Topics

نام اور ہماری زندگی



 نام تشخص کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے ان کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا سلسلہ ابدی ہے۔اس کثرت اور عمومیت کی وجہ سے شاید بھول کر بھی کبھی یہ خیال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ نام کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ صرف انسان ہی نہیں، اس کائنات کی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی نام ہے۔ یہ سب کے سب نام انسانی زبانوں میں ہیں۔ انسان ہی ان کو مقرر کرتا ہے اور ان کو حافظے میں محفوظ رکھتا ہے۔ نیز وہی ان سے مستفید ہوتا ہے۔ یہی نہیں بحیثیت مجموعی اس پوری کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہی اس کائنات کا جزو اعظم ہے۔ اور شاید اسی لئے اس کائنات سے اس کا تعلق بھی نہایت گہرا ہے۔ لیکن یہ تعلق کیا ہے اور نام سے انسان کی غیر معمولی وابستگی کی وجہ کیا ہے؟یہ معلوم کرنے کے لئے ہمیں انسان اور کائنات کے موضوع کا مطالعہ نہایت گہری نظر سے کرنا ہوگا۔

 یہ کائنات جس میں انسان آباد ہے۔ لاتعداد اشیاء اور بے شمار مخلوقات پر مشتمل ہے۔بظاہر نہایت قدیم نظر آنے والی یہ کائنات نہ تو ہمیشہ سے ہے اور نہ ہی ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہ کائنات نہ ہی اتفاقاً وجود میں آگئی ہے جیسا کہ دہریوں کا گمان ہے اور نہ ہی اس کا وجود بلا مقصد ہے۔ اسباب و علل کے علاوہ نظم کائنات کا یہ تسلسل جس عظیم ترین قدرت کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اسی عالی مرتبت ہستی کو اللہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی کی صفات میں سے ہے کہ اس کی ذات تھی جب کچھ نہ تھا۔(کان اللہ ولم یکن شی) اور یہ کہ وہ ہوگی جب کچھ نہ ہوگا۔ اس کی مبارک و تعال ہستی وہ ہے جس نے اس کائنات کا بمعہ تمام مخلوقات و اشیائے عالم کے ایک مقررہ معینہ مدت کے لئے خلق کیا ہے اور جو کچھ بھی اس نے پیدا فرمایا ہے بےکار و عبث پیدا نہیں فرمایا۔ جیسا کہ اُس نے خود ارشاد فرمایا:

وما خلقنا السما والا رض وما بینھما باطلاً۔(القرآن)

 یعنی اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان  کےمابین ہے، بے مقصد پیدا نہیں کیا ہے۔ اگرچہ وما بینھما میں انسان بھی شامل تھا اور اس کی استثناء کی کوئی وجہ بھی نہیں ہو سکتی تھی لیکن پھر بھی خصوصیت کے ساتھ اسے مخاطب کر کے جتلایا گیا۔

افحسبتم انما خلقنکم عبثا۔ (القرآن)

یعنی تو کیا تم کو یہ گمان ہے کہ ہم نے تمہیں بے کار ہی پیدا کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مزید تنبیہہ کا یہ اسلوب بھی اختیار فرمایا گیا۔

أَيَحۡسَبُ ٱلۡإِنسَٰنُ أَن يُتۡرَكَ سُدًى ۔(القرآن)

یعنی کیا انسان بھی یہ گمان کر سکتا ہے کہ اسے پیدا کر یونہی معطل چھوڑ دیا جائے گا؟

 بلا شبہ کوئی وجہ نہ تھی کہ انسان اس مربوط نظام کائنات کو دیکھتے ہوئے اور حقائق عالم کے ان کھلے انکشافات کے باوجود تخلیق کائنات کی مقصدیت کا انکار کرتا اور اس کے ابطال کا خطرہ اس کے دل میں گزرتا۔ اس لئے اس نے اعتراف کیا:

ربنا خلقت ھذا باطلاً۔ (القرآن)

یعنی اے پرور دگار بیشک تو نے کسی بھی چیز کو بیکار پیدا نہیں فرمایا ہے۔

مقصد تخلیق

 جب اتنا معلوم ہو گیا کہ کائنات کی تخلیق کی کوئی غایت ہے اور تمام غایات میں سب سے عظیم اور اصل الاصول غایت وہ ہے جس کے تحت انسان کو خلق کیا گیا ہے تو یہ معلوم کرنے کے لئے کہ وہ مقصد جلیل کیا ہے جس کے لئے اس مہتم بالشان انسانی مخلوق کو خلق کیا گیا ہے۔ ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں انسان کن مابہ الامتیاز خصوصیات  کاحامل ہے۔

 چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ضیعف الحبثہ ہونے کے باوجود انسان منجملہ تمام مخلوقات مثل حیوانات، نباتات، جمادات، پہاڑوں ، سمندروں اور فضاؤں پر حکمرانی کر رہا ہے۔ کائنات کی ہر شے اس کی مطیع و تابع فرمان نظر آتی ہے اور وہ جس شے کو جس طرح چاہتا ہے تصرف میں لے آتا ہے ۔ گویا انسان کائنات کا وہ باجبروت فرماں روا ہے۔

 جس کے سامنے تمام مخلوقات کی حیثیت ایک بے بس محکوم کی سی ہے۔ سیادت و حکومت کا یہ شرف اگرچہ انسان کے لئے باعث فضیلت ہے لیکن اس کی اس فضیلت کا انحصار اس عقل و فہم سلیم پر ہے جو اس کی رہبری کرتی ہے۔ یہی و ہ جوہر ہے جو اس کے پرور دگار نے اسے عنایت فرمایا اور یہی وہ منصب سیادت و امانت ہے جس کے لئے اسے خلق کیا گیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں بیان فرمایا گیا ہے:

 إنا عرضنا الأمانة على السماوات والأرض والجبال فأبين أن يحملنها وأشفقن منها وحملها الإنسان إنه كان ظلوما جهولا ۔ (القرآن)

 یعنی ہم نے اس امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پہلے پیش کر کے دیکھا تھا لیکن ان سب نے اس کے اُٹھانے سے انکار کر دیا اور ڈر گئے۔ لیکن انسان نے اس کو اٹھا لیا۔ بلا شبہ وہ ظلومی و جہولی تھا۔

 معلوم ہوا کہ تخلیق انسانی کا مقصد اس بار امانت کی تفویض تھا جس کو اُٹھانے سے آسمان و زمین کی ہر مخلوق انکار کر چکی تھی اور جسے انسان نے بلا جھجک اُٹھا لیا۔

 آیت امانت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ سوائے انسان کے کوئی بھی مخلوق عکس ِ اسمائے الہیہ کی امانت قبول نہ کر سکی۔

حاؔفظ

 تمام مخلوق عالم کا بار امانت اُٹھانے سے گریزاں ہونے کا صاف مطلب یہی تھا کہ وہ اس سے عاجز ہیں اور اس کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ جبکہ انسان کا بغیر کسی پس و پیش کے اسے اُٹھا لینے سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں قبول امانت کی صلاحیت و اہلیت اور استعداد موجود تھی۔

 انسان کا تعلق ایک ایسی مخلوق سے تھا جس میں ایک طرف تو مٹی اور گارے کی ظلمانیت تھی کیونکہ اسی سے اس کو پیدا کیا گیا تھا تو دوسری طرف نفخت فیہ من روحی کی نورانیت بھی موجود تھی۔ نورانیت و ظلمانیت کے اسی امتزاج نے انسان کو گویا ایک ایسا آئینہ بنا دیا تھا جس میں قبولیت عکس اسما کی پوری صلاحیت موجود تھی بقول غاؔلب؎

 یہ اسی آئینہ کا کمال تھا کہ ارذل مادہ تخلیق سے پیدا کی جانے والی یہ مخلوق افضل المخلوقات قرار پائی۔ اسی آئینہ کی بدولت انسان کا تاریک خانہ ہستی علم اسماء کے نور سے مستنبر ہوا وہ اخلاق الہیہ سے متصف ہوا اور مظہر ذات و صفات ہو کر اس عالمین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ یہی جلوہ آرائی تھی کہ انسان صاحب لولاک ہوا۔ معرفت الہی کے اسی مقام پر فرشتو نے لا علم لنا یعنی ہمیں ہی نہیں ، کہا اور انسان کی برتری کے مقر ہوئے۔ جس کے اقرار کے طور پر انہیں امر سجدہ ریزی ہوا۔

فقعوا له ساجدين (القرآن)

یعنی پس گر  پڑو  سجدے  میں

 

فسجد الملائكة كلهم أجمعون (القرآن )

یعنی سارے کے سارے فرشتوں نے (آدم) کو سجدہ کیا

        (اقبال)

 اس شرف و برتری کا ثبوت فراہم ہوگیا تو نعمت و اعزاز کے طور پر مرحمت خداوندی کا اعلان اس طرح فرمایا گیا:-

إنا جعلناك خليفة في الأرض (القرآن)

  یعنی اے آدم ہم تمہیں زمین پر نیا بت و خلافت کا منصب جلیل عنایت فرماتے ہیں۔

 کیسے عظیم اور روح پرور لمحات تھے جب سرِسردار آدم پر و ستار خلافت وسیادت باندھی گئی، پروانہ نیابت عطا فرمایا گیا اور انسان کو مسجود ملائک ہونے کا شرف حاصل ہوا ، لیکن غور کیجئے تو اس شرف و بزرگی میں انسان کا اپنا کمال و جمال کچھ بھی نہیں۔ ؎

 لیکن چونکہ کمال و جمال کے اظہار کا ذریعہ بننے کا شرف نوری و ناری حاصل کرنے سے عاجز رہے تھے اس لئے مظہریت کے اس محل کو دیکھ کر خود خلاق ازل نے ناز فرمایا اور خلقت آدم کو احسن تقویم سے تعبیر فرمایا:

لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم  (القرآن)

 یعنی البتہ تحقیق کہ ہم نے انسان کو بڑے ہی اچھے انداز پر پیدا فرمایا ہے۔

 اس تاریخی موقعہ پر ابلیس کی مایوسی کا منظر اگر سامنے رکھا جائے اور اس کے اس اعتراض پر غور کیا جائے:

انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین  (القڑان)

  یعنی میں آدم سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے اس مٹی کے اسفل مادہ تخلیق کے مقابلہ میں جس سے تو نے آدم کو بنایا ہے آگ کے اعلیٰ مادے سے خلق کیا ہے۔

 تو اس کا یہ اعتراض غلط نہ تھا کیونکہ اول تو آدم کو مٹی ہی سے پیدا کیا گیا تھا۔

ولقد خلقنا الانسان من سلسال من حما مسنون  (القرآن)

 یعنی اور تحقیق کہ ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی بنی ہوئی تھی پیدا کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ مادہ تخلیق کے اعتبار سے مٹی واقعتاً آگ کے مقابلہ میں اسفل و ارذل تھی۔ لیکن بار گاہ خدا وندی میں اول تو عرض و معروض کا طریقہ ہی گستاخانہ تھا کیونکہ اس میں کبر و غرور نمایاں تھا حالانکہ کبریائی سوائے خدا کہ کسی کو زیبا نہیں۔ اس لئے کہ کفر پر پہلے ہی دلیل قائم بھی کی گئی:

ابی واستکبر و کان من الکافرین   (القرآن)

 یعنی ابلیس نے تکبر کیا اور کافروں میں شمار کر لیا گیا۔

 دوسرے یہ کہ آدم کی خلقت میں صرف مٹی اور گارا ہی تو نہ تھا بلکہ اس میں وہ جوہر روح خدا وندی میں بھی تو شامل تھا جس نے آدم کو یہ فوقیت و تفوق بخشا تھا:

نفخت فبہ من روحی   (القرآن)

 یعنی اور جب میں اس (آدم) میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں۔

 یہ اور بات ہے کہ ابلیس نے آدم کے اس نور و ظہور کو دیکھنا ہی گوارا نہ کیا جو ان کی پیشانی میں چمک رہا تھا اور نہ ہی امر خداوندی کا لحاظ رکھا جو بایں ہمہ جملہ دلائل وبراہین پر فوقیت رکھتا تھا۔

 ہر چند کہ آدم مسجود ملائک بنا امین امانت ٹھہرا اور خلافت ارضی اسے سونپی گئی لیکن چونکہ اس میں مٹی اور گارے کی اسفلیت و ظلمانیت موجود تھی اور اس کو اس کے دشمن ابلیس نے تاڑ بھی لیا تھا اس لئے یہ اسی کا تقاضہ تھا کہ شجر ممنوعہ کے قریب چلے جانے کا واقعہ پیش آیا اور اسے عالم ملکوت کی نورانیت و روحانیت سے محجوب ہو کر عالم ناسو ت کی ظلمانیت کا منہ دیکھنا پڑا۔

ثم رد د نا ہ اسفل سافلین  (القرآن)

 یعنی پھر ہم نے انسان کو نیچوں سے نیچے پھینک دیا۔

 پھر کیا تھا فخر و اعزاز کا ہر سامان ہوا ہو گیا۔ جسے سب سے اعلیٰ ہونے کا صداقت نامہ جاری کیا گیا تھا اب پستی اور ذلت کے انتہائی آخری مرتبہ پر پہنچ گیا۔ عالم بالا کی نورانیت سے محجوب ہو جانا بہت بڑی محرومی تھی اس لئے ندامت و پیشمانی کا احساس نہایت شدت سے دامن گیر ہوا اور آدم محجوب و مہجور کی یہ دلگداز بکا بار گاہ رب العزت کے درو بام سے ٹکرانے لگی:

ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخسرین   (القرآن)

 یعنی اے ہمارے پرور دگار ہم نے ہی خود کو تیرے نور رحمت سے محجوب کر لیا۔ اگر تو ہماری خطا سے درگزر نہ کرے گا اور ہم پر اپنی سابقہ رحمت کو بحال نہ فرمائے گا تو ہم بھی دوسرے محجوبوں کی طرح ہو جائیں گے۔

 یہ وہ موقع نہیں تھا جب آدم خلافت و دستارِ فضیلت کی فکر کرتے بلکہ یہ ایسا موقع تھا کہ جب قربت وحضوری پرورِ دگار سے محروم ہو جانے والا عاشق بعد و حجاب کی آگ میں جل رہا تھا اور شبانہ روز کی گریہ و زاری کے سوا اسے کسی چیز سے کوئی سرو کار نہ تھا۔ تا آنکہ دروازہ رحمت کھولا گیا ضابطہ بخشش و رحمت سے آگاہ فرمایا گیا اور وسیلہ و توسل کا طریقہ تعلیم فرمایا گیا:

فتلقی آدم من رب کلمت فتاب علیہ    (القرآن)

 یعنی پھر آدم نے اپنے پرور دگار سے چند کلمات سیکھ لئے پس ان کی توبہ قبول فرمالی گئی۔

 القصہ آدم پر اپنی نعمتوں کو بحال فرمانے کے بعد ایمان و عمل صالح کی شرط پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو شرف ِ قبولیت بخشا۔

الاالذین امنو و عملو الصلحت   (القرآن)

 یعنی سوائے اللہ کے جو باایمان اور صالح العمل رہیں۔

 گویا عالم اسفل میں آجانے کے بعد اب نئی احتیاطوں کا حکم دیا جا رہا تھا کہ اب تمام اعزازات و عطیات اور نورانیت و روحانیت عالم بالا اسے بہرہ مندی صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوگی جو جسم اسفل کے تقاضوں پر کان نہ دھریں گے اور خواہشات ِ نفسانی سے رکے رہیں گے۔ چنانچہ فرمایا گیا:

ونھی النفس عن الھوی فان الجنة ھی الماوی (القرآن)

  یعنی اور جس نے اپنے آپ کو خواہشات نفسانی سے روکے رکھا تو یقیناً اب جنت انہی کا مستقر ہو گی۔ ان احتیاط و تدابیر کا حکم اس لئے دیا گیا تاکہ عالم ناسوت کی ظلمانیت عقل سلیم کی نورانیت کو پھر مسلوب و محجوب نہ کر دے کیونکہ جو امانت اسے سونپی گئی ہے اور جس کے لئے اسے خلق کیا گیا ہے اس کی حفاظت اسی وقت ہو سکتی ہے اور انسان امور خلافت کی ادائیگی اسی وقت کرسکتا ہے جب اس کی ملکوتی نورانیت اس کی ناسوتی ظلمانیت پر غالب آجائے۔

علم اسماء

 انسان کا سرمایہ فضیلت علم ہے جو عقل کا تقاضہ ہے اور علم اس لئے وجہ شرف ہوا کہ اس سے معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ لیکن جس چیز سے علم و معرفت کا دروازہ کھلتا ہے اور بالآخر جس سے معرفت کا حصول ممکن ہوتا ہے وہ ہے علم اسماء اور یہی وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھایا تھا:

وعلم آدم الا اسماء کلھا   (القرآن)

 یعنی اور آدم کو سب کے سب نا سکھا دیئے گئے۔

 یہاں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ آدم ابو البشری کا نام نہیں ہے بلکہ اس پوری مخلوق کا نام ہے جو آدمی کہلاتی ہے اور جو آدم ہی سے پھیلی تھی۔

 کیونکہ یہ آدمیت سے مشتق ہے اگر چہ نسل انسانی مختلف جغرافیائی خطوں میں آباد ہے اور بود و باش و بُعد مکانی کے علاوہ ان کے درمیان زبان و بیان کے بھی شدید اختلافات موجود ہیں لیکن جو علم اسے عطا گیا گیا ہے وہ ہر کہیں اس سے پورا پورا استفادہ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ جمہور علماء اور مفسرینِ قرآن آیت بالا کی تفسیر میں اس بات پر اتفاق ہے کہ:

علمہ جمیع اسمآء السمیات بکل الغات

 یعنی آدم کو تمام مسمیات کے نام پر لغت اور ہر زبان میں سکھا دیئے گئے تھے۔

 ذات ہو کہ صفات کائنات کی ہر شے جو نام رکھتی ہے، انسان اس سے آگاہی حاصل کرتا ہے یہی آگاہی اس کا علم ہے ۔ نام ہی ہیں جن سے کائنات میں رنگ ہے اور جن کی بدولت انسان کا اس کائنات سے ایک خاص رشتہ و تعلق ہے۔ وہ قدم قدم پر ان سے وابستہ ہے ۔ علم انہی سے حاصل ہوتا ہے ۔ انہی سے بڑھتا ہے اور انہیں کے ذریعے قائم رہتا ہے۔ خالق ہو کہ وہ ہر ایک کو انہی کے ذریعے سے جانتا اور پہچانتا ہے۔

 الغرض دنیا کے تمام منطقوں، خطوں، برا عظموں ، بڑے سمندروں ، بحیروں ، خلیجوں ، دریاؤں، جھیلوں ، ممالک، شہروں ، محلوں ، نباتات، حیوانات، جمادات، اجرام فلکی، طبقات جنت و دوزخ ، عرش و کرسی، لوح و قلم، سدرۃالمنہتیٰ ، عالم ناسوت ہو کہ عالم لاہوت و باہوت، تمام خلقتوں، امراض و ادویہ، رنگوں، ذائقوں، جواس علوم و فنون، کتابوں، مشینوں، اوقات پہروں اور موسموں اور جملہ علوم فنون وغیرہ گویا کہ اس کائنات کی ہر شے کے اپنے اپنے نام ہیں۔ یہ نام مختلف زبانوں میں مختلف ہیں جن سے ان کی شناخت اور تمیز کی جاتی ہے۔

 غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ اس پوری کائنات میں سوائے انسان کے یہ کسی اور کا درد سر نہیں ہے کہ ان ناموں کو مقرر کرے، یاد رکھے اور ان سے کام لے۔ انسان کا تعلق اس کائنات سے چونکہ نہایت گہرا اور حقیقی و قریبی ہے اور یہ تعلق نہ صرف جسمانی ہے بلکہ علمی و روحانی بھی ہے اس لئے علم اسماء اسی کا حق تھا جو اُسے اس کے پرور دگار نے مرحمت فرمایا۔ یہی علم انسان کے لئے باعثِ فضیلت قرار پایا۔


 


Naam Aur Hamari Zindagi

Shafiq Ahmed


 نام تشخص کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے ان کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا سلسلہ ابدی ہے۔اس کثرت اور عمومیت کی وجہ سے شاید بھول کر بھی کبھی یہ خیال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ نام کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ صرف انسان ہی نہیں، اس کائنات کی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی نام ہے۔ یہ سب کے سب نام انسانی زبانوں میں ہیں۔ انسان ہی ان کو مقرر کرتا ہے اور ان کو حافظے میں محفوظ رکھتا ہے۔ نیز وہی ان سے مستفید ہوتا ہے۔ یہی نہیں بحیثیت مجموعی اس پوری کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہی اس کائنات کا جزو اعظم ہے۔ اور شاید اسی لئے اس کائنات سے اس کا تعلق بھی نہایت گہرا ہے۔ لیکن یہ تعلق کیا ہے اور نام سے انسان کی غیر معمولی وابستگی کی وجہ کیا ہے؟یہ معلوم کرنے کے لئے ہمیں انسان اور کائنات کے موضوع کا مطالعہ نہایت گہری نظر سے کرنا ہوگا۔