Topics

ایک حسین و جمیل دولہن


اب سنو موت کیا ہے اور مرتے وقت انسان کو کیا محسوس ہو گا۔
موت ایک نہایت ہی حسین شے ہے جو اس دنیا میں تمام نعمتوں سے زیا دہ قیمتی ہے۔ موت انسان کو فکر و غم سے آزاد کرتی ہے۔ زمہ داریوں سے آزاد کرتی ہے۔ موت انسان کو ایک ابدی زندگی بخشتی ہے۔ موت انسان کی خواہشات کا نچوڑ ہے۔ موت انسان کو روحانی سکون بخشتی ہے لیکن اس حسین شئے کو حاصل کرنے کی قیمت نیکیاں ہیں۔ اعمال حسنہ ہیں جو انسان زندگی میں کرتا ہے۔ اگر انسان کے پاس موت کو حاصل کرنے کی یہ قیمت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔برے انسان کے لیے موت ایک بھیانک دیو سے کم نہیں ہے۔ مرتے وقت خوفناک شکلیں اسے ڈرائیں گی یہ خوفناک اور دہشت ناک دیو اسے طرح طرح کی تکلیفیں دیں گے۔ انسان بھاگنا چاہے گا لیکن کہاں جائے گا، ہر طرف دیو ہی دیو ہوں گے اور وہ ایک بے بس پرندے کی طرح جس کے دونوں پر کاٹ دیے گئے ہوں ان دیوؤں کے قبضے میں ہو گا۔
اس لیے موت  کا استقبال ایک حسین و جمیل دُلہن کی طرح کرو۔ اپنی نیکیوں سے اس کا سنگھار کرو تاکہ مرتے وقت  وہ جب قریب آئے تو اپنے نور کی شعاعوں سے تمھاری  قبر  کا اندھیرہ دور کر دے۔ اپنے اعمال بد سے اس کا چہرہ مسخ نہ کرو کہ وہ  تمہیں قبر کے خوفناک اندھیرے  میں ایک دہشت ناک  دیو  معلوم ہو۔
یہ تمام الفاظ مجھے اللہ تعالے نے ودیعت کئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان  کو جتنے بھی علم دئیے گئے ہیں وہ تمام اللہ تعالے ہی کے لئے ہیں۔ اس لئے حسین  اور خوب صورت الفاظ میں انہیں یاد کرو۔ ان پر اپنے الفاظ کا جادو بکھیرو۔ انہوں نے جو بھی مجھے بتایا جو دعائیں بھی پڑھوائیں ان کے الفاظ بہت شیریں تھے اور قرآن شریف کے الفاظ کس قدر شیریں ہیں کہ باوجود یہ کہ ہم عربی نہیں جانتے ہم تلاوت کرتے ہیں تو کھو کر رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے جب بھی مخاطب ہو ادب کے ساتھ بہترین الفاظ میں اس کے حضور نذرانہِ عقیدت پیش کرو۔
دیکھو یہ انسان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ حق کی آواز پہچانے، حق کی آواز انسان کے اپنے ضمیر کی آواز ہے۔ مجھے اس کے پہچاننے کی تعلیم دی گئی ہے۔  
میں پچھلا خط آپ کو رات گئے تک لکھتی رہی، بچوں کو لٹا کر ان کے پاس ہی لکھنے بیٹھ گئی کیونکہ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں جلد از جلد آپ کو لکھ دوں لیکن رات کافی ہو گئی تھی مگر لائٹ ہونے کی وجہ سے بچے سو نہیں رہے تھے دو تین مرتبہ میرے دل میں خیال آیا کہ لائٹ بند کر کے میں سو جاؤں  تو بچے بھی سو جائیں گے مگر خط بھی لکھنے کا شوق مجھے ہو رہا تھا میں لکھتی رہی اور ضمیر کی آواز پر میں نے دھیان نہیں دیا۔ اسی وقت پھٹ سے بلب فیوز ہو گیا اور گھپ اندھیرا ہو گیا۔ بہت ہی زور سے کسی نے ڈانٹ کر کہا کہ تم حق کی آواز نہیں پہچانتی ہو، ہم تمہیں کب سے کہہ رہے ہیں کہ سو جاؤ، خط صبح لکھ لینا۔ ڈر کے مارے تو میری آدھی جان نکل گئی، اسی وقت میں نے قلم کاغذ تکیے کے نیچے رکھا حتیٰ کہ اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اٹھ کر چشمہ بھی رکھوں وہیں پلنگ کے نیچے ہی رکھ کر جیسی تھی لیٹ کر سو رہی۔ پھر انہوں نے سمجھانے کے انداز میں مجھے کہا دیکھو جس کام کے کرتے وقت یا شروع کرتے وقت تمہارے دل میں یہ خیال آئے کہ نہیں کرنا چاہئیے وہ کام نہیں کرنا چاہیے ، وہ کام فوراً چھوڑ دو چاہے تمہیں کتنا ہی ضروری محسوس ہوتا ہو اپنے ضمیر کی آواز سنو، ضمیر کی آواز ہی حق کی آواز ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ اگر انسان بار بار اپنے ضمیر کی آواز یعنی حق کی آواز کو ٹھکرا دے تو ضمیر رہنمائی نہیں کرتا۔




Janata Ki Sair

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن پاک کے ارشادات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتیں ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کر کے مظاہرِقدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرارورموز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بنا پر استفادہ کرتی ہے۔

کتاب جنت کی سیر میں مرد اور عورت کی ایک جیسی روحانی واردات و کیفییات بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا امتیاز  برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد اور عورت کے اندر ایک روح کام کر رہی ہے عورت کے اندر بھی وہ تما م صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ولی اللہ بن سکتی ہے۔

خواتین و حضرات ، آیئے آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طاقت سے نوع انسانی کے اوپر شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ وسلم کی آغوش رحمت آپ کی منتظر ہے۔