Topics

آدمی چھ نقطوں میں بند ہے


بولٹن مارکیٹ سے بس میں سوار ہو کر گھر آرہا تھا۔  بس میں اس قدر رش تھا کہ لگتا تھا کسی بڑے ڈبّے میں سامان کی طرح مسافروں کو پیک کر دیا گیا ہے۔ دھوئیں اور جلے ہوئے تیل کے ساتھ آدمیوں کے پسینے کی بو بھی بس میں بسی ہوئی تھی۔ بس چلنے پر کھڑکی سے ہوا کا جھونکا آتا تو متعفّن پسینے کی بو سے دماغ پھٹنے لگتا۔ بس میں سوار مسافر ایسے بھی تھے جن کے سفید بّراق لباس سینٹ کی بھینی خوشبو سے معطر تھے۔ کچھ لوگوں نے سر میں ایسے تیل ڈالے ہوئے تھے جن میں دوائیوں کی خوشبو موجود تھی۔ خوشبو اور بدبو کے اس امتزاج سے دماغ بھاری ہوگیا۔ پھر مرکزیت اس قدر بڑھی کہ آنکھیں خمار آلود ہوگئیں۔ اور آہستہ آہستہ یہ خمار غنودگی میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔
دیکھا کہ ایک گول دائرہ ہے۔ اس گول دائرے کے اوپر چھ اور دائرے ہیں۔ ہر دائرہ مختلف رنگوں سے بنا ہوا ہے۔ کوئی دائرہ نیلگوں ہے، کوئی سبز ہے، کوئی سرخ ہے، کوئی سیاہ ہے اور کوئی بے رنگ ہے۔ قوس قزح کے ان رنگوں میں دل چسپی بڑھی تو یہ چھ دائرے چھ روشن نقطوں میں تبدیل ہوگئے اور یہ بات منکشف ہوئی کہ ہر ذی روح دراصل ان چھ نقطوں کے اندر زندہ ہے۔ ان چھ نقطوں کو جب اور  زائد گہرائی میں دیکھا تو  نقطوں کے درمیان فاصلہ قائم ہو گیا۔ پہلا نقطہ سر کے بیچ میں نظر آیا۔ دوسرا نقطہ پیشانی کی جگہ، تیسرا نقطہ دائیں پستان کے نیچے، چوتھا نقطہ  سینے کے بیچ میں، پانچواں نقطہ دل کی جگہ اور چھٹا نقطہ ناف کے مقام پر دیکھا۔
ناف کے مقام پر  جو نقطہ تھا اس میں تاریکی غالب تھی اور اس میں تعفّن کا احساس نمایاں تھا۔ بڑی حیرت ہوئی کہ اس قدر روشن اور تابناک نقطوں کے ساتھ یہ کثیف، تاریک اور متعفّن نقطہ کیوں ہے؟ ذہن اس کھوج میں لگ گیا۔ اب میری حالت یہ تھی کہ ذہن جسم کو چھوڑ چکا تھا۔ گوشت پوست کے جسم کی حیثیت ایک خالی لفافہ کی تھی۔ یہ احساس ہی نہیں رہا کہ میں بس میں سفر کر رہا ہوں۔ آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہو گئیں اور اب میں پوری طرح مراقبہ کے عالم میں تھا۔  مراقبہ میں دیکھا کہ ہر آدمی کے کندھوں پر  دو دو فرشتے موجود ہیں۔ اور یہ کچھ لکھ رہے ہیں۔ لیکن لکھنے کی طرز یہ نہیں ہے جو ہماری دنیا میں رائج ہے۔ نہ ان کے ہاتھوں میں قلم ہے اور نہ سامنے کسی قسم کا کاغذ ہے۔ فرشتوں کا ذہن کوئی بات نوٹ کرتا ہے اور وہ بات فلم کی طرح ایک جھّلی پر نقش ہو جاتی ہے۔ نقش و نگار کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی کے ذہن میں ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہے۔ دوسرے آدمی کے ذہن میں ایذارسانی اور حسد کے جذبات متحرک ہیں۔ تیسرا آدمی کسی کو قتل کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلا۔ ایک فرشتے نے فوراً اس کے ذہن میں ترغیب کے ذریعے یہ بات ڈالی کہ قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے اور جان کا بدلہ جان ہے۔ لیکن اس آدمی نے اس ترغیب کو رد خورِاعتنا نہیں سمجھا اور قدم بقدم اپنے ارادے کو پورا کرنے کے لئے آگے بڑھتا رہا۔ ترغیبی پروگرام پر جب عمل نہیں ہوا تو دوسرے فرشتے نے اس جھلّی نما فلم پر اپنا  ذہن مرکوز کر دیا اور اس فلم پر یہ تصویر منعکس ہو گئی کہ وہ بندہ قتل کی نیت سے گھر سے آیا اور اس کے اوپر اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوا کہ جان کا بدلہ جان ہے۔ یہ بندہ اور آگے بڑھا  اور متعفن مقام پر پہنچ کر اپنے ہی جیسے دوسرے انسان کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا۔ دوسرے فرشتے نے فوراً ہی اس کو بھی فلما دیا۔
جرم کرنے کے بعد اس بندے کے ضمیر میں ہل چل برپا ہو گئی۔ دماغ میں مسلسل اور تواتر سے یہ بات آتی رہی کہ یہ کام میں نے صحیح نہیں کیا ہے۔ جس طرح میں نےایک جان کا خون کیا ہے اسی طرح میری سزا بھی یہی ہے کہ مجھے قتل کر دیا جائے۔ ضمیر کی یہ ملامت بھی فلم بن گئی۔
علیٰ ہذالقیاس، تینوں نے اپنے ارادےاور پروگرام کے تحت عمل کیا اور جیسے جیسے اس پروگرام کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے اقدام کیا، ہر عمل اور حرکت کی فلم بنتی چلی گئی۔ اس کے برعکس ایک آدمی نماز کے ارادے سے مسجد میں پہنچ کر خلوص نیّت سے نماز ادا کی۔ خلوص نیّت اللہ کو پسند ہے۔ اللہ تعالےٰ کی اس پسندیدگی کے نتیجے میں وہ انعامات واکرامات کا مستحق قرار پایا۔ گو کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کا عمل قبول ہوا یا نہیں  ہوا لیکن چونکہ اس کی نیت مخلصانہ تھی، اس لئے یہ عمل کرنے کے بعد اس کا  ضمیر مطئمن ہو گیا اور اس کے اوپر سکون کی حالت قائم ہو گئی۔ سکون کا اصل مقام جنت ہے۔  ضمیر نے مطئمن ہو کر اس بات کا مشاہدہ کیا کہ میرا مقام جنت ہے۔ جیسےہی جنت سامنے آئی۔ جنت کےاندر تمام انواع و اقسام کے پھل، شہد کی نہریں، حوضِ کوثر وغیرہ وغیرہ سامنے آگئے۔ جب ضمیر ایک نقطہ پر مرکوز ہو کر ان انعامات و اکرامات سے فیض یاب ہو چکا تو فرشتے نے اس جھلّی نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کر دیا اور یہ ساری کاروائی فلم بن گئی۔
ایک دوسرا آدمی گھر سے نماز کے لئے چلا۔ ذہن میں کثافت ہے اللہ کی مخلوق کے لئے بغض و عناد ہے۔ مشغلہ حق تلفی، سفاکی بربریّت اور جبرو تشدّد ہے۔ مسجد میں داخل ہوا، نماز ادا کی لیکن ضمیر مطئمن نہیں ہوا۔ ضمیر مطمن نہ ہونا دراصل وہ کیفیت ہے جس کو  دوزخ کی کیفیت کے سوا دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا  ۔ جب یہ آدمی نماز سے فارغ ہوا اور دل و دماغ خالی اور بے سکون محسوس کئے تو فوراًدوسرے فرشتے نے اس جھلّی نما فلم پر اپنا ذہن مرکوز کیا اور ساری روئیداد بھی فلم بن گئی۔
فرشتوں نے مجھے بتایا۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت آپ کے سامنے دو کردار ہیں۔ ایک کردار وہ ہے  جس نے ترغیبی پروگرام سے رو گردانی کی اور محض اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوﮰاپنے ہی بھائی کو قتل کر دیا۔ ایک وہ شخص ہے جس نے بظاہر وہ عمل کیا جو نیکوکار لوگوں کا عمل ہے۔ لیکن اس کی نیت میں خلوص نہیں تھا۔ وہ خود کو اور اللہ کے نظام کو دھوکا دے رہا تھا۔
دوسرا گروہ وہ ہے جس کی نیت میں خلوص ہے، ذہن میں پاکیزگی ہے اور اللہ کے قانون کا احترام ہے۔ آئیے اب ہم ان دونوں گروہوں میں سے ایک ایک فرد کی زندگی کا مطالعاتی تجزیہ کرتے ہیں۔
قتل کرنے والا بندہ جب دنیا کی ہماہمی اور گہماگہمی اور لا متناہی مصروفیات سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے اوپر جرم کا احساس مسلط ہو جاتا ہے۔ دل بےچینی اور دماغ پریشانی کے عالم میں سیدھی  حرکت کے بجائے اس طرح گھومتے  ہیں کہ یہ پریشانی ذہنی  خلفشار اور دماغی کشاکش میں پیش آنے والے آلام و مصائب کی تصویر بن جاتی ہیں۔ اب فرشتے کی بنائی ہوئی فلم پر نقوش اس بندے کے اپنے ارادے اور اختیار سے گہرے ہو جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان نقوش میں گہرائی واقع ہوتی  ہے، اس آدمی  کے اندر روشن نقطےدھندلے ہونے لگتے ہیں اور یہ دھند بڑھتے بڑھتے اس نقطہ پر جو ناف کے مقام پر ہے محیط  ہو جاتا ہے۔ اور اس نقطہ کے اندر روشنیاں تاریکی میں ڈوب جاتی ہیں۔ کسی بندے کے اوپر جب یہ کیفیت وارد ہو جاتی ہے تو تاریکی اور کثافت ایک متعفن پھوڑا بن جاتی ہے اور اس پھوڑے کی سڑاند اس کے خون میں رچ بس جاتی ہے۔ پھر یہ سڑاند بڑھتے بڑھتے اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ باقی پانچ نقطے اس آدمی سے کافی حد تک لاتعلق ہو جاتے ہیں۔
فرشتوں کی اس تعلیم سے میں مبہوت و ششدر تھا کہ سماوات سے ایک آوازگونجی۔ وہ آواز گھنٹیوں کی آواز کی طرح تھی۔ جب اس مدھ بھری اور سُریلی آواز میں میں نے اپنی تمام تر توجہ مبذول کی تو میری سماعت سے یہ آواز ٹکرائی۔۔۔۔۔ مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر  دبیز پردے ڈال دیئے۔ ایسے نا سعادت آثار لوگوں کیلئے عذاب علیم کی وعید ہے۔
آواز کا سننا تھا کہ خوف سے دل لرز اٹھا ۔ جسم کے سارے مسامات کھل گئے۔ زبان پر فریاد تھی اور آنکھوں میں آنسو۔ اتنا رویا ، کہ ہچکی بند گئی۔ لوگوں نے دیکھا، سمجھے پاگل ہے۔ کچھ لوگوں نے آوازیں کسیں کتنی ستم ظریفی ہے کہ بس میں موجود ایک آدمی نے بھی ہمدردی کا ایک لفظ زبان سے ادا نہیں کیا اور اسی عالم بیقراری میں بس سے اتر گیا۔
جس وقت گھر پہنچا ، گھر میں اندھیرا تھا اس غم ناک اور الم آمیز کیفیت کا اثر یہ ہوا کہ نڈھال ہو کر چار پائی پر گر گیا۔ دل میں کسک نے درد کی شکل اختیار کر لی۔ لگتا تھا کسی نے دل کے اندر کوئی کیل ٹھونک دی ہے۔ یکا یک سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ کی رحمت اور لطف و کرم کی طرف توجہ مبذول ہو گئی۔ اب پھر دیکھا کہ وہ دونوں فرشتے موجود ہیں اور سر پر ہاتھ پھیر کر مجھے تسلی دے رہے ہیں۔ اس فرشتے نے جو نیکی کی فلم بنانے پر متعین تھا میرے سامنے اپنی بنائی ہوئی فلم کو کھولنا شروع کر دیا اور آنکھوں کے سامنے ایک اسکرین آ گئی۔
یا مظہر الحجائب، ناف کے مقام پر کثیف اور تاریک نقطے کی بجائے روشن نقطہ آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ اتنا روشن کے سورج کی روشنی اس کے سامنے چراغ اور چاند کی چاندنی ان نورانی روشنیوں کے سامنے ٹمٹماتا دیا۔۔۔دماغ کے اوپر المناک  کثآفت دیکھتے ہی دیکھتے دھل گئی۔
وہ شخص جس نے خلوص نیت سے نماز ادا کی تھی اور جس کے دل میں اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی حرمت تھی، موجود تھا۔ اس آدمی کے اندر روشن نقطے کی شعاعیں سورج کی شعاعوں کی طرح گردش کرنے لگیں۔ ایک سکون کا عالم تھا کہ ٹھہرے ہوئے سمندر کا سکوت تھا۔ روشن روشن دل میں جل ترنگ کا ساماں تھا۔ کیف و مستی کا ایک عالم تھا اور اس کیف و مستی کے عالم میں وہ شخص جنت کی پرفضا وادی میں گلگشتِ چمن تھا۔ جنت کے نظارے کا کیا بیان کیا جائے ایسے ایسے محلات کہ جن کے اندر فن تعمیر ایسا کہ دنیا کی کوئی تاریخ مثال نہیں پیش کر سکتی۔ہیرے جواہرات سے مرصع اس محل میں اس صاحب کو محو استراحت دیکھا جن کی خدمت کے لیے حوریں معمور تھی۔ قسم قسم کے طیور اور پرندے چہک رہے تھے۔ لگتا تھا کہ ان صاحب کی تعریف و توصیف کے ترانے گا رہے ہیں۔ ایسے تراشے ہوئے پتھروں سے  حوضیں دیکھیں جن پتھروں کی چمک دھمک کے سامنے سچے موتیوں کی چمک دھمک ماند ہے۔
جنت میں ایک اعلیٰ مقام ہے یہ مقام قدسی نفس حضرات کا مقام ہے جو خلوص نیت سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کے دل میں اللہ کی مخلوق کی خدمت کا جذبہ کارفرما ہے۔ جن کے دل حق آشنا ہیں اور جو آدم و حوا کےرشتے سے اپنی بہن بھائیوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کی مخلوق اس دکھ درد سے نجات حاصل کرے۔ اس پرسکون عالم کو دیکھ کر میرے اوپر سکوت طاری ہو گیا، عقل گم ہو گئی۔ سماعت ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی۔ دنیا کو  دیکھنے والی بصارت ایک فریب اور دھوکا نظر آئی۔ اور پھر بے اختیار آنکھیں پانی بن گئیں۔ یہ آنسو خوف اور غم کے آنسو نہیں تھے، تشکر کے آنسو تھے۔ میری اس والہانہ خوشی سے دونوں فرشتے بھی خوش ہوئے اور پوچھا جانتے ہو یہ کن لوگوں کا مقام ہے؟ یہ ان لوگوں کا مقام ہے جو اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر خلوص نیت سے عمل کرتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست کہا ہے۔ بے شک اللہ کے دوستوں کے لیے خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم آشنا ہوتے ہیں۔
یہ دونوں فرشتےکراماً کاتبین ہیں۔




Janata Ki Sair

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن پاک کے ارشادات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتیں ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کر کے مظاہرِقدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرارورموز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بنا پر استفادہ کرتی ہے۔

کتاب جنت کی سیر میں مرد اور عورت کی ایک جیسی روحانی واردات و کیفییات بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا امتیاز  برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد اور عورت کے اندر ایک روح کام کر رہی ہے عورت کے اندر بھی وہ تما م صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ولی اللہ بن سکتی ہے۔

خواتین و حضرات ، آیئے آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طاقت سے نوع انسانی کے اوپر شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ وسلم کی آغوش رحمت آپ کی منتظر ہے۔