Topics

فرشتے کے پر سنہری تھے


سیدہ خاتون بٹ ،لندن
میں نے دیکھا کہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک بہت ہی بڑا قرآن مجید رحل پر رکھا ہے اور ایک بہت بڑا ہاتھ قرآن مجید کا ایک ایک صفحہ الٹتا جا رہا ہےاور غیب سے آواز آ رہی ہےکہ دیکھو کیا ہم نے قرآن مجید میں یہ نہیں لکھا کہ جو قوم تباہی کے راستے پر جا ئے گی اس پر ہم عذاب نازل کریں گے؟ پہاڑ کے اطراف میں بہت سارے لوگ ہیں جن میں ہمارا خاندان بھی ہے۔ وہ بڑا سا ہاتھ برابر قرآن مجید کے ورق پلٹتا جا رہا ہے اورآواز آ رہی ہے” اٹھو، سنبھلو، ہوش میں آؤ! جو قوم بھی تباہی کے راستے چلی مٹ گئی، تباہ کر دی گئ “ ۔ اسی طرح پورے قرآن شریف کا ایک ایک صفحہ پلٹا اور غیب سے آواز آتی رہی۔
انہی دنوں ایک دوسرا خواب دیکھا کہ جیسے ایک بڑا سا گھر ہے ایک بڑے کمرے میں میں بیٹھی کچھ کتابیں پڑھ رہی ہوں۔ آ س پاس بہت سے رشتے دار ہیں۔ نانی ، پرنانی، پھوپھی، امّی وغیرہ وغیرہ۔ گھر کے تمام افراد ہیں اتنے میں شور اٹھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آ رہے ہیں۔ سب لوگ بھاگ بھاگ کر ان کے پاس جمع ہو گئے۔ وہ ایک ایک  کے سر پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور دعائیں دیتے جاتے تھے، سب ان سے فرمائش کرنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے فلاں خواہش پوری کروا دیجئے وغیرہ وغیرہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خوش خوش کہتے جاتے ہاں، تمہاری خواہش پوری ہو جائے گی انشآ اللہ۔  جب سب لوگ خوش خوش چلے گئے تو میں نے دیکھا کہ ایک لڑکی دُوپٹے کا کونہ مٹھی میں دبائے خاموش کھڑی ہے۔ اس کا رنگ خوف اور دہشت سے سفید پڑ گیا ہے۔ میں اس سے کہتی ہوں” ارے تم الگ تھلگ کیوں کھڑی ہو تم کو پتہ ہےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں  آ گے آؤ”۔ وہ کچھ نہیں کہتی۔ بہت زیادہ رنجیدہ ہے اپنی مٹھی کھول دیتی ہے۔ اس کے پلو میں چاندی کی ایک انگوٹھی ہے جو ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکی ہے۔ یہ دیکھ کر میرا بھی رنگ فق ہو گیاجیسے اس نے انتہائی بڑا گناہ کیا ہو۔ میں اس کی طرف دیکھتی ہوں تو وہ اس قدر رنجیدہ ہو تی ہے کہ اس پر ترس آتا ہے۔ آخر میں اس کو تسلی دیتی ہوں کہ چلو میں تم کو لے چلتی ہوں تم مت گھبراؤ۔ میں اس کا ہاتھ پکڑ کا اس کو آگے لے کر جاتی ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی مٹھی کھولتی ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے ہی ٹوٹی ہوئی انگوٹھی دیکھتے ہیں، رنج و غم ان کے چہرے سے عیاں ہوتا ہے۔ میں اس لڑکی کی سفارش کرتی ہوں کچھ دیر بعد چہرہ مبارک پر مسکراہٹ آتی ہے اور وہ اپنا دستِ مبارک لڑکی کے سر پر پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں “جاؤ، انشآاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔” اس کی انگوٹھی جڑ جاتی ہے۔
میں نے دو سال قبل 1963 کے کسی جمعہ کو ایک خواب دیکھا تھا اس کے بعد میں دو تین مرتبہ دیکھ چکی ہوں وہ خواب آپ کو سنا رہی ہوں۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ اتنا لمبا خواب اتنی دور سے آپ کو کیا لکھوں لیکن رات میں نے پھر دیکھا کہ وہ خواب آپ کو سنا رہی ہوں۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ وہ خواب مجھے آپ کو لکھ دینا چاہئیے۔
میں باورچی خانے میں بیٹھی کھانا پکا رہی ہوں، میرا دیور بھی پاس ہی بیٹھا ہے۔ اس نے کہا بھابھی موسم بڑا پیارا ہو رہا ہے چلو پکنک پر چلیں۔ میں نے کہا کاش اس وقت ر۔ض۔ وغیرہ بھی ہوتیں تو کتنا مزا آتا۔ اسی وقت دیکھا کہ وہ سامنے سے چلی آ رہی ہیں۔ میں ان سب کو لے کر اپنی خاص کمرے میں گئی۔ ایسا معلوم ہو تا تھا کہ وہ کمرہ میرے لیے خاص طور پر سجایا گیا ہے۔ بہت ہی بڑا کمرہ تھا۔ زمین پر ایک طرف چاندی کا تخت بچھا ہوا تھا۔ جس پر سفید چادر اور گاؤ تکیے تھے۔ کمرے کی دیواریں سنہری تھیں اور اس پر سینریاں بنی ہوئی تھی، اتنی خوبصورت کے بیان سے باہر۔ چھت بھی سنہری تھی ۔ ہر طرف سونے کی چیزوں سے سجاوٹ کی گئی تھی۔ پہلے میں نے سب کو اپنا کمرہ دکھایا پھر میں سب کو دوسرے کمرے میں لے گئی کہ کچھ کھا پی لیں۔ وہاں پر دو لمبی لمبی میزیں بچھی ہوئی تھیں جن پر انواع و اقسام کے میوے پھل اور مٹھائیاں تھیں۔ میز پر خاندان کے تمام لوگ جمع تھے۔ ان سب کو کھانے اور خوش گپیاں کرتے دیکھ کر میں انتہائی خوش تھی۔ پھر میں نے بھی ہاتھ بڑھا کر ایک گلاب جامن اٹھایا اور کھانے لگی۔ پتہ چلا  کہ یہ تو امرود ہے، نہایت مزے دار۔ اندر سے گلابی اور اوپر سے بالکل گلاب جامن لگتا تھا۔ پھر انگور اٹھایا، چھوٹا سا ہرے رنگ کا تھا لیکن میں نے اسے کئی مرتبہ دانتوں سے کاٹ کاٹ کر کھایا اور ہر مرتبہ منہ بھر بھر کر رس نکلا، پھر سب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں بٹ کر ہنستے کھیلتے باغو ں میں گھومنے لگے۔ پھر میں آپ کو لے کر ایک بڑے سے برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی جہاں خاموشی تھی اور کوئی نہ تھا میں نے آپ سے کہا کہ میں آپکو ایک خواب سناتی ہوں جو میں نے ابھی دیکھا ہے۔ آپ نے کہا ضرور سناؤ۔ میں نے کہا کہ میں نے ایک باغ دیکھا ہے جس کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ باغ اتنا خوبصورت ہے ، اتنا خوبصورت ہے کہ ۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر اچانک میری زبان بندہوگئی۔ سخت نشہ سا چھا گیا۔ آنکھیں اور ہونٹ بھی بند ہو گئے۔ میں اپنی پوری قوت لگانے کے باوجود ایک معمولی سی آواز بھی نہ نکال سکی، پھر میرا دل چاہا کہ خوبصورتی اس باغ کی بیان کروں کہ اب بولنے کے قابل ہوں۔  لیکن اسی لمحے پھر خمار چھا گیا، آنکھیں اور ہونٹ بالکل بند ہو گئے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں بالکل بچی ہوں، معصوم۔ حالانکہ میرا ڈیل ڈول نوجوان تھا، سب نے باریک  ریشم کے لباس پہن رکھے تھے مگر اس میں سے بدن نظر نہ آتا تھا اور نہ کہیں سلائی نظر آتی تھی۔ سب لوگ اپنے لباس لہراتے ہوئےاس طرح چل رہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ پانی پر چل رہے ہوں۔
اس کے بعد دیکھا کہ زمین اور آسمان کے درمیان ایک تنگ ، سیدھا اور ہموار راستہ ہے اور بہت ہی خوبصورت پل بنا ہوا ہے اور یہ پُل معلّق ہے۔ اس پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے قدم رکھا ، پھر نیچے کی طرف دیکھا، میں ایک طرف کھڑی انہیں بغور دیکھ رہی تھی۔ معاً مجھے خیال آیا کہ اس راستے پر چلتے ہوئے اگر کوئی انسان نیچے گر پڑےتو اس کی ہڈیوں کا پتہ بھی نہ چلے اور ان گہرائیوں میں گرتا ہی چلا جائے کبھی پتہ نہ پائے۔ ذرا سا قدم بہکے تو نیچے گر سکتا ہے، اس خیال کے ساتھ ہی میں دہشت سے کانپ گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہولے ہولے اس پر چڑھنا شروع کیا اور ساتھ ہی سورہ فاتحہ کی آخری آیتیں پڑھتے جاتے تھے  اھدنا الصراط المستقیم سے آخر تک جن کا مطلب یہ ہے ” اے خدا! ہم کو سیدھے راستے پر چلا، ان کا راستہ جن پر تو نے انعام نازل فرمایا۔ان لوگوں کے راستے پر نہ چلا جن پر تیرا غضب نازل ہوا”۔ بس یہی آیتیں پڑھتے جاتے تھےاور چڑھتے جاتے تھے۔ جب آدھا راستہ طے کر چکے تو کھڑے ہو کر مجھے دیکھا۔ میں یہ سب بغور دیکھ رہی تھی ان کے دیکھتے ہی میں نے مسکرا کر اسی راستے پر قدم رکھ  دیا اور ان کے پیچھے چلنے لگی، آنکھ کھلی توصبح کی نماز کا وقت تھا۔ اس خواب کے بعد مجھے شدت سے  اپنے اندر تبدیلی کا احساس ہونے لگا ہے میں ایسا سکون محسوس کرتی ہوں کہ یقین مانئے آج تک ایسا سکون میرے دل کو نہیں ملا۔
اس کے بعد میں متواتر سچے خواب دیکھے جا رہی ہوں۔ میری ایک سہیلی کےبچے کا پاکستان میں انتقال ہو گیا، اس انتقال کے ایک دو دن پہلے ہی مجھے خواب میں پتہ لگ گیا کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ جب سے رمضان شروع ہو ا ہے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں راتوں کو عبادت کرتی رہتی ہوں، ویسے میں دو تین بجے اُٹھ کر نماز اور قرآن وغیرہ پڑھتی ہوں۔ نماز فجر کے بعد ذرا سی دیر کو سو جاتی ہوں۔ میرے خطوط آپ کو برابر مل رہے ہوں گے۔ شعبان اور خصوصاً رمضان  شروع ہوتے ہی مجھے اپنے اندر زبردست تبدیلی محسوس ہو رہی ہے، میں نے آپ کو لکھا تھا کہ مجھے محسوس ہوتا ہے میں رات بھر عبادت کرتی ہوں۔ اب ایک عجیب واقع سناتی ہوں۔
اکیسویں روزے کی رات کو  لیٹے لیٹے مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور آنکھوں سے آنسوں جاری ہو گئے۔ آنکھیں بالکل بھینچ گئیں اور مٹھیاں بند ہو گئیں۔ سخت دہشت دل پر سوار ہو گئی۔ میں خوب جانتی ہوں کہ یہ وہی کیفیت ہے جو مجھ پر بھائی جان کے مرنے کے ایک ماہ پہلے سے ان کے مرنے تک طاری رہی۔ جس میں آنکھیں سختی سے بند ہونے کے باوجود نانی اور پرنانی کی روحوں کو دیکھتی اور سنتی تھیں۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مجھے کو ئی خاص علم دیا جا رہا ہے۔ یہ خواب نہیں تھا بلکہ بیداری کی ایک کیفیت تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میرے دل میں کوئی عظیم ہستی ہے جو مجھے خاص باتیں بتا اور دکھا رہی ہے۔ مجھے اپنے نانا کے متعلق بتایا گیا، انہیں میں نے کمرے میں بیٹھا ہوا بھی دیکھا، حالانکہ میں نے انہیں کبھی دیکھا بھی نہ تھا اور نہ ان کے بارے میں سنا تھا۔ دوسری رات یعنی بائیسویں روز ے کو دیکھا کہ کوئی مجھ سے دعائیں پڑھوا رہا ہے یہ دعائیں کچھ اس طرح تھیں، ہر دعا مجھ سے دو دو تین تین بار پڑھوائی گئی یہ سب کے لیے تھیں، اے خداوند کریم ہم سب کے گناہ معاف کر دیجئے، ہمیں سیدھی راہ چلنے کی توفیق عطا فرمائیے، پھر اچانک میں نے  بہت ہی درد بھری چیخ سنی اور بین سنے، یہ میری اپنی ہی روح تھی جو اللہ تعالیٰ کےدربار میں دوزانوں بیٹھی اتنی بری طرح رو رو کر  بین کر رہی تھی کہ میرا دل بھی لرز اٹھا جیسے کسی ماں کا جوان بیٹا مر جائے تب بھی کوئی ماں اس بری طرح رو کر بین نہ کرتی ہوگی، وہ مسلسل روئے جا رہی تھی اور کہتی جاتی تھی ہائے اللہ میاں مجھے اپنا دیدار کرا دیجئے اور جب وہ ہائے کرتی تھی تو اتنی لمبی سانس کھینچتی تھی اور اتنی درد بھری آواز سے کہتی کہ کوئی انسانی زبان ایسی درد بھری آواز میں بین نہیں کر سکتی، مجھے محسوس ہوا کہ اس آواز سے آسمانوں کے فرشتوں کے دل بھی لرز رہے ہیں، اسی طرح کافی دیر تک میں نے یہ نظارا دیکھا، پھر اس کے بعد مجھے پوری طرح ہوش آ گیا اور میرا دماغ پوری طرح کام کرنے لگا۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ آج کوئی نئی اور زبردست بات ہونے والی ہے کچھ دیر بعد مجھے خاص دعائیں پڑھوائی گئیں کہ اس رمضان کو ہمارے لیے مبارک فرمائیے وغیرہ وغیرہ۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ یہ دعائیں لے کر میرے دل کے پاس سے اُڑا۔ اس کے پرو ں کا رنگ سنہری تھا، اسی وقت میرے حواس بجا ہوئے اور میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کرتی رہی۔ خوف و دہشت سے اُٹھ بھی نہیں سکی، اس وقت میں اکیلی ہی تھی، آخر ایک دم بہت ہی شدید دہشت میرے دل پر طاری ہوئی، میں سخت گھبرا گئی میری روح کی آواز مجھے  سنائی دی جس سے میری آنکھیں بھنچ گئیں اور میرا جسم ساکت ہو گیا۔ روح نے کہا
“میں کچھ دیکھ رہی ہوں میں کیا دیکھ رہی ہوں میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں کچھ دیکھ رہی ہوں”۔
اور نہایت تیزی اور بے چینی سے گردن ادھر ادھر کر کے کہتی جا رہی تھی اور جلدی جلدی تیزی سے بول رہی تھی۔ میں نے دل میں کہا کہ میری آنکھوں کے سامنے سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں ہے اسی وقت روح کی آواز آئی ہاں، میں ایک نور دیکھ رہی ہوں اس وقت یقین جانیے میں جاگ رہی تھی اور پورے حواس میں تھی، مجھے  معلوم تھا کہ میرے پاس بچے سو رہے ہیں اور شوہر گھر میں ہیں، صرف میری آنکھیں بند تھیں جو میں باوجود پوری کوشش کے کھول نہیں سکتی تھی۔ اور دل پوری طرح دھڑک رہا تھا، میری بند آنکھوں کے سامنے  نور کی تین لکیریں نمودار ہوئیں، میری روح مسلسل کہے جا رہی تھی، وہ انتہائی خوشی کی آواز تھی، ہاں میں ایک نور دیکھ رہی ہوں، ہاں یہ خدا کا ہی نور ہے۔
وہ یہی کہے جا رہی تھی میری آنکھوں کے سامنے تین لکیریں نور کی تھیں، ان کی وسعت کا اندازہ میں نہیں لگا سکتی وہ اس قدر وسیع و عریض تھیں کہ تمام کائنات کو محیط تھیں اور بے انتہا روشن اور حسین تھیں۔ پھر اس نور نے چاند کی شکل اختیار کی پھر دائرہ کی شکل بن گئی پھر کافی دیر بعد وہ دائرہ یا نور کا ہالہ میری نظروں سے دور ہو گیااور غائب ہو گیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ میری روح یہ نظارا مدتوں تک دیکھتی رہی اور اس قدر اس میں محو ہو گئی کہ اسے اپنا بھی ہوش نہ رہا۔ آخر جب وہ اچھی طرح سیر ہو گئی تو اسے ہوش آیا اور پھر اس نے بہت تیزی کے ساتھ کہنا شروع کیا ۔
“میں اس نور کو سجدہ کرتی ہوں جو میں نے ابھی دیکھا ہے”۔
وہ یہ جملہ بہت روانی کے ساتھ بولتی جا رہی تھی اور اسی تیزی سے سجدہ بھی کرتی جارہی تھی۔ کوئی انسانی زبان اتنی تیز رفتاری سے نہیں بول سکتی اور نہ ہی اس تیز رفتاری سے کوئی انسان سجدےکر سکتا ہے۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ روح کی طاقت انسان سے ستر گنا زیادہ ہے،اس نے لاکھوں سجدے کیےاسی برق رفتاری کے ساتھ۔ مجھے احساس ہوا کہ وہ نہایت ہی حسین فرش ہےاور میری روح عرش پر ہے۔ اس کا فرش ہرے رنگ کا ہے نہایت ہی چمک  دار۔ اس میں سے نور کی شعاعیں پھوٹتی ہیں اور ایک نہایت ہی عظیم کرسی ہے اور اس پر کوئی عظیم ہستی تشریف فرما ہے بالکل میرے سامنے اور میں اس کے قدموں میں بیٹھی ہوئی سجدے کر رہی ہوں، اسی وقت میری بھینچی ہوئی آنکھیں کھل گئیں، دل کی دھڑکن رفتہ رفتہ نارمل ہوئی مگر میں بستر پر بالکل ساکت پڑی تھی۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے دل میں شدید تکلیف تھی کہ میں چلا چلا کر رونے لگی پھر میری زبان سے بے ساختہ زور زور سے یہ الفاظ نکلے ہاں ہاں وہ خدا کا نور تھا جو میں نے ابھی ابھی دیکھا۔
میری زبان نے تین تین دفعہ یہ جملہ دہرا کر اس کی تصدیق کر دی۔
تنہائی ہونے کے باوجود مجھے اپنے جسم میں ایک عجیب سی طاقت محسوس ہوئی۔ میں اسی وقت بستر سے اٹھ گئی، زاروقطار آنسو بہہ رہے تھے اور میں زبان سے زور زور سے کہہ رہی تھی کہ ہاں سچ ہے وہ خداکا نور تھا۔
پھر میں نے لائٹ آن کی۔ میرے تمام جسم پر لرزہ طاری تھا، مجھ پر ایسی کیفیت طاری تھی کہ جیسے کسی نے مجھ پر سحر کر دیا ہو۔ میں بڑی مشکل سے اپنی ہمت یکجا کر کے سیڑھیوں سے اترنے لگی (بیڈ روم اوپر کی منزل پر ہے)۔ میں نے دیکھا کہ میرے اطراف آگے پیچھے دائیں بائیں بے شمار فرشتے میرے ساتھ چل رہے ہیں۔میں خود اپنے آپ کو ساری کی ساری نظر آئی یعنی میں اپنا پورا وجود خود دیکھ سکتی تھی جیسے کوئی آئینے میں دیکھتا ہے۔ میں بہت حسین تھی اور ایک لمبا سا گاؤن ریشم کا  پہنے ہوئے تھی، میں نے نیچے آ کر ہر ہر کمرے ، باورچی خانے اور تہہ خانے غرض کہ ہر کمرہ کھول کر رکوع کے بل جھک جھک کر زور زور سے یہ الفاظ زبان سے کہے سلامتی ہو اے فرشتو تم پر۔ کیونکہ مجھے ہر جگہ حتیٰ کہ تہہ خانے میں بھی بے شمار فرشتے ہی  فرشتے نظر آ رہے تھے۔ پھر میں نے بڑی ہی مشکل سے وضو کیا ، مجھ سے نقاہت کے مارے کھڑا بھی نہیں ہوا جاتا تھا اور اس وقت میں بے حد رنجیدہ تھی اور اتنی سخت احساس کمتری میں مبتلا تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ میں نے بڑی ہی مشکل سے چار رکعت نفل پڑھی میرے طاقت جواب دے رہی تھی میرا دماغ بوجھل سا تھا، میں نڈھال ہو کر بیٹھ گئی اور مسلسل فائر پلیس (Fire Place)میں راکھ کے ذروں کو دیکھنے لگی۔ یہ مکان کافی پرانا ہے اس میں سنٹرل ہیٹنگ سسٹم بھی نہیں ہے آگ تو فائر پلیس کی بجھ گئی تھی میں راکھ کے ذروں کو دیکھنے لگی۔۔۔نڈھال اور غمگین سی۔ پھر مجھے ایسا لگا ایک ایک ذرہ جاندار ہو گیا ہے اور انسانوں کی طرح قہقہے لگا رہا ہے۔ بُری طرح میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ راکھ کے یہ سارے ذرات میرا مذاق اڑا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ دیکھ لی اپنی حقیقت تم ہم ذروں سے بھی زیادہ حقیر ہو ،کس چیز پر اکڑتی ہو؟۔ یقین جانئے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی طرف دیکھا، میرا رواں رواں مجھے سر ہلا ہلا کر کہتا نظر آیا کہ ہاں یہ سچ ہے۔ انسان کی حیثیت اللہ کے نزدیک ان راکھ کے ذروں سے بھی کم تر ہے۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ کیوں مجھے دیدار کرایا۔ میں پہلے ہی کون سی دنیا میں خوش تھی کہ مجھ پر یہ غم و اندوہ کے پہاڑ ڈال دئیے۔ مجھ میں پہلے ہی کیا احساس برتری تھا کہ آپ نے اپنے آپ کو دکھا کر اور بھی ذلیل ترین ثابت کر دیا۔میں خود اپنے وجود سے شرمندہ تھی اور خود بڑی حقیر لگ رہی تھی اور یہی سوچے جار رہی تھی کہ شاید اس صدمے سے ایک دن بھی زندہ نہ رہ سکوں۔ پھر اس وقت میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت جاگی ایسا محسوس ہوا کہ وہ اتنی عظیم ہستی ہے کہ ان کے سامنے ہم ان ذروں سے بھی زیادہ حقیر و ذلیل ہیں ، پھر مجھے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور پھر ان کے عذاب سے اتنی شدت سے ڈر لگا کہ رواں رواں کانپ گیا۔
دراصل مجھے پتہ نہیں کہ کیوں ہمیشہ سے خواہش تھی کہ کاش میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکوں اور اس واقعہ سے ایک دن پہلے ہی میں نے قرآن مجید میں پڑھا تھا کہ اللہ تعالیٰ حشر کے دن نیک بندوں کو اپنا دیدار کرائیں گے میں نے اسی وقت حضور قلب سے دعا کی اللہ میاں مجھے اپنا دیدار کرا دیں لیکن اب دیدار ہونے کے بعد مجھے اپنی اس خواہش پر اس قدر شرمندگی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ میں بار بار اپنی روح سے کہتی کہ تجھے کیا پڑی تھی یہ خواہش کرنے کی، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری روح بے سدھ اور نڈھال نیم بے ہوشی کے عالم میں اسی فرش پر پڑی ہے۔ اس میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ جنبش کر سکے کیونکہ دیدار کے بعد اس پر اپنی حقیقت واضح ہو گئی تھی۔ میں اسی طرح بے حس وحرکت  نڈھال سی بیٹھی تھی۔ آخر تھوڑی دیر بعد شاید تین چار بجے ہوں گے، شوہر ریسٹورنٹ سے لوٹے تو میں نے رو رو کر سارا واقعہ بیان کیا کہ پتہ نہیں کہیں میں پاگل تو نہیں ہو گئی۔ انہوں نے بہت تسلّیاں دیں کہ تم تو خوش قسمت ہو کہ اتنی بڑی چیز گھر بیٹھے عطا ہو گئی ہے۔ جب کہیں میری ڈھارس بندھی۔
وہ ایسا حسین نظارا تھا جس  نے میری روح کو منور کر دیا۔ اب دنیا کی کوئی چیز دل کو نہیں بھاتی۔ دل میں سکون و اطمینان کے طوفان اٹھتے رہتے ہیں۔
مجھے اللہ تعالیٰ کا نور نظر آیا جو میں نے آنکھوں سے نہیں بلکہ روحانی آنکھوں سے دیکھا، جس  کی تفصیل اوپر لکھ چکی ہوں۔ جس وقت فرشتے مجھ سے دعائیں منگوا رہے تھے میں شعور میں تھی، جاگ رہی تھی مگر میں اپنے ارادے سے کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ان تینوں دن رات کے درمیان میں میں بے حد ڈری اور سہمی سہمی سی رہی۔ بس ایسالگتا تھا کہ  اللہ تعالیٰ کی عظیم طاقت نے مجھے اپنی مٹھی میں لے رکھا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس قدر عظیم اور طاقتور ہستی ہے کہ مجھے آن کی آن میں ریزہ ریزہ کر سکتی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے پھر میں نے ڈر کے مارے ان ہی تین دنوں کے دوران یہ دعا مانگی تھی اللہ تعالیٰ میرے دل و دماغ پر پہرے بٹھا دیجئے تا کہ میں کوئی غلط بات سوچ بھی نہ سکوں۔
چوتھے دن شاید صبح یا دوپہر کو اچانک میں نے محسوس کیا کہ میرے دماغ پر چند فرشتے (تعداد معلوم نہیں) بٹھا دیئے گئے ہیں اور ہر ہر لمحہ مجھے حکم دیتے تھے اب یہ کرو ، اب وہ کرو، اب سو جاؤ، اب اُٹھو، اب بچے کو دودھ پلاؤ، اب کھانا پکاؤ، غرض انہوں نے حکم دے دے کر اس طرح صحیح کام مجھ سے کروائے اور صحیح وقت پر کروائے کہ میں حیران ہوں وہ میرے دل میں ہی سے مجھ پر حکم چلاتے رہتے مجھ میں اتنی مجال نہیں تھی کہ اس کے علاوہ میں کوئی بات سوچ بھی سکوں یا حکمِ عدولی کر سکوں مگر سارا کام وقت پر اور ٹھیک انجام پاتا رہا، رات بھی جلدی سو جاتی کہ صبح جلدی اُٹھ سکوں۔ صفائی اور پاکی پر بہت زیادہ توجہ ڈالی گئی کیونکہ بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔
دوسرے دن میں عینک باورچی خانے کی میز پر بھول گئی اور کمرے میں آ کر فائر پلیس کے اوپر ابھی  چشمہ ڈھونڈھنے کو ہاتھ بڑھا ہی رہی تھی کہ انہوں نے کہا کہ وہ باورچی خانے کی میز پر ہے۔ میں بوکھلا کر وہاں گئی تو چشمہ وہیں تھا میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
اس طرح دو تین دن ہو گئے۔ میں سب کام کرتی مگر اس وقت بے چینی اور گھبراہٹ محسوس کرتی اور رنجیدہ بھی ہوتی یہ تو بڑی مصیبت ہے کہ سارا دن  ڈنڈا سر پر رہے گا تو میں سکون کا سانس کیسے لے سکوں گی۔ ڈر اور دہشت سے جان نکل جاتی، مسکراہٹ تو ان دنوں میرے چہرے پر کبھی بھی نہ آئی۔ بھوک پیاس اُڑ گئی، جو وہ زبردستی مجھے کھانے کا حکم دیتے، بڑی مشکل سے میں چند لقمے کھاتی۔



Janata Ki Sair

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن پاک کے ارشادات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتیں ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کر کے مظاہرِقدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرارورموز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بنا پر استفادہ کرتی ہے۔

کتاب جنت کی سیر میں مرد اور عورت کی ایک جیسی روحانی واردات و کیفییات بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا امتیاز  برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد اور عورت کے اندر ایک روح کام کر رہی ہے عورت کے اندر بھی وہ تما م صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ولی اللہ بن سکتی ہے۔

خواتین و حضرات ، آیئے آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طاقت سے نوع انسانی کے اوپر شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ وسلم کی آغوش رحمت آپ کی منتظر ہے۔