﷺ سے راضی ہوگیا۔