Topics

نام کیا ہے؟



 اسم یا نام وہ علامت ہیں جس کے ذریعے ہم مسئمی کی تمیز کرتے ہیں۔ اس کا تعارف حاصل کرتے ہیں، اس کا ہیولیٰ اپنے ادراک میں قائم کرتے ہیں، اس کو فہم میں متعین کرتے ہیں خیال میں تصور کرتے ہیں وہم میں حاضر کرتے ہیں، فکر میں ترتیب دیتے ، عقل میں موجود کرتے اور قوت حافظہ میں اسے محفوظ کرتے ہیں تا کہ فکر اس کا تعمل کر سکتے اور مسئمی کو شناخت کیا جا سکے۔

 نام ہر معلوم و موجود شے کے لئے مشار الیہ ہوتا ہے جو اپنے مسئمی کی تخصیص و تعریف کا آلہ و ذریعہ ہوتا ہے اور یہ مقصد نام کے علاوہ کسی اور طرح حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہر چند کہ اسم مسّمی کے تعارف و تخاطب کا ذریعہ اور وسیلہ ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ مہمل اور بے معنی نہ ہو کیونکہ صرف و نحو کے مطابق اسم ایسے کلمے کو کہا جاتا ہے جو اپنے معنی آپ بتاتا ہو۔ اس لئے اسم کا اپنے موسوم سے کوئی نہ کوئی وصفی تعلق ضرور ہونا چاہیئے تاکہ نام کا مقصد بطریق احسن حاصل ہو سکے۔

 نام کے ان اوصاف کو سامنے رکھ کر اگر ہم انسانی ناموں کا جائزہ لیں تو صرف وہی نام درست قرار پائیں جو اس معیار پر پورے اترتے ہوں ۔ چانچہ رسول اللہؐ کا ارشاد گرامی ہے۔

 ترجمہ :- اللہ کے نزدیک پیارے نام عبد اللہ اور عبدالرحمان ہیں اور ناموں میں سچے نام حارث اور ہمام ہیں۔

 اس ارشاد نبوی میں ناموں کی اسی صداقت کا اظہار فرمایا گیا ہے چنانچہ عبد اللہ و عبد الرحمان اور اسمائے حسنیٰ پر رکھے جانے والے ایسے نام دوسرے تمام ناموں میں عبد اور بندہ پرور دگار ہونے کی صداقت موجود ہوتی ہے، کیونکہ ہر شخص خدا کا بندہ ہے۔ اسی طرح حارث اور ہمام کو سچے نام کہا گیا ہے کیونکہ حارث ، حرث سے بنا ہے جس کے معنی کسب کے ہیں اور ہمام ہم سے بنا ہے جس کے معنی ارادے کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں کی دونوں صفات تمام انسانوں میں مشترک ہیں، لہذا ایسی تمام صفات جو انسانوں میں بالا شتراک پائی جاتی ہیں۔ ان پر مبنی نام اگر رکھے جائیں تو انہی  ناموں کو حقیقی اور سچے ناموں سے تعبیر کیا جائے گا اور بالا تفاق ایسے تمام ناموں کو رد کرنا پڑے گا جو ان صداقتوں کے برخلاف اور منافی ہوں۔

 یہ درست ہے کہ ذات شے متعدد اور گو ناگوں صفات کی حامل ہوتی ہیں اور کوئی بھی ایک نام جملہ اوصاف و محاسن کا مظہر نہیں ہو سکتا اور یہ بھی صحیح ہے کہ تمام نام کسی شے کے ہو سکتے ہیں جو اس کی صفات کے علیحدہ علیحدہ مظہر ہوں لیکن جیسا کہ معلوم ہے کہ نام کسی شے کے تمیز و تعارف کا محض ایک ذریعہ ہوتا ہے اور وہ ایسا جمال ہوتا ہے جس کی تفصیل مسمی پر موقوف ہوتی ہے چنانچہ ذات شے کے تشریح و تفصیل بیان کرنا نام کا منصب نہیں ہے کیوں کہ اسم کا کام صرف مسمی کی تخصیص کرنا جبکہ موصوف کو بیان کرنا نام کا منصب نہیں ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک اسم ذاتی ہو جس سے ذات شے کی تعین کی جائے اور دوسرے اسمائے صفاتی ہوں جو اوصاف شے کے مظہر ہوں۔ کیونکہ شخصیت کا اعتبار اس کی ذات اور صفات کے دونوں پہلوؤں سے کیا جاتا ہے۔

 جب تک کائنات کا وجود قائم ہے اور انسان موجود ہے نام بھی برقرار رہیں گے۔ انسان اور اس کا تمام علم نام ہی سے عبارت ہے۔ یہی نام کی غیر معمولی اہمیت ہے اور اسی کو علم اسماء سے تعبیر کیا گیا ہے جس کو سرشت آدم میں رکھا گیا تھا۔ انہی ناموں کی بدولت معرفت ذات الہی اور علم اشیاء انسان کو حاصل ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے منصب خلافت ارضی کے مقاصد کی تکمیل کرتا ہے اور کائنات کے حقائق و معارف کی جملہ تفصیلات و جزیات کا ناموں کے اجمال کے ذریعے سے احاطہ کرتا اور ذہن میں محفوظ رکھنے کا اہل ہوتا ہے۔

نام زبان رکھتے ہیں

 نام ۔۔۔ جس کے ذریعے ہم ذات شے کی معرفت حاصل کرتے ہیں اور اس سے متعارف ہوتے ہیں گو بظاہر خاموش نظر آتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہر نام جو چند آوازوں یعنی حروف پر مشتمل ہوتا ہے اپنے اندر معانی و معرفت کا ایک بحر بیکراں لئے ہوتا ہے ۔ بظاہر بجان نام اپنے اندر زندگی کا سیل رواں رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نام سے موسوم کی حقیقت و کیفیت تک جا پہنچتے ہیں۔ اگر نام صامت اور بے جان ہوتے تو علم الاسماء ۔ جو انسان کا طرہ فضیلت تھا ، انسان کے کچھ کام نہ آتا۔

 نام لفظ ہوتا ہے۔لفظ حروف سے بنتے ہیں اور حروف آوازوں کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ آوازیں مقاصد کی عکاسی کرتی ہیں اور یہی مقاصد ان کے معانی ہوتے ہیں۔ آوازوں کی زیر و بم حروف در حروف اور ان کے معانی و مفاہیم کی گونا گونی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ابتداء ً علم اسماء انہی آواز و معانی پر مشتمل تھا جو آدم علیہ السلام کو ودیعت کیا گیا تھا اور جن کے ذریعے اہلِ جنت باہم گفتگو کرتے تھے۔ زمین پر آنے کے بعد بھی یہی زبان افہام و تفہیم کا ذریعہ رہی۔ حضرت ادریس علیہ السلام کے بعد اس میں تغیر و تبدل شروع ہو گیا ۔ ہوتے ہوتے سینکڑوں زبانیں وجود میں آگئیں اور اصل اور ابتدائی زبان کی اصلی ہیئت نظر سے ایسے اوجھل ہو گئی کہ اب اس کا تصور بھی ممکن نہ رہا۔

 زبانوں کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے دور موجودہ میں قدیم ترین زبانوں میں سے صرف سنسکرت رہ گئی ہے جو کسی حد تک اس زبان سے قریب ترین ہے جو آدم علیہ السلام اور بعد کے لوگ بولتے تھے جبکہ باقی زبانیں بڑی حد تک اپنی قدیم ہیئت کو تبدیل کر کے نئے لبادے اوڑھ چکی ہیں پھر بھی مفہوم و معانی کا تعلق کسی نہ کسی طرح اس قدیم زبان سے ضرور قائم رہتا ہے جس کا علم ہر ذی روح لے کر پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ انسانی بچہ جو اس دنیا کے کسی بھی علاقے یا خطے میں پیدا ہوتا ہے اور جو ابھی دودھ پیتا ہے ”اغ،اُغ “ کہتا ہے۔ دودھ کا اشارہ لفظ ” بوبو “ سے سمجھتا ہے۔ یا رفع حاجت کے لئے ”ع ع“ کہتا ہے یا کسی خوشنما چیز کو ”م م“ پکارتا ہے۔اگرچہ ہم اپنی قدیم موروثی زبان کو فراموش کر کے ان الفاظ کو بے معنی اور مضحکہ خیز سمجھتے ہیں لیکن اگر اس کی حقیقت دریافت کریں تو معلوم ہوگا کہ ”اغ“ کا تعلق انسان کی ازلی و روحانی زبان کی رو سے رفعت و لطف و شفقت کے معنی میں ہے اور یہ ذکر خدا وندی ہے گویا ” یا علی یا رفیع یا حنان یا لطیف“ اسی طرح ”بو“ کے معنی اس زبان میں کھانے پینے کی میٹھی چیز کے ہیں اور چونکہ اس زبان میں ”ع ع“ پلیدی نکالنے کے معنی استعمال ہوتا ہے اس لئے رفع حاجت کی اطلاع بچہ اسی لفظ سے کرتا ہے۔ لفظ ”مو“ چھوٹی سی پیاری چیز کو کہا جاتا ہے اس لئے بچہ پسندیدہ شے کو اس لفظ سے ادا کرتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ طفلی کے اس عہد میں بچہ پر روح غالب ہوتی ہے اور وہ جو کچھ بولتا ہے وہ خدا کی ودیعت کردہ اسی روحانی زبان کے مطابق بولتا ہے جسے انسان نے بتدریج نہایت متغیر اور تبدیل کر دیا ہے۔

 اس قدیم زبان کے اندازے کے لئے اگر ہم اپنے مروجہ حروف تہجی کو سامنے رکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ہر حروف کے مفتوح یا مکسور یا مضموم ہونے سے معانی و مفاہیم میں کتنا فرق پڑ جاتا ہے اور زیروبم کے لحاظ سے یہ زبان کتنی عظیم تھی جسے پہلے انگریز نے اپنی تن آسانی کے لئے مختصراً چند حروف میں تبدیل کر دیا ہے۔

 ۱۔ یعنی ہمزہ ، اگر مفتوح ہو تو اس سے تمام اشیاء کی طرف اشارہ ہوتا ہے یا متکلم کا اشارہ اپنی ذات کی طرف ہوتا ہے۔ مضموم ہو یعنی تو قریب ترین کسی کم شے کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور اگر مکسور ہو یعنی تو ایسی چیز کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو مناسب طور پر کم ہو۔

 ب۔اگر مفتوح ہو تو اس سے مراد انتہائی باعزت یا انتہائی بے عزت چیز ہوتی ہے مکسور ہو تو مراد وہ شے ہوگی جو ذات میں داخل یا داخل ہونے والی ہے۔ اگر مضموم ہو تو یہ ایسا اشارہ ہے جس کے ساتھ قبض بھی پایا جاتا ہے۔

 ت۔ اگر مفتوح ہو تو اس سے مراد چند کثیر و عظیم ہے۔ اگر مکسور ہو تو مراد وہ مصنوع ہوگا جو ظاہر ہو۔ اگر مضموم ہو تو وہ چیز جو قلیل اور ظاہر ہو۔ یہ علامت کبھی اجتماع چیز کی بھی ہوتی ہے۔

 ث۔ اگر مفتوح ہو تو یہ اشارہ ہے روشنی یا تاریکی کی طرف ۔ اگر مضموم ہو تو مراد ہوگا کسی چیز کا کسی چیز سے زائل ہونا اگر مکسور ہو تو مراد ہوگا ایک چیز کا دوسری چیز پر مقرر ہونا۔

 ج۔ اگر مفتوح ہو تو مطلب ہوگا ایسی بھلائی جو کبھی زائل نہ ہو۔ یا اس سے قبل یا بعد کوئی حرف بھی ہو تو ایسی صورت میں مراد ہوگی نبوت یا ولایت۔ اگر مضموم ہو تو کھانے کی اچھی چیز یا لوگوں کے فائدے کی چیز مراد ہوگی اگر مکسور مراد ہوگی بھلائی یا نور کی کمزوری۔

 ح۔ مفتوح سے مراد اشیا کا احاطہ اور سب پر شمولیت۔ اگر مضموم ہو تو آدمیوں یا کسی چیز کا بکثرت و عدد، ہونامراد ہوگا۔ مکسور ہو تو وہ عدد مراد ہوگا جو ذات میں داخل ہو یا ذات ان کی مالک ہو۔

 خ۔ مفتوح سے مراد کمال درجہ کا طول ہے مضموم ہو تو وہ کمال جو حیوانوں میں ہو اور اگر مسکور ہو تو وہ کمال جو جمادات میں ہے۔

 د۔ مفتوح سے مراد وہ شے جو ذات سے خارج ہو مضموم سے مراد وہ قلیل و قبیح شے جس کے ساتھ غصہ بھی ہو اور اگر مکسور ہو تو وہ شے جو ذات کے قریب ہو یا اس میں داخل ہونے کو ہو مراد ہوتی ہے۔

 ذ۔ مفتوح ہو تو مراد وہ شے ہے جو ذات کے اندر ہے مگر باعظمت شے۔ مضموم ہو تو وہ شے مراد ہے جو فی نفسہ کرخت و عظیم یا قبیح ہو۔ مسکور ہو تو وہ قبیح شے مراد ہے جس کے بعد غصہ نہ آئے۔

 ر۔ مفتوح ہو تو مراد ظاہرہ و باطنی بھلائیاں ، مضمون ہو تو مراد تنہا اور ظاہر شے سے ہے اور مکسور ہو تو مراد روح مجرد یا غیر انسانی کوئی اور ذی روح۔

 ز۔ مفتوح ہو تو وہ شے جس سے احتراز کیا جائے۔ مضموم ہو تو مثل کباتر کے قبیح چیزیں اور مکسور ہو تو مراد صخاتر و شہبات ہیں۔

 س۔ مفتوح سے مراد چیزوں کی خوبیاں ، مضموم سے مراد کفریا ظاہری و باطنی علت اور مکسور ہو تو ذات کا مفر اور اس کا راز مسل عقل کامل وغیرہ۔

 ش۔ مفتوح سے مراد ایسی رحمت جس کے بعد عذاب ہو۔ مضموم سے مراد قابل تعظیم شخص یا آنکھوں کو دکھ دینے والا تنکا مکسور ہو تو قلب میں پوشیدہ شے یا وہ شے جسے روندا جائے مگر وہ ظاہر نہ ہو۔

 ص۔مفتوح سے مراد وہ زمین جس پر اللہ کا غضب ہو یا جس پر نبات نہ ہو، مضموم سے مراد زمین کی پیدا وار اور مکسور ہو تو تمام طبقات زمین یا وہ ذات جس میں کوئی خوبی نہ ہو۔

 ض۔ مفتوح سے مراد صحت ہے یا تکلیف کا نہ ہونا۔ مضموم ہو تو وہ شے جس میں قطعاً ظلمت یا نور نہ ہو۔ مکسور سے مراد خشوع وخضوع۔

 ط۔ مفتوح سے مراد ذات جو جنس و ذات کے اعتبار سے پاک و صاف ہو۔ مضموم سے مراد انتہا درجے کی خبیث شے اور مکسور ہو تو مراد ساکن طبع یا جسے ساکن رہنے کا حکم دیا گیا ہو۔

 ظ۔مفتوح ہو تو مراد شے عظیم جس کے ساتھ اس کی ضد نہ وہ جسے شرفا میں جو دو نبی اور یہود میں کھوٹ اور دھوکہ مضموم ہو تو مراد وہ قبیح نفسانی تحریک جس کے پیچھے چلا جائے۔ مکسور ہو تو مراد وہ نقصان وہ چیز جس کے نقصان کو محسوس کیا جائے۔

 ع۔مفتوح سے مراد کسی کا آنا یا کوچ کر جانا یا قبول کرنے والی چیز۔ مضموم سے مراد وہ ساکن جو اس کی ذات میں ہے جس پر اس کے وجود کا دارو مدار ہے یا وہ چیز جو اپنے ارادے کے مطابق نفع و ضرر پہنچائے۔ مکسور ہو تو مراد ذاتی خبث ہے۔

 غ۔ مفتوح سے مراد ایسی نگاہ جو شے کی حقیقت تک پہنچ جائے، یا وہ چیز جو قریب آنے والی شے کو دور کرے، مضموم سے مراد اسمائے حسنیٰ میں سے کوئی اسم جمالی و رحمت یا مراد مہربانی و تعظیم یا کمال عزت، مکسور ہو تو مراد نامعلوم چیز۔

 ف۔ مفتوح سے مراد معروف گندگی یا معاصی وغیرہ۔ مضموم سے مراد خبث زائل کرنے کے لئے اور مکسور سے مراد ذات اور جس پر مشتمل ہو اور کبھی اس کے ساتھ قلت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔

 ق۔مفتوح سے مراد تمام خوبیوں کو اپنے اندر جمع کرنا یا جمیع انوار ۔ اگر مضموم ہو تو اصل آفرینش یا علم قدیم، مکسور سے مراد دولت۔

 ک۔مفتوح سے مراد حقیقت عبودیت کاملہ ، مضموم سے مراد غلام و مملوک قبیح اور مکسور سے مراد بندگی کا ہماری طرف منسوب ہونا۔

 ل۔مفتوح سے مراد عظیم شے یا متکلم کا بہت بڑی شے کا حاصل کرنا، مضموم سے مراد لا انتہا شے۔ مکسور سے مراد اپنی ذات کی طرف مع اضطراب اشارہ۔

 م۔مفتوح سے مراد تمام کائنات، مضموم سے مراد چھوٹی سی پیاری شے۔ اور مکسور سے مراد ذات کا ظاہری و باطنی نور۔

 ن۔مفتوح سے مراد وہ خیر جو ذات کے اندر ساکن اور روشن ہو۔ مضموم سے خیر کامل یا نور بسیط مکسور سے وہ شے جو متکلم کو حاصل۔

 و۔مفتوح ہو تو مراد رگیں انگلیاں وغیرہ چیزیں جو انسان کے اندر جال کی طرح پھیلی ہیں۔مضموم انسان سے مختلف اشیاء مثلاً افلاک و پہاڑ وغیرہ مکسور سے مراد وہ پھیلی ہوئی چیزیں جو ناپسندیدہ ہوں مثلاً آنتیں وغیرہ۔

 ہ۔مفتوح سے بے انتہا پاک رحمت ۔ مضموم ذات باری کا نام ہو اور مکسور سے مراد وہ نور جو اجسام موتین سے نکلے۔

 ی۔مفتوح سے ندا یا تکید مراد ہے، مضموم سے بیقرار شے ، مکسور سے مراد وہ شے جس سے حیا کی جائے یا شرمگاہ۔

 

نام اور اسلامی تعلیمات

 دین اسلام چونکہ مکمل دستور حیات ہے اور بلالحاظ زمان و مکان ، ہر دور اور کرہ ارضی کے ہر خطے کے لئے انسانیت کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اس لئے اس نے انسانی زندگی کے ہر گوشہ پر روشنی ڈالی ہے اور ایسے جامع اور اکمل اصول و قوانین مرتب کئے ہیں۔ جو فطرت انسانی کے عین مطابق اور نہایت ہی احسن ہیں۔ اگر ان اصول و قوانین کی پابندی کی جائے تو نہ صرف ترقی و کامرانی کے اعلیٰ مدارج پر انسان فائز ہو سکتا ہے بلکہ دنیا میں اسے سکینت و اطمینان قلت کی دولت میسر آنے کے علاوہ وہ آخرت میں بھی نجات اور لازوال شادمانی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسلام رہبانیت کے بجائے معاشرتی زندگی کا داعی ہے، اس لئے اس نے انسانی زندگی کے دونوں پہلوؤں حقوق اللہ العباد کو اس طرح مربوط و متوازن رکھا ہے کہ ایک کے بغیر دوسرے کی تکمیل نہیں ہوسکتی ہے۔ اس لئے فوز و کامیابی کا انحصار اس پورے اجتماعی عمل پر رکھا گیا ہے جو پوری انسانی زندگی پر محیط ہو۔

 انسانی زندگی میں نام چونکہ غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں اس لئے دوسرے معاملات کے ساتھ ساتھ اسلام نے ان پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ان کے حسن و قبیح پر اپنا مخصوص نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ چنانچہ بعث نبویؐ سے قبل چونکہ عملاً تمام الہامی مذاہب کی عملداری ختم ہو چکی تھی اور انسانی معاشرہ ابتری اور بے راہ روی کا شکار ہو چکا تھا۔ اس لئے کفر و شرک الحادوندقہ اور اخلاقی پستی کا براہ راست اثر ناموں پر بھی پڑا۔ ایام جاہلیت کے ان ناموں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی بستی پر گویا شیاطین قابض تھے۔ اس لئے آنحضرت ؐ نے تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلہ میں جہاں ایک ایک کر کے جاہلیت کے دوسرے آثار مٹائے وہاں ان غیر اسلامی ، مشرکانہ اور ناشائستہ ناموں کی اصلاح کی طرف بھی بطور خاص توجہ فرمائی آپؐ نے ان ناموں کی قباحتوں سے آگاہ فرمایا۔ ان کو اچھے ناموں سے تبدیل فرمایا اور لوگوں کو اچھے نام رکھنے کی تعلیم دی۔ یہی نہیں بلکہ آپ ؐ نے ناموں کا قوی تشخص قائم فرمایا۔ آپؐ نے جس طرح دوسرے اعمال و معاملات میں دیگر اقوام کی مشاہبت اور مماثلت کو پسند نہیں فرمایا اسی طرح ناموں کو بھی خالص اسلامی رنگ عطا فرمایا۔

 بعثت نبویؐ کے وقت چونکہ پورے کا پورا معاشرہ ناموں کے معاملہ میں بے راہ روی کا شکار تھا اس لئے ان کی اصلاح کا کام آسان نہ تھا اور نہ ہی بیک جنبش لب ان کی تبدیلی ممکن تھی اس لئے ابتداً آپؐ نے بُرے ناموں پر اپنی ناگواری کا اظہار فرما کر لوگوں کو احساس دلانے پر ہی اکتفا فرمایا۔ جیسے کے ذیل کی احاڈیث سے ظاہر ہوتا ہے۔

 ترجمہ : نبی  ؐایک اونٹنی کے پاس تھے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا کون اسے دوہے گا؟ ایک شخص کھڑا ہوا۔ آپؐ نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے؟ اس نے کہا مرہ (کڑوا) آپ نے فرمایا، بیٹھ جاؤ۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا، کون دوہے گا؟ ایک اور شخص کھڑا ہوا۔ آپ نے پوچھا تمہارا نا م کیا ہے؟ اس نے کہا ھرب (لڑائی) ۔ آپؐ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ پھر آپ ؐ نے فرمایا کون دوہے گا؟ ایک آخری شخص کھڑ اہوا ۔ آپؐ نے دریافت فرمایا تمہارا کیا نام ہے؟ اس نے کہا یعیش (آرام کرتا ہے) آپ ؐ نے فرمایا ٹھیک تم دوہو۔

 اسی طرح دوسری حدیث یہ ہے۔

 ترجمہ : آنحضرت  ؐکسی چیز سے بدشگونی نہ لیتے۔ آپؐ جس وقت کسی شخص کو کسی عہدے پر مقرر فرماتے تو اس کا نام دریافت فرماتے۔ اگر نام اچھا ہوتا تو خوش ہوتے اور اس کی خوشی چہرہ انور سے ظاہر ہوتی۔ اگر نام پسند نہ آئے تو ناگواری کا اثر چہرے سے ظاہر ہو جاتا۔ اسی طرح جب آپؐ کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس بستی کا نام دریافت فرماتے۔ اگر نام خوش آتا تو خوشی چہرہ انور سے ظاہر ہوجاتی اور اگر نام اچھا نہ ہوتا تو اسکی ناپسندیدگی بھی چہرہ اقدس سے ظاہر ہو جاتی۔

 مندرجہ بالا احادیث سے بظاہر صرف اتنا ہی معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اچھے ناموں کو پسند فرماتے اور اس کی خوشی چہرہ انور سے ظاہر ہوجاتی نیز برے ناموں کو ناپسند فرماتے اور کراہت کا جو اظہار چہرہ مبار ک سے ہوتا صحابہ کرام اسے بھی محسوس کر لیتے۔ لیکن یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح انسانوں کے نام اچھے اور برے ہوتے ہیں اسی طرح بستیوں اور آبادیوں کے نام بھی اچھے اور برے ہوتے ہیں۔ چونکہ ناموں کا تعلق انسانوں ہی سے ہے اس لئے ان کے حسن و قبح کا براہ راست اثر بھی انسان ہی پر پڑنا ناگزیر ہے۔ مثلاً گلاب ایک پھول کا نام ہے۔ یہ پھول اپنی دلکشی، رعنائی، خوش روئی اور خوش بو کے لئے مشہور ہے۔ جہاں گلاب کا نام زبان پر آیا اور سامعہ نے سنا تو مطام جاں میں اس کا تعطر محسوس ہونے لگتا ہے اور وجدان پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نیز گلاب کی رعنائی و عطر بیزی کی کیفیات سے طبیعت انسانی مائل بہ فرحت ہو جاتی ہے لیکن اس کے برعکس خار دار کانٹے کا نام آتے ہی نوک خار سے جو اذیت سامعہ کو ہوتی ہے یا پافگاری کا اثر جو وجدان پر مرتب ہوتا ہے اور طبیعت و مزاج انسانی میں جو ناخوشگوار تبدیلی آتی ہے اس کی اذیت کس کو محسوس نہیں ہوتی۔ بہرحال ہر سلیم الفطرت اور صحیح المزاج شخص ناموں کے اچھے اور برے اثرات کو محسوس ضرور کرتا ہے۔ نام اچھا ہو تو اس کی اچھائی کا اثر شخصیت پر ضرور پڑتا ہے اور اسی طرح برے ناموں کے اثر سے بھی شخصیت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ خواہ یہ نام انسانوں کے اپنے ہوں یا ان کی بستیوں اور آبادیوں کے ہوں۔ چنانچہ ارشاد نبویؐ ہے۔

 ترجمہ : یعنی زمین کو اس کے ناموں پر ہی قیاس کرو۔

 اس سلسلے میں مشکواۃ کی یہ روایت بھی ملاحظہ ہو:

 ” ایک موقعہ پر ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنے آیا۔ آپ نے اس سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے کہا ۔ جمرہ (انگارہ) باپ کا نام پوچھا تو کہا شہاب (نجم سو زندہ) پھر آپ نے اس کے قبیلے کا نام پوچھا تو کہا کہ حرقہ (سوختہ شدہ) آپ نے بستی کا نام پوچھا تو کہا حرۃ النار ( آگ کی زمین) اور علاقہ کا نام ذات نطی (آتش فشاں) بتایا۔

 امیر المومنین نے ان متکبرانہ ناموں کا یہ تسلسل سن کر اس شخص سے فرمایا” تم دیکھو گے کہ تمہاری واپسی سے قبل تمہارا مکان جل چکا ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

 بہرحال نام اچھے ہوں تو ان کی برکت بھی ظاہر ہوتی ہے اور اس موضوع پر ثناء کے الفاظ سبحانک وتبارک اسمک شاہد ہیں۔ اسی طرح نام برے ہوں تو حدیث مندرجہ بالا کے بمصداق ان کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔


 


Naam Aur Hamari Zindagi

Shafiq Ahmed


 نام تشخص کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے ان کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا سلسلہ ابدی ہے۔اس کثرت اور عمومیت کی وجہ سے شاید بھول کر بھی کبھی یہ خیال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ نام کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ صرف انسان ہی نہیں، اس کائنات کی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی نام ہے۔ یہ سب کے سب نام انسانی زبانوں میں ہیں۔ انسان ہی ان کو مقرر کرتا ہے اور ان کو حافظے میں محفوظ رکھتا ہے۔ نیز وہی ان سے مستفید ہوتا ہے۔ یہی نہیں بحیثیت مجموعی اس پوری کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہی اس کائنات کا جزو اعظم ہے۔ اور شاید اسی لئے اس کائنات سے اس کا تعلق بھی نہایت گہرا ہے۔ لیکن یہ تعلق کیا ہے اور نام سے انسان کی غیر معمولی وابستگی کی وجہ کیا ہے؟یہ معلوم کرنے کے لئے ہمیں انسان اور کائنات کے موضوع کا مطالعہ نہایت گہری نظر سے کرنا ہوگا۔