Topics

نام کن حروف پر رکھے جائیں



 اسلامی تعلیمات میں اس موضوع پر کچھ نہیں کہا گیا ہے البتہ یہ جفری علوم میں وقت پیدائش معلوم کر کے بعض حروف پر نام رکھنے کو مناسب خیال کیا جاتا ہے اور مختلف حروف سے ذیل کے نقشہ سے معلوم ہوگا چونکہ اس علم میں تمام تر بحث حروف سے کی جاتی ہے اور مختلف حروف سے رکھے جانے والے ناموں کے اثرات بھی مختلف سمجھے جاتے ہیں اس لئے ان کا خیال یہ ہے کہ اگر نام اوقات پیدائش کے مطابق رکھے جائیں تو یہ نومولود کی شخصیت کے عین مطابق ہوتے ہیں اور زندگی کے دشوارگزار مراحل میں انسان کی معاون اور سچے ہمدرد اور مدد گار ساتھی کا کردار ادا کرتے ہیں۔


مرکب ناموں میں محتاط رہیئے

 ناموں کی فنی خوبی یہ ہے کہ وہ مفید ہوتے ہیں لیکن ہندو پاکستان میں اس کا رواج نہیں ہے یہاں مرکب اور نہایت طویل ناموں کارواج عام ہے جو ایک بہت بڑا نقص ہے لیکن چونکہ اس سے مفر ممکن نہیں ہے اس لئے ذیل میں مرکب ناموں کے اس نقص کو کسی حد تک کم کرنے سے اس کے مضر اثرات سے بچنے کے لئے وہ حروف دیئے جا رہے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ تصادم رکھتے ہیں تاکہ مرکب نام رکھتے وقت احتیاط کی جا سکے۔

 مندرجہ بالا جدول کے پہلے خانہ میں نام کا سر حرف تلاش کیجیئے اور پھر موزوں حروف سے کوئی ایک یا دو حروف لے کر مرکب ناموں کا انتخاب کر لیجیئے ۔ لیکن نام کے سر حروف سے متصادم حروف والا کوئی مرکب نام نہ رکھیئے کیونکہ اس طرح دونوں کے درمیان تصادم اور کشاکش کی صورت پیدا ہوتی ہے اور ناموں کی طاقت اس ٹکراؤ سے متاثر ہوتی ہے جس سے شخصیت کے اندر تعمیر و تخریب کا ایک مسلسل عمل جاری رہتا ہے اور ناموں کی افادیت مجروح ہو جاتی ہے۔

 بایں ہمہ اگر نام کے دو حصے ہوں اور ہر حصہ کا سر حرف یکساں ہو تو اسے اچھا مرکب نام کہا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ، عرفیتوں اور کنیتوں نیز تخلص وغیرہ نام میں بھی مندرجہ بالا اصول کو پیشِ نظر رکھنا چاہیئے تا کہ موافقت و مساعدت حاصل ہو سکے۔

لڑکیوں کے نام

 علم الحروف کے اعتبار سے م ن اور ہ جو مکنوبی حروف کہلاتے ہیں یعنی اگر ان کی کتابت کی جائے تو لکھنے میں وہ اپنی اولیت اور آخرت کو برقرار رکھتے ہیں جیسے میم، نون، واؤ۔ چنانچہ ان سے حتی الامکان لڑکیوں کے نام نہیں رکھنا چاہیئے کیونکہ یہ حروف ان کی ازدواجی زندگی پر نہایت ناگوار اثرات ڈالتے ہیں۔

 جفری اعتبار سے ج ہ ح ف اور ق کے حروف بھی لڑکیوں کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ اس لئے اگر ان سے بھی نام نہ رکھے جائیں تو بہتر ہوگا ۔ جبکہ ماہرین علم اعداد نے بھی لڑکیوں کے ناموں کے سلسلہ میں ایسے ناموں کو نامناسب خیال کیا ہے جن کا مجموعی عدد ۱۔۵۔۷۔ یا ۹ آتا ہو کیونکہ ان کا خیال بھی یہی ہے کہ یہ اعداد لڑکیوں کی ازدواجی زندگی پر نہایت ناخوشگوار اثرات ڈالتے ہیں۔

 بہر کیف مندرجہ بالا سفارشات کو بھی اگر پیشِ نظر رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔

تاریخی نام نکالنا

 نام حروف سے بنتے ہیں لیکن جب حروف کی عددی قیمت سے سن پیدائش برآمد ہو جائے تو اسے تاریخی نام کہا جاتا ہے۔ حروف کی عددی قیمت ذیل کے جدول کے مطابق شمار کی جاتی ہے۔

اس جدول میں اردو کے جن حروف کا ذکر نہیں ہے ان کے اعداد اس طرح لیے جاتے ہیں۔


اس جدول میں اردو کے جن حروف کا ذکر نہیں ہے۔ ان کے اعداد نکالے جا سکتے ہیں مثلاً اگر محمد ؐ کے اعداد نکالنا ہوں تو اس طرح نکالیں گے۔

 

  م ح م د

  ٤٠ + ۸ + ۴۰ + ۴ = ۹۲

 یا عبدالمطلب کے اعداد اس طرح نکالیں گے

  ع ب د ا ل م ط ل ب

  ۸۰ + ۲ + ۴ + ۱ + ۳۰ + ۴۰ + ۹ + ۳۰ + ۲ = ۱۸۸

 چنانچہ اسی قاعدے کے تحت کسی بھی نام کے اعداد نکالے جا سکتے ہیں یا اعداد سن کے مطابق نام رکھے جا سکتے ہیں۔ البتہ بعض ناموں کے اعداد نکالنے میں کچھ دشواریاں پیش آ سکتی ہیں یا صحیح اعداد اس وقت تک نہیں نکالے جاسکتے جب تک مندرجہ ذیل امور کو سامنے رکھا نہ جائے ۔ اس لئے پہلے ان کو ذہن نشین کر لینا چاہیئے۔

 ۱۔ ناموں میں زیر، زبر، پیش، مدات اور زیر زبر یا الف مقصورہ کے اعداد نہیں لئے جاتے مثلاً عبدالرحمٰن۔اسحٰق۔ مصطفیٰ۔موسیٰ اور عیسیٰ کے ناموں میں جو الف پڑھا جاتا ہے اس کا کوئی عدد شمار نہیں کیا جاتا۔ صرف ان ہی حروف کے اعداد لئے جاتے ہیں۔ جو لکھنے میں آتے ہیں۔

 ۲۔ اسی طرح عبدالرحمن ۔ عبد السلام۔ عبدالرؤف اور عبدالرحیم کے ناموں میں اگرچہ ا اور ل کے حروف پڑھنے میں نہیں آتے لیکن چونکہ لکھے جاتے ہیں اس لئے ان کے اعداد لئے جاتے ہیں۔

 ۳۔ مندرجہ بالا جدولوں میں کا حرف نہیں دیا گیا ہے کیونکہ اس کی ایک قیمت مقرر نہیں کی گئی ہے بلکہ مختلف مواقع کے استعمال پر اس کی عددی قیمت مختلف ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں جب ہمزہ ساکن ہو تو اس کی کوئی قیمت نہیں لی جائے گی مثلاًمحمود النساء اور احمد ضیاء کے ناموں میں ہمزہ کا عدد نہیں لیا جائے گا۔ البتہ جب ہمزہ ی کے طور پر استعمال ہو یعنی ی کی آواز دے تو ہمزہ کے عدد ۱۰ لئے جائیں گے مثلاً رئیس، لئیق وغیرہ یا جب ہمزہ کی آواز کی یا الف کے طور پر استعمال کی جائے مثلاً ضیاء الدین، وغیرہ تو ہمزہ کا عدد لیا جائے گا۔ رؤف میں اگرچہ ہمزہ کا استعمال بطور واؤ کے ہوا ہے مگر یہاں اس کا کوئی عدد نہیں لیا جائے گا۔

 ۴۔ واؤ عاطفہ کے عدد لئے جاتے ہیں مثلاً قلب و روح یا سحر و شام میں و کے عدد لئے جائیں گے۔

 ۵۔ تنوین یعنی آ ، یا ا یا آئیں اگرچہ نون کی آواز نکلتی ہے لیکن چونکہ نون لکھنے میں نہیں آتا اس لئے تنوین کے اعداد نہیں لئے جائیں گے۔

 ۶۔ تاۓ طویل یعنی ت کے اعداد تو ۴۰۰ لئے جاتے ہیں لیکن تاکہ ثانیت یعنی ۃ کے عدد صرف ہ لئے جاتے ہیں البتہ شعراء بوقت ضروت ۃ کے اعداد ۲۰۰ بھی لینے کو ردا جانتے ہیں۔

 ۷۔ یا کے معروف کی صورت میں کہ جب اس پر (ئے) لکھی ہوئی ہو تو ر ”وی“ شمار ہوں گی اور ۲۰ عدد لئے جائیں گے۔

 ۸۔ حرف مثلاً اگرچہ بولنے میں دہری آواز دیتا ہے لیکن لکھا ایک ہی مرتبہ جاتا ہے اس لئے صرف ایک ہی حرف کے عدد لئے جائیں گے۔ مثلاً مورخ میں ، حرف مشدد ہے لیکن حرف ر کے ۲۰۰ عدد ہی لئے جائیں گے۔

 جہاں تک تاریخی نام نکالنے کا تعلق ہے اس کی آسان ترکیب یہی ہو سکتی ہے کہ سن ہجری یا سن عیسویں کو سامنے رکھ کر ایسے نام تلاش کر لئے جائیں جن کی تخمینی اعداد عد سن کے قریب قریب ہوں۔ ایسے ناموں کے اعداد حاصل کر لئے جائیں اگر حسن اتفاق اور ہاتف غیبی کی اعانت سے نام کے اعداد سن کے اعداد کے مطابق آجائیں تو سبحان اللہ قابلِ مبارکباد ہے لیکن اگر کچھ کمی رہ جائے تو محمد ۔ احمد۔ علی۔ حسن۔ حسین۔ یاالحسن۔ الحسین۔ یا فاطمہ ۔ زہرا۔ خاتون ۔ بیگم وغیرہ کے الفاظ سابقے یا الاحقے کے طور پر لگا کر سن کے اعداد پورے کر لئے جائیں۔ بس یہی تاریخی نام ہوگا۔ اس سلسلہ میں سن ہجری اور سن عیسویں پر مشتمل چند نام مثال کے طور پر درج کئے جا رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض گھرانوں کے ذوق کے مطابق ان میں سے کچھ نام موزوں نکل آئیں اور ان کو نام نکالنے کی عرق ریزی نہ کرنی پڑے۔ اگر ایسا ہو اتو مجھے خوشی ہوگی اور میں سمجھوں گا کہ میری محنت کام آگئی۔



Naam Aur Hamari Zindagi

Shafiq Ahmed


 نام تشخص کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے ان کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا سلسلہ ابدی ہے۔اس کثرت اور عمومیت کی وجہ سے شاید بھول کر بھی کبھی یہ خیال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ نام کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ صرف انسان ہی نہیں، اس کائنات کی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی نام ہے۔ یہ سب کے سب نام انسانی زبانوں میں ہیں۔ انسان ہی ان کو مقرر کرتا ہے اور ان کو حافظے میں محفوظ رکھتا ہے۔ نیز وہی ان سے مستفید ہوتا ہے۔ یہی نہیں بحیثیت مجموعی اس پوری کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہی اس کائنات کا جزو اعظم ہے۔ اور شاید اسی لئے اس کائنات سے اس کا تعلق بھی نہایت گہرا ہے۔ لیکن یہ تعلق کیا ہے اور نام سے انسان کی غیر معمولی وابستگی کی وجہ کیا ہے؟یہ معلوم کرنے کے لئے ہمیں انسان اور کائنات کے موضوع کا مطالعہ نہایت گہری نظر سے کرنا ہوگا۔