Topics

نام رکھنے کا دستور عام



چونکہ مسلمانوں میں اسم گرامی پر نام رکھنے کا دستور عام ہے اس لئے اس کا استعمال بھی بولنے اور لکھنے میں زیادہ ہوتا ہے لیکن جس طرح بولتے وقت آپ کے نام کو بگاڑ نا یا اس کا غلط تلفظ ادا کرنا حرام ہے اسی طرح اسم گرامی کو لکھنے میں بھی کسی طرح کی تحریف جائز نہیں ہے جب کہ انگریزی زبان میں بالعموم دیکھا جاتا ہے کہ اسم گرامی کو Muhammad یا Mohammad لکھنے کے بجائے Mohd یا Md لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا حالانکہ یہ تخفیف سوء ادب ہے اگر اختصار ہی مطلوب ہو تو صرف M پر کیوں نہ اکتفا کیا جائے۔ آخر اسم گرامی کے لئے M کو مختص کر لینے میں کیا حرج ہے۔

 اسی طرح اسم گرامی کے ساتھ  ؐاس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اسم گرامی کے آداب میں شامل ہے اور درود کا مطلب ہے جس کے پڑھنے بولنے اور لکھنے سے ثواب حاصل ہوتا ہے اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں نیز اسم گرامی سن کر درود نہ پڑھنا شقاوت کی علامت قرار دیا گیا ہے اس لئے جب بھی لکھا جائے پورا صیغہ درود یعنی  ؐیا انگریزی میں Peace Be Upon Him لکھا یا بولا جائے نہ کہ اس کا بھی اختصار کر دیا جاتا ہے اور صرف صلعم یا صللم پر اکتفا کر لی جائے ۔تحریر و تقریر دونوں ہی اعتبار سے یہ دونوں الفاظ مہمل و بے معنی ہیں جن کو آپ کے نام کے ساتھ وابستہ کرنا درست نہیں ۔ القلم اجدی السانین یعنی قلم و زبانوں میں سے ایک کے بمصادق جو بولنے میں درست نہیں لکھنے میں درست نہیں ہو سکتا ہے اس موضوع پر فتادی تاتار خانہ میں خاص بحث موجود ہے اور موصوف نے با لآخر اس اختصار کو تخفیف شان نبوت کے مصداق قرار دے کر کفر پر محمول کیا ہے ( انساذ ا بااللہ) یہ صحیح ہے کہ بقد کی قید کی جائے گی اگر قصداً اور ارادۃ ایسا نہ کیا گیا تو کفر تو نہ ہوگا لیکن جس عمل سے تخفیف شانِ تخفیف شانِ  نبوت ہو سکتی ہو مسلمانوں کو قصداً اور ارادۃ اس گریز کرنا چاہیئے۔

 تعلیمات اسلامی میں جہاں اسم گرامی کا ادب جزوی ایمان قرار دیا گیا ہے وہاں ان بچوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جن کے نام اسم گرامی پر رکھے گئے ہوں چنانچہ ارشاد نبوی ؐہے۔

 ترجمہ : جب اپنی اولاد کا نام محمد رکھو تو پھر اس کو لعنت نہ کرنا۔

 ترجمہ : جب کسی کا نام محمد رکھو تو اسے گالی نہ دیا کرو۔

 اسی طرح ایک اور موقع پر آپ ؐنے ارشاد فرمایا۔

 یعنی جب کسی کا نام محمدرکھو تو نہ اسے مارو اور نہ محروم کرو۔

ا حیا العلوم میں امام غزالی نے بھی ایک حدیث پہ روایت کی ہے کہ آنحضرت ؐنے ارشاد فرمایا ہے۔

 ترجمہ : جب تم کسی بچے کا نام محمد رکھو تو اس کی عزت کو ملحوظ رکھو اور مجلس میں اس کے لئے جگہ کشادہ کرو اور اس پر برائی کی دعا نہ کرو۔

 مندرجہ بالا احادیث میں ایسے بچوں کو جن کا نام محمد ہو نہ صرف لعن طعن کرنے ، مار پیٹ اور رجزہ توبیح کرنے ، محروم کر دینے اور گالی دینے یا کوسنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ حسن سلوک اور توقیر تکریم کا حکم دیا گیا ہےلہذا روز مرہ معاملات میں ایسے بچوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیئے۔ کیونکہ خود آنحضرت  ؐنے اس کا حکم دیا ہے اول تو امر رسول ؐکی اطاعت ضروری ہے دوسرے یہ کہ اسم گرامی کا ادب خود آپ  ؐکا ادب ہے اور یہ عظمت و شان آپ ؐہی کی بار گاہ کی ہے۔

      (اقبال)

 

عبدالنبی اور عبد المصطفیٰ نام رکھنا

 عبدالنبی اور عبد المصطفیٰ نام رکھنے کے بارے میں علماء نے خاصی بحث کی ہے اور نہایت د قیع دلائل فراہم کئے ہیں چنانچہ علماء ے ایک گروہ نے ان ناموں کو شرک سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلم میں روایت حضرت ابو ہریرہؓ آنحضرت  ؐکا یہ ارشاد موجود ہے۔

 ترجمہ : تم میں سے کوئی ہرگز اپنے مملوک کو ” میرا بندہ“ نہ کہے کہ تم سب خدا کے بندے ہو۔ جس کے مطابق ہر کوئی خدا کا بندہ ہے اس لئے رسول کا بندہ کہنا یا نام رکھنا شرک ہے جب کہ علماء کے دوسرے گرو نے دو آیتوں

(ا) وأنكحوا الايامى منكم والصالحين من عبادكم وإمائكم (القرآن)

(ب) قُل يا عِبادي الّذين أسرفوا على أنفُسِهِم لا تقنطوا مِن رّحمة اللّه (القرآن)

 کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آنحضرت  ؐکا عبد قرار دیا ہے نیز تمام صحاع مثل بخاری و مسلم سے حضرت عمر ؓ کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں۔

کنت مع رسول اللہ و کنت عبد و خادمہ

 نیز امام قسطانی علامہ زرقانی ، سہیل بن عبد اللہ تستری، علامہ شہاب الدین خفہ جی مصری و شاہ عبدالعزیز دہلوی وغیرہ کے حوالہ جات نقل کئے ہیں اور لفظ عبد کا اطلاق مسلمانوں کے ساتھ اس معنی میں جائز رکھا کہ ہر مسلمان حضور ؐکا مملوک و مطیع و وفقادہ غلام ہے اور جس معنی میں کہ خود اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ؐکے ساتھ مسلمانوں کے لئے لفظ عبد کا اطلاق جائز لکھا ہے اس کے لئے عدم جواز کا فتویٰ دینا واضح اور صریح دلائل کے برخلاف ہوگا لہذا عبد المصطفیٰ ، عبدالنبی یا عبد الرسول نام رکھنا شرک کے زمرے میں نہیں آتا۔

احترام نفس انسانی:

 تعلیمات اسلامی کی رو سے ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان و مال اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت فرض ہے اس لئے جس طرح قتل اور چوری کو قابلِ جرم قرار دیا گیا ہے اسی طرح برے نام رکھنا، مضحکہ اڑانا ، استہزاء کرنا اور توہین کا مرتکب ہونا بھی ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ۔

 ترجمہ : ایک دوسرے کو طعنے نہ دو اور نہ ایک دوسرے کے نام دھرو ایمان لانے کے بعد بد تہذیبی کا نام ہی برا ہے اور جو ان ناشاہستہ حرکتوں سے باز نہ آئیں تو خدا کے نزدیک وہی لوگ ظالم ہیں ۔ (القرآن)

 اس لئے کہ کسی کو برے القاب سے پکارنا ، کسی کا نام دھرنا ، نازیبا کلمات سے مخاطب کرنا یعنی طعن کرنا یا کسی بھی طرح کسی کی اہانت کرنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا کیونکہ ان تمام حرکتوں کا تعلق بد تہذیبی اور ظلم سے ہے جو اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے اس لئے باہم ایسے مخالفانہ نام رکھنا جو ناگواری کا باعث ہوں شریعت اسلامی کی رو سے ممنوع قرار دیئے گئے ہیں نہ صرف دوسروں کو برا کہنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ خود اپنی ذات کو برا کہنا یا ملعون کرنا احترام نفس انسانی کے خلاف قرار دیا گیا ہے چنانچہ آنحضرت  ؐنے ارشاد فرمایا ہے۔

 ترجمہ :  تم میں سے کوئی یوں نہ کہا کرے کہ میرا نفس خبیث ہوگیا ہے بلکہ یوں کہے کہ میرا جی متلا رہا ہے یا میرا جی کاہل یا سست ہو گیا ہے۔

 اسی طرح خود اپنے آپ کو کوسنے اور موت کی دعا کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ہر فرد کو یہ احساس دلایا جائے کہ ہر نفس انسانی محترم ہے اور ہر ایک پر اس کا احترم لازم ہے۔ چنانچہ دورِ نبوی ؐمیں چونکہ بردہ فراشی کا رواج تھا اور لوگ نہ صرف اپنے غلاموں کے ساتھ من مانا سلوک کرتے تھے اور ان پر ہر قسم کا ظلم روا رکھتے تھے بلکہ ان کو اپنا بر اور اپنا بندہ کہتے اور خود کو ان کا رب کہلوایا کرتے تھے۔ آنحضرت  ؐنے نہ صرف انھیں اس ظلم وستم سے ان کو منع کیا بلکہ  رب کہلوانے سے بھی منع فرمایا۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا۔

  یعنی تم میں سے کوئی بھی اپنے غلام یا لونڈی کو میرا بندہ یا میری بندی نہ کہے کیونکہ تم سب کے سب اللہ ہی کے بندے اور اسی کی بندیاں ہوں۔ مگر اس طرح کہے کہ میرا غلام اور میری باندی۔

 اسی طرح ایک دوسرے موقع پر آنحضرت  ؐنے فرمایا:

 ترجمہ : تم میں سے کوئی بھی اپنے غلام سے نہ کہے کہ ”اپنے رب کو کھلا“ یا ” اپنے رب کو وضو کرا“ یا ”اپنے رب کو پانی پلا“ اور نہ کوئی غلام یوں کہے کہ فلاں میرا رب ہے بلکہ یہ کہے فلاں میرا سپہ سالار یا میرا مولا ہے۔

 بہرحال روز مرہ کے باہمی معاملات میں شریعت اسلامی کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام ہر مسلمان پر واجب ہے اور مسلمان وہی ہے جو دوسروں کے لئے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہو جو خود کو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔

 

کنیت:

 اصلی نام کے ساتھ ساتھ ماں باپ یا بچوں کے لگاؤ یا کسی اور مناسبت سے کوئی اور نام رکھ لینے کا رواج عربوں میں زمانہ قدیم سے عام تھا جسے کنیت کہا جاتا تھا۔ خود آنحضرت  ؐکی کنیت ابو القاسم ہے جو آپ  ؐنے اپنے بیٹے کے نام پر رکھی تھی۔ نسل انسانی کی اب ہونے کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کی کنیت ابو البشر ۔ حضرت مریم کا بیٹا ہونے کی مناسبت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کنیت ابن مریم ، ام المومنین حضرت زینب کی مسکین نوازی کے سبب ان کی کنیت ام المساکین، خلیفہ اول حضرت عبداللہ بن عثمان ابو قحافہ جو اپنی کنیت ابو بکر ہی سے مشہور ہوئے۔ حضرت علی کی کنیت ایک خاص واقعہ کے سبب ابو تراب مشہور صحابی عبد الرحمان کی کنیت ایک پالتو بلی کے سبب جسے وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے ابو ہریرہ ؓ اور شاعر رسول حضرت حسان بن ثابت ؓ کی کنیت ابو ولید تھی۔ اسی طرح ام سلمہ ؓ ، ابن عمرؓ اور بنت ابو بکر ؓ کی کنیتیں دور صحابہ میں خاص شہرت رکھتی ہیں جیسا کہ معلوم ہوا ہے کہ کنیت صرف باپ بیٹے اور ماں تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ اہل عرب اشیائے بے جان اور معقولات کو بھی ماں بیٹے کہہ کر کنیت بنا لیتے ہیں مثلاً مسافر کو ابنِ السبیل (راستے کا بیٹا) یا چاند کو ابن النبیل (ملت کا بیٹا) یا علم حرف کو ام العلوم (علموں کی ماں) انگور کی شراب کو (بنت العنب) ابو الضول (بوالہوس ) قرآن مجید کو ( ام الکتاب)ابتدا میں  آنحضرت ؐ نے جہاں نام پر نام رکھنے کی اجازت صحابہ کرام کو عطافرمائی تھی وہاں اپنی کنیت پر کنیت رکھنے سے  منع فرما دیا تھا جیسے کہ آپ  ؐنے ارشاد فرمایا تھا۔

 ترجمہ : میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت اختیار نہ کرو۔

 لیکن حضرت عائشہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐنے بعد ازاں اس حکم کو واپس لے لیا تھا اور کنیت کی اجازت بھی مرحمت فرما دی تھی چنانچہ فتاوی عالمگیری جلد چہارم میں بھی اس روایت پر حجت قائم کرتے ہوئے سابقہ حکم کو منسوخ کیا گیا ہے نیز یہ دلیل بھی دی ہے کہ اگر سابقہ حکم بحال ہوتا تو حضرت علی ؓ اپنے بیٹے محمد بن افضیہ کی کنیت ابو القاسم نہ رکھتے ۔ البتہ علماء نے ابو عیسیٰ اور ابو یحییٰ کی کنیتیں اختیار کرنے کو مکر وہ کہا ہے۔

 کنیت کا رواج اگرچہ عربوں کے ذریعے دوسرے ممالک میں بھی پہنچا ہے لیکن فی زمانہ جیسے جیسے طویل ناموں کا رواج زوال کو پہنچ رہا ہے کنیتوں کا دستور بھی ختم ہوتا نظر آتا ہے۔

 پاک و ہند میں بالعموم کنیتوں کا رواج نہیں ہے سوائے اس کے کہ عام رواج کے مطابق یہاں نہ تو بیویاں خاوندوں کا نام لیتی ہیں اورنہ  خاوند بیویوں کا اور اس وقت تک مخاطب کرنے کے لئے اشارے کنائے کے الفاظ سے کام لیا جاتا ہے جب تک کہ اولاد نہیں ہو جاتی اولاد ہوجانے پر خاوند بیوی کو ”اسلم کی ماں“ اور بیوی خاوند کو ”غزالہ کے ابا“ کی کنیتوں سے پکارنے لگتے ہیں۔ عربوں کی طرح اب بعض کنیتیں رواج پانے لگیں ہیں جیسا کہ مجاہد وطن کو ”وطن کے بیٹے“ اور وطن کو ” مادرِ وطن “ کہا جاتا ہے۔

عرفیت:

 پیار محبت یا نفرت و حقارت کے طور پر یا کسی دوسرے موقع محل سے مناسبت دے کر کسی شخص کو کسی نام سے منسوب کر دینا عرفیت کہلاتا ہے چنانچہ بر صغیر میں منا ، منی، گڈو، گڑیا ، کلو، سورج مکھی، پیرو ، منگو، بدھو ، جمعراتی ، شبراتی، رمضانی، گنجا ، لنگڑا، اندھا، چندا اور کانا وغیرہ کی عرفیتیں مشہور ہیں۔ کنیت کی طرح عرفیت کا رواج بھی نہایت قدیم اور عام ہے اور غالباً دنیا کے ہر ملک میں اس کا رواج ہمیشہ سے ہو رہا ہے۔ البتہ عرفیت احباب و اعزہ کے درمیان ہی استعمال ہوتی ہے جب کہ اصل نام کی حیثیت برقرار رہتی ہے۔

 عرفیت کی بیشمار شکلیں ہیں چنانچہ داڑھی والے اشخاص مولانا ، مولوی ، صوفی اور میاں صاحب کی عرفیت سے مخاطب کئے جاتے ہیں۔ حفاظ قرآن کی عرفیت حافظ اور فریضہ حج ادا کرنے والی حاجی صاحب کی عرفیت سے پکارے جانے لگتے ہیں۔ اسی طرح معمر ہونے کی وجہ سے بڑے بوڑھوں کو بڑے میاں اور چچا وغیرہ کی عرفیت سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ کبھی عرفیتوں کو نسب کی وجہ سے مقرر کر لیا جاتا ہے مثلاً پیر صاحب ، صدیقی ، فاروقی ، عثمانی ، علوی ، نقوی یا شیخ جی۔ خان صاحب ، چوہدری صاحب ، قاضی صاحب ، ملک صاحب ، خانزادہ ، پیر زادہ وغیرہ اسی طرح کبھی پیشے کے اعتبار سے کیا جاتا ہے۔ اور خلیفہ صاحب ، ماسٹر صاحب ، منشی جی ، مستری صاحب ، تھانیدار صاحب ، ڈپٹی صاحب ، کمپاؤنڈر صاحب ، ڈرائیور اور کنڈیکٹر صاحب وغیرہ کی عرفیتوں سے پکارا جانے لگتا ہے۔

 پیار اور محبت کے طور پر جو عرفیتیں مقرر کی جاتی ہیں اگر چہ ان پر کوئی قدغن اسلامی تعلیمات میں نہیں لگائی گئی ہے لیکن پھر بھی صوتی اور معنوی اعتبار سے انہیں قومی وقار کے منافی نہیں ہونا چاہیئے۔البتہ وہ تمام عرفیتیں جو نفرت اور تحقیر کی بنیاد پر رکھی گئی ہوں ۔ شریعت اسلامی کی رو سے قطعی ممنوع ہیں کیونکہ وہ احترام نفس انسانی کے بر خلاف اور عزت نفس کی تذلیل و تحقیر کا ذریعہ ہیں۔

 ہمارے ہاں بعض علاقوں میں جو یہ رواج چلا آرہا ہے ہ اچھے بھلے نام کو بگاڑ کر عرفیتیں بنا لی جاتی ہیں اور یہی بعد میں شہرت پا جاتی ہیں دیکھا جائے تو خاصی مذموم حرکت اور بد ذوقی کی علامت معلوم رہتی ہیں مثلاً ثناء اللہ کو ”سنو“فرزند علی کو ”فندی“ قطب الدین کو ” قطباً“ وغیرہ اس لئے وقت آگیا ہے کہ اب اس رواج کو ترک کیا جائے اور حقیقی نام لینے کو ترجیح دی جائے یا کم از کم ایسی عرفیتوں کی اصلاح کی جائے جو شائستگی کے خلاف ہوں۔

 اسلام نے نہ صرف ذمیم و قبیح ناموں اور عرفیتوں کے ممنوع قرار دیا ہے بلکہ بیجا مدح و سرا اور مبالغہ آرائی سے بچنے کی بھی تعلیم دی ہے کیونکہ جو خوبی کسی میں موجود نہیں ہے اسے بیان کرنا جذب و اخترا ہے۔ یا کسی کی اتنی تعریف و توصیف بیان کرنا کہ وہ خدا اور رسول  ؐکی مثل ہو جائے شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی طرح کسی فاسق و فاجر کی مدح و ستائش کرنے کو بھی سخت ناپسند ہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ آنحضرت  ؐنے ارشاد فرمایا ہے۔

 ترجمہ : اللہ تعالیٰ کسی فاسق کی تعریف و ستائش بیان کرنے سے غضبناک ہوتا ہے اور عرش الہی لرزنے لگتا ہے۔

 چنانچہ ایک اور موقع پر آپ ؐنے ارشاد فرمایا ہے۔

 ترجمہ : کسی منافق کو سید یا سردار نہ کہا کرو کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو اپنے پرور دگار کو ناراض کرو گے کیونکہ شریعت اسلامی کے مطابق تعریف و ستائش اور تعظیم و تکریم کے لائق صرف وہی لوگ ہیں جو متقی پرہیز گار ہوں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔

 ان اکرمکم عبد اللہ الحکم

 یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ عزت تو وہی ہیں جو تم میں پرہیز گار ہوں اسی طرح ایک اور موقع پر تعظیم و تکریم کو صرف اللہ و رسول  ؐاور مومنوں کے لئے مخصوص فرما دیا گیا ہے۔

العزۃ اللہ ولرسولہ و اللمو منین

 یعنی عزت کے سزاوار صرف اللہ اس کا رسول ؐاور مومن لوگ ہی ہیں۔

تخلص:

 شعراء اپنے شعروں میں اپنا نام استعمال کرنے یا اپنی معرفت کے لئے اپنا ایک مختصر نام رکھ لیتے ہیں۔اسی کو تخلص کہا جاتا ہے مثلاً الطاف حسین حالی، علی سکندر جگر، نواب مرزا ،داغ، محمد حسین آزاد، مصطفی خان ،شیفتہ اور اسد اللہ غالب ، امام بخش ناصح اور حسرت علی آتش وغیرہ یوں تو تخلص شعراء کا ہی حصہ ہوتا ہے لیکن فی زمانہ نئی نسل میں تخلص فیشن کی طرح رواج پا رہا ہے حالانکہ انہیں ادب کا دور دور کا بھی علاقہ نہیں ہوتا۔

 

لقب:

 وصفی حیثیت سےکسی شخص کو کوئی صفاتی نام دے دیا جاتا ہے تو اسے لقب کہا جاتا ہے۔ القاب رکھنے کا رواج زمانہ قدیم سے عرب و عجم میں ہر جگہ معروف رہا ہے۔ اسلام نے برے القاب رکھنے سے سختی سے منع کیا ہے البتہ اچھے ناموں سےپکارنے یا معلوم کرنے کو پسندیدہ قرار دیا ہے۔ مشہور القاب میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ ، حضرت اسماعیل ذبیح اللہ ، حضرت موسیٰ کلیم اللہ ، حضرت عیسیٰ روح اللہ۔

خطاب:

 بادشاہ یا حکومت کی جانب سے کسی شخص کے کسی کارنامے کی بناء پر اس کی عزت کے لئے ایک امتیازی نام دیا جاتا ہے یہی نام خطا ب کہلاتا ہے مثلاً شمس الا طبا ، نجم الدولہ ، ملک الشعراء، شفا الملک، شمس العلماء، رستم زماں ، بے۔ اے، ایم ۔ اے ، پی ایچ ۔ ڈی

تلخیص:

 گزشتہ صفحات میں ناموں کے حسن و قبیح پر جو بحث کی گئی ہے اور اس کے نتیجہ میں خدا و رسول ؐکے نزدیک ناموں کی پسند نا پسندیدگی کا جو معیار سامنے آتا ہے اس سے مندرجہ ذیل امور اخذ کئے جا سکتے ہیں تاکہ ناموں کو بہ یک نظر پرکھنے میں آسانی ہو۔

 ٭ تمام انبیاء کے ناموں پر نام رکھنے کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔

 ٭ سچے نام یعنی جن ناموں سے کوئی مطابقت موسوم میں پائی جاتی ہو۔ رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے جیسے حارث وغیرہ۔

 ٭ لڑکوں میں سے چند کے نام اسم گرامی محمد یا احمد پر ضرور رکھے جائیں۔

 ٭ نام معنوی اعتبار سے اچھے ہوں مگر

 ۱۔ بڑائی، تعلی اور خود تعریفی قسم کے نہ ہو۔

 ۲۔ سختی اور گرانی کے مظہر نہ ہوں۔

 ۳۔ ایسے بھی نہ ہوں کہ اگر کہا جائے کہ فلاں نہیں ہے تو اس سے خوبی و برکت کی نفی ہوتی ہو۔

 ۴۔ثقیل، مشکل اور دقیق نہ ہوں کہ لوگوں کو ادائیگی میں مشکل پیش آئے۔

 ۵۔ خدا کی نافرمانی کا مفہوم نہ نکلتا ہو۔

 ٭ ایسے نام نہ رکھے جائیں جو کمتری، پستگی اور فضیلت انسانی کے منافی ہوں۔

 ٭ شیاطین کے ناموں پر نام نہ رکھے جائیں۔

 ٭ مشرکانہ اور کافرانہ نام نہ رکھے جائیں۔ نہ ہی کافروں اور مشرکوں کے نام پہ نام رکھا جائے۔

 ٭ فرشتوں کے ناموں پر نام نہ رکھے جائیں۔

 ٭ نامعلوم المعانی اور مہمل نام نہ رکھے جائیں۔

 ٭ مشہور زمانہ ظالمین و خاسرین کے ناموں پر نام نہ رکھے جائیں کیونکہ یہ حمیت کے خلاف اور مسلمانوں اور عامہ الناس کی ایذا رسانی کے مترادف ہیں۔

 ٭ نام توحید و تعلیمات اسلامی کے آئینہ دار ہوں۔

 ٭ نام مشہور مسلمانوں اور زعمائے اسلام و بزرگان دین کے ناموں پر رکھے جائیں۔

 ٭ ناموں کو بگاڑا نہ جائے اور نہ کسی کے لئے برے القاب تجویز کئے جائیں۔

 ٭ نہ صرف نام شخصی اسلامی ہوں بلکہ ان کے علاقے اور تمام اشیاء سمیت سب کے نام شرک و کفر سے پاک اور احسن ہونے چاہیئے نیز حقیقت سے قریب تر اور برمحل ہونے چاہیئں۔

 ٭ انسان کو جو فضیلت تمام مخلوقات پر حاصل ہے اس کا تقاضہ ہے کہ اس کے نام دیگر مخلوقات پر مشتمل نہ ہوں بلکہ اس فضیلت کے حامل ہوں جو انسان کو ودیعت کی گئی ہے۔

 ٭ نام پورے لئے جائیں انہیں مختصر لینے کی صورت میں محتاط رہنا چاہیئے کہ بے ادبی و گستاخی نہ ہو جائے مثلاً عبدالرب کو صرف رب نہ کہا جائے اور جب اسم گرامی ”محمد“ کہا جائے تو اس کا ادب ملحوظ رکھا جائے۔

 ٭ مرکب ناموں میں ترکیب کو غور کر لیا جائے کہ وہ خلاف اسلام معنی پر مشتمل تو نہیں یا معنوی اعتبار سے کوئی اور نقص تو واقع نہیں ہو رہا ہے۔ مردوں کو عورتوں کے اور عورتوں کو مردانہ نام سے موسوم نہ کرنا چاہیئے۔

 ٭ نام تعلیمات اسلامی کے مطابق ہونا ضروری ہے لیکن جغرافیائی اعتبار سے اور زبان مروجہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیر عربی الفاظ پر مشتمل نام بھی رکھے جا سکتے ہیں۔ مگر فوقیت عربی ناموں کو دینی چاہیئے کہ قومی تشخص برقرار اور تمیز رہے۔


Naam Aur Hamari Zindagi

Shafiq Ahmed


 نام تشخص کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے ان کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا سلسلہ ابدی ہے۔اس کثرت اور عمومیت کی وجہ سے شاید بھول کر بھی کبھی یہ خیال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ نام کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ صرف انسان ہی نہیں، اس کائنات کی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی نام ہے۔ یہ سب کے سب نام انسانی زبانوں میں ہیں۔ انسان ہی ان کو مقرر کرتا ہے اور ان کو حافظے میں محفوظ رکھتا ہے۔ نیز وہی ان سے مستفید ہوتا ہے۔ یہی نہیں بحیثیت مجموعی اس پوری کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہی اس کائنات کا جزو اعظم ہے۔ اور شاید اسی لئے اس کائنات سے اس کا تعلق بھی نہایت گہرا ہے۔ لیکن یہ تعلق کیا ہے اور نام سے انسان کی غیر معمولی وابستگی کی وجہ کیا ہے؟یہ معلوم کرنے کے لئے ہمیں انسان اور کائنات کے موضوع کا مطالعہ نہایت گہری نظر سے کرنا ہوگا۔