Topics
عام طور پر لوگ اس الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں کہ مراقبہ میں تصور کا مطلب
کیا ہے یا تصور کس طرح کیا جاتا ہے۔ تصور کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنکھیں بند
کرکے کسی چیز کو دیکھا جائے مثلاً اگر کوئی شخص روحانی استاد کا تصور (تصورشیخ)
کرتا ہے تو وہ بند آنکھوں سے استاد کے جسمانی خدوخال یا چہرے کے نقوش دیکھنے کی
کوشش کرتا ہے۔کوئی شخص روشنیوں کا مراقبہ کرتا ہے تو بند آنکھوں سے روشنیوں کو
دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ عمل تصور کی تعریف میں نہیں آتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ
ایک شخص بند آنکھوں سے کسی چیز کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہے چونکہ دیکھنے کا عمل
ساقط نہیں ہوا اس لئے تصور قائم نہیں ہوگا۔
تصور سے مراد یہ ہے کہ آدمی ہر طرف سے ذہن ہٹا کر کسی ایک خیال میں بے خیال
ہوجائے۔ اس خیال میں کسی قسم کے معانی نہ پہنائے اور نہ کچھ دیکھنے کی کوشش
کرے۔مثال کے طور پر اگر روحانی استاد کا تصور کیا جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ
آدمی آنکھیں بند کرکے اس خیال میں بیٹھ جائے کہ میں شیخ کی طرف متوجہ ہوں یا میری
توجہ کا مرکز شیخ کی ذات ہے۔ شیخ کے جسمانی خدوخال یا چہرے کے نقوش کو دیکھنے کی
کوشش نہ کی جائے۔ اسی طرح روشنیوں کا مراقبہ کرتے ہوئے محسوس کیا جائے کہ میرے
اوپر روشنیاں برس رہی ہیں۔ روشنی کیا ہے اور روشنی کا رنگ کس طرح کا ہے اس طرف ذہن
نہ لگایا جائے۔
مبتدی کو اس وقت شدید ذہنی پریشانی کا سامنا کرناپڑتا ہے جب اسے مراقبہ میں
اِدھرُ ادھر کے خیالات آتے ہیں۔ مراقبہ شروع کرتے ہی خیالات کاہجوم ہوجاتاہے۔ ذہن
کو جتنا پرسکون کرنے کی کوشش کی جاتی ہے خیالات زیادہ آنے لگتے ہیں یہاں تک کہ
اعصابی تھکن اور بیزاری طاری ہوجاتی ہے۔ کبھی خیالات اتنی شدت اختیار کرلیتے ہیں
کہ آدمی مراقبہ ترک کردینے پر مجبور ہوجاتاہے ،وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے اندر
مراقبہ کی صلاحیت ہی نہیں ہے جبکہ یہ بات ایک وسوسہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں
رکھتی۔
ذہن کا کردار گھوڑے جیسا ہوتا ہے۔ جب گھوڑے کو سدھانا شروع کرتے ہیں تو وہ
سخت مزاحمت کرتا ہے لیکن مسلسل محنت کے بعد کامیابی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ذہن کو
کنٹرول کرنے کے لئے مسلسل محنت ضروری ہے۔ اصول و ضوابط کے ساتھ وقت کی پابندی سے
مراقبہ کیا جائے تو قوت ارادی حرکت میں آجاتی ہے اور ذہن کا سرکش گھوڑا بالآخر رام
ہوجاتا ہے۔
ہماری شعوری زندگی میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں توجہ تمام
خیالات کے باوجود زیادہ وقفہ تک کسی ایک نقطہ پر مرکوز رہتی ہے۔ مثلاًبہت دفعہ
ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں اگرچہ ہم زندگی
کے کم و بیش سارے اعمال انجام دیتے ہیں لیکن ذہن کے اندر پریشانی کا خیال دستک
دیتا رہتا ہے۔ اس خیال میں پریشانی کی شدت گہرائی پر منحصر ہوتی ہے۔ ہم چلتے پھرتے
بھی ہیں، کھاتے پیتے بھی ہیں، بات چیت بھی کرتے ہیں، سوتے جاگتے بھی ہیں۔ لیکن
ذہنی حالت کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ذہن کے اندر پریشانی کا خیال
متواتر حرکت میں ہے۔ کبھی کبھی پریشانی کا خیال ذہن پر اس قدر غالب آجاتا ہے کہ ہم
ماحول سے اپنا رشتہ منقطع کر بیٹھتے ہیں اور گم سم ہوجاتے ہیں۔
جس طرح اوپر بیان کی گئی مثال میں تمام جسمانی افعال اور خیالات کے ساتھ
ذہن کسی ایک طرف متوجہ رہتا ہے اسی طرح مراقبہ میں خیالات کے باوجود ذہن کو مسلسل
ایک تصور پر قائم رکھا جاتا ہے۔ مراقبہ کرتے وقت مختلف خیالات ارادے اور اختیار کے
بغیر ذہن میں آتے ہیں۔ لیکن مراقبہ کرنے والے کو چاہیے کہ خیالات پر توجہ دیئے
بغیر اپنے تصور کو جاری رکھے۔
بے ربط خیالات آنے کی بڑی وجہ شعور کی مزاحمت ہوتی ہے۔ شعور کسی ایسے عمل
کو آسانی سے قبول نہیں کرتا جو اس کی عادت کے خلاف ہو۔ اگر آدمی شعور کی مزاحمت کے
آگے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو صراط مستقیم سے بھٹک جاتا ہے۔ اگر وہ شعوری مزاحمت کی
پرواہ کئے بغیر مراقبہ جاری رکھتا ہے تو رفتہ رفتہ خیالات کی رو مدھم پڑ جاتی ہے
اور طبیعت میں الجھن اور بیزاری ختم ہوجاتی ہے۔ مراقبہ میں کامیاب ہونے کا آسان
راستہ یہ ہے کہ خیالات کو رد کرنے یا جھٹکنے سے گریز کیا جائے۔
خیالات آئیں گے اور گزر جائیں گے۔ اگر خیالات کو باربار رد کیا جائے تو یہ
خیالات کی تکرار بن جاتی ہے اور بار بار کسی خیال کی تکرار سے ذہن پر خیال کا نقش
گہرا ہوجاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ آدمی بہت الجھن اور بیزاری سے مغلوب ہو کر
مراقبہ ترک کردے۔اگر ہم مراقبہ کے فوائد سے آگاہی چاہتے ہیں تو جس طرح دوسرے کاموں
کے لئے وقت نکال لیتے ہیں مراقبہ کے لئے بھی وقت نکالنا امر لازم ہے۔
اگر ہم دن بھر کی مصروفیات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ معاشی
اور معاشرتی مصروفیات کے علاوہ ایک قابل ذکر وقفہ بے کار وقت گزاری، سوچ بچار اور
بے مقصد مصروفیات میں گزر جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم شکایت کرتے ہیں کہ اتنی زیادہ
مصروفیت ہوتی ہے کہ وقت ہی نہیں ملتا۔ اگر ہم مراقبہ کے ذریعے کچھ حاصل کرنا چاہتے
ہیں اور چوبیس گھنٹوں میں سے نصف گھنٹہ بھی نہیں نکال سکتے تو دراصل ہم مراقبہ
کرنا ہی نہیں چاہتے۔
مراقبہ ختم کرنے کے بعد کچھ دیر تک مراقبہ کی نشست میں سکون کے ساتھ بیٹھے
رہنا چاہیے۔ مراقبہ ختم کرتے ہی توجہ کا ہدف تبدیل ہوجاتا ہے۔ جس طرح بیدار ہونے
کے بعد نیند کی کیفیات قدرے غالب رہتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ مکمل بیداری غالب
آجاتی ہے اسی طرح مراقبہ کے بعد کچھ وقفہ تک ذہن کو آزاد چھوڑ کر بیٹھے رہنے سے
مراقبہ کی کیفیت آہستہ آہستہ بیداری میں منتقل ہوجاتی ہے۔ جیسے جیسے ذہنی یکسوئی
میں اضافہ ہوتا ہے باطنی حواس میں حرکت بیدار ہوتی رہتی ہے اور مبتدی شعوری قوت کی
مناسبت سے روحانی تجربات اور باطنی مشاہدات سے گزرتا ہے ۔ قوت اور استعداد کے ان
مدارج اور منازل کی تفصیل اس طرح ہے۔۔۔۔۔۔۔ حوالہ۔کتاب تذکرہ خواجہ شمس الدین
عظیمی