Topics

حجابِ عظمت کیا ہے؟

ایک روز طبیعت میں بے کیفی اتنی بڑھی کہ اللہ تعالےٰ سے درخواست کی” یا اللہ، اب میں اس ماحول میں زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ مجھے اس دنیا سے رخصت ہونے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔ اس دنیا  اور ماحول سے میرا دل بھر گیا۔ آپ کا بڑا کرم اور رحم ہو گا مجھے یہاں سے بلا لیجئے۔ “

اللہ تعالےٰ نے ارشاد فرمایا” تجھ کو کیا چاہئیے؟  روپیہ چاہئیے تو خزانے عطا فرما دیئے جائیں۔ ”

میں نے عرض کیا۔ ” یا اللہ ؛ مجھے روپیہ  پیسہ کچھ نہیں چاہئیے۔ میری سب ضرورتیں آپ اپنی رحمت سے پوری کر دیتے ہیں۔ پھر ارشاد ہو ا کہ تیری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

میں نے عرض کیا ۔” اے اللہ ؛ میری زندگی کا مقصد آپ اور صرف آپ ہیں۔“

اللہ تعالےٰ  نے ارشاد فرمایا۔” تم ہمارے لئے اس دنیا میں زندہ رہو۔“

طبیعت میں اس قدر کیف اور وجد طاری ہو گیا کہ ہر چیز   خوشی میں ناچتی گاتی محسوس ہوئی اور ذہن پھول کی طرح ہلکا ہو گیا۔

حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ذہن کو مرکوز کرنے کی کوشش کی۔ حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نورانی لہر کی شکل میں نزول کرتی ہے۔ اس نزول میں شگاف پڑ گیااور میں اس شگاف کے اندر چلا گیا۔

اب خود کو عرش معلیّٰ پر دیکھا ۔ اللہ تعالےٰ حجاب میں تشریف فرما ہیں۔ میں ہاتھ جوڑے ہوئے اللہ تعالےٰ کے سامنے دوزانوں نہایت  مودّب بیٹھا ہوں۔  اللہ تعالےٰ  حجاب سے ماوراء محض احساس کی حد میں نظر آئے۔ میں نے خود کوبھی صرف محسوس کیا۔ خدوخال غائب ہو گئے۔ صرف یہ احساس باقی رہ گیا کہ میں اور اللہ تعالےٰ یہاں موجود ہیں۔ میں نے اللہ تعالےٰ سے عرض کیا۔” میرے اللہ؛ میں سمجھنا چاہتا ہوں کہ حجابِ عظمت کیا ہے؟“

اللہ تعالےٰ نے ارشاد فرمایا۔“ حجاب عظمت ہماری تسبیح، ہمارے تقدّس اور ہماری شان  کا مظہر ہے۔“

میں نے عرض کیا۔” حجاب کبریا کیا ہے؟“

اللہ تعالےٰ نے ارشاد فرمایا” حجاب کبریا ہماری ربانیت، ہماری معبودیت اور ہماری خالقیت کا مظہر ہے۔“

دیکھا کہ حجاب محمود میں ہوں۔ یہاں بھی صرف احساس باقی رہ گیا۔ میں نے ذہن یکسو کر کے اللہ تعالےٰ کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔ دیکھا کہ ہر طرف تجلیات کا ہجوم ہے۔میں تجلیات میں داخل ہو کر  اللہ تعالےٰ کے پاس پہنچنا چاہتا ہوں۔ میری کوشش یہ ہے کہ  میں اللہ تعالےٰ کے پاس پہنچ جاؤں۔ تجلیات دائروں کی صورت میں میرے چاروں طرف ہجوم کئے ہوئے ہیں۔ بالآخر تجلیات میں ایک محراب نما راستہ بنا۔ میں جلدی سے اس کے اندر چلا گیا۔۔۔۔۔

اللہ تعالےٰ کو خدوخال اور حجاب سے ماوراء مشاہدہ کیا۔ لیکن اللہ تعالےٰ کی ہستی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالےٰ سے میں نے عرض کیا” اللہ تعالیٰ ؛ آپ نے اپنی رحمت سے مجھے اپنی بصیرت، سماعت اور فواد عطا فرما دیا۔ آپ اپنا تکلّم بھی عطا فرما دیجئے۔“

میں نے دیکھا کہ اللہ تعالےٰ کے حکم سے چند چھینٹے میرے اندر  جذب ہو گئے۔ اللہ تعالےٰ نے فرمایا۔” ہم نے تجھے اپنا تکلم عطا فرما دیا۔“

میں نے عرض کیا۔”  اللہ تعالےٰ؛ مجھے ان سب کا استعمال بھی سیکھا دیجئے۔”  اللہ تعالےٰ نے فرمایا۔“ ایک ایک بات عرض کرو۔“

بصارت کا استعمال بتا دیجئے۔ میں آپ کی بصارت کیسے استعمال کروں؟“

اللہ تعالےٰ نے فرمایا۔” جب تو کسی چیز کو دیکھے  تو یہ خیال کر کہ تو نہیں اللہ دیکھ رہا ہے۔اللہ کی بصارت مجھے دکھا رہی ہے۔ تو سوچتا ہے کہ تو دیکھ رہا ہے۔ تو نہیں دیکھ رہا ۔ ہم دیکھ رہے ہیں۔“

میں نے عرض کیا ” اللہ تعالےٰ اور وضاحت فرما دیجئیے“

اللہ تعالےٰ نے فرمایا” ہر چیز کو ہماری معرفت سے دیکھ۔ خود کی نفی کر دے“

اللہ تعالےٰ سماعت کے بارے میں ارشاد فرمایئے“۔

اللہ تعالےٰ نے فرمایا۔” تو جو کچھ سنتا ہے ہمارے سننےکو سنتا ہے۔ جو آواز بھی آئے اس کو جان کہ یہ اللہ کی صفت ہے۔“

فواد کے بارے میں ارشاد ہوا۔” جو کچھ سوچے اللہ کے لئے سوچے۔“

میں نے عرض کیا” اے میرے اللہ؛ سوچنے میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو انسان کی زندگی پراگندہ کرتی ہیں۔ کیا یہ باتیں بھی آپ کی طرف سے ہوتی ہیں؟“

اللہ تعالے نے فرمایا۔” ہر سوچ ہماری طرف سے ہے۔ جب انسان اس میں اپنی ذات شامل کر دیتا ہے تو وہ اس کے لئےبارِ خاطر ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی سوچ اپنی جگہ خراب نہیں ہے۔ انسان جب اس میں اپنی ذات کو وابستہ کر کے معنی نکالتاہے، اس وقت یہ بات ہماری نہیں رہتی۔ جب تک ذات شامل نہیں ہوتی، ہر سوچ ہماری طرف سے ہے۔ اس بات کو ذہن میں راسخ کر لے۔ اس کا رُخ اللہ کی جانب موڑ دے۔“

میں نے عرض کیا۔” اللہ میاں؛ آپ کا  ذکر کس طرح کروں؟“

فرمایا۔” میرا ذکر شکر کے ساتھ کر۔“

اور ساتھ ہی قرآن  پاک کی آیت اعملوااٰل داؤد شکراوقلیل من عبادی الشکور زبان سے ادا ہوئی۔

عرض کیا۔” اللہ تعالیٰ؛ کوئی لفظ ارشاد فرمایئے۔“

اللہ تعالےٰ نے ارشاد فرمایا۔"اللہُ اَحَدُ"۔ ذہن میں یہ معنی آئے کہ ایسا اللہ جو مخلوق کے تمام اوصاف سے ماوراء ہے۔“

عرض کیا۔” فواد کے بارے میں کچھ اور فرمایئے۔“

ارشاد ہوا کہ قرآن پاک میں تفکر کو شعار بنالے۔



Janata Ki Sair

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن پاک کے ارشادات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتیں ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کر کے مظاہرِقدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرارورموز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بنا پر استفادہ کرتی ہے۔

کتاب جنت کی سیر میں مرد اور عورت کی ایک جیسی روحانی واردات و کیفییات بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا امتیاز  برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد اور عورت کے اندر ایک روح کام کر رہی ہے عورت کے اندر بھی وہ تما م صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ولی اللہ بن سکتی ہے۔

خواتین و حضرات ، آیئے آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طاقت سے نوع انسانی کے اوپر شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ وسلم کی آغوش رحمت آپ کی منتظر ہے۔