Topics

آسام کی پہاڑیوں میں


مٹھاس چھوڑے چھ مہینے ہو گئے ہیں۔ دیکھا ایک جوگی صاحب تشریف لائے۔ فرمایا ” مبارک ہو۔ آج میں تمہیں اپنے ساتھ اپنی رہائش گاہ لے جاؤں گا”۔ صبح کے پانچ بجے ہیں جوگی صاحب آئے۔ فرمایا” چلو“
میں کمرے سے نکل کر باہر برآمدے میں ان کے پاس آیا۔  جوگی صاحب نے کہا۔ ” آنکھیں بند کرکے میرے کرتے کا دامن پکڑ لو اور ساتھ ساتھ چلے آو“
چند لمحے بعد جوگی صاحب نے فرمایا۔” آنکھیں کھول دو“
آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔۔۔۔ یا مظہرالعجائب ! اپنے کو پہاڑ کی تلہٹی( وادی) میں کھڑا پایا۔ اتنی سردی ہے کہ  دانت بجنے لگے۔جوگی  صاحب نے سر پر ہاتھ دھرا تو سکون آگیا۔ فرمایا کہ یہ آسام کی سب سے اونچی پہاڑی ہے یہی میری جائے قیام ہے۔ دیکھا کہ گنبد نما جھونپڑی بنی ہوئی ہے۔ چھت درخت کے پتوں اور تنے کی ہے۔ جھونپڑی کے سامنے مکئی کا کھیت تھا۔ جوگی صاحب نے دو بھٹے توڑے، آگ جلا کر سینکے۔ کہا۔” کھاؤیہ فقیر کا تحفہ ہے۔“
میں بھٹے کھا رہا تھا کہ وہ جھونپڑی کے اندر سے بانسری اٹھالائے۔ کہا ” تم بھٹے کھاؤ میں تماشہ دکھاتا ہوں“
بانسری کی آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی چلی گئی۔ آواز میں ایسی کشش تھی کہ خدا کی پناہ! دیکھتے ہی دیکھتے پرندے، چرندے، درندے، سانپ، بچھو اور بن مانس گروہ در گروہ  آنا شروع ہوگئے۔ عجیب و غریب سماں، عجیب و غریب منظر!اللہ کی قسم قسم کی مخلوق سب آموجود ہوئی۔ ہیبت کے مارےمیرے ہاتھ سے بھٹا گر گیا اور عجیب عالم بے ہوشی میں اس منظر کو دیکھنے لگا۔ نہیں کہا جا سکتا کہ بانسری کب تک بجی۔ جوں ہی بانسری کا گیت اور نغمہ بند ہوا یہ سب جانور جس طرح آئےتھے اسی طرح چلے گئے۔ جوگی صاحب نے فرمایا” تم نے دیکھامگر یاد رکھو یہ سب بھان متی کا تماشہ ہے۔ روحانیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔“
شب میں ساڑھے تین بجے مراقبہ کے عالم میں ایک ایسا شہر دیکھا جو سب کا سب شیشے کا بنا ہوا ہے۔ گھاس، درخت،  مکان کی دیواریں، سڑکیں، سبزہ زار غرض ہر چیز شیشے کی ہے۔ میدان میں گھاس کے اوپر گنبد نما شیشہ لگا ہوا ہے اور اس کے اندر ہوا سے گھاس ہلتی نظر آتی ہے۔ سارےشہر کا سماں اس طرح ہے جیسے سورج نکلنے سے آدھے گھنٹے پہلے ہوتا ہے۔ وہاں انسانوں ہی کی آبادی ہے اور شہر کا انتظام بھی انسانوں کے ہاتھ میں ہے۔
سانس کی مشق کرتے کرتے غنودگی طاری ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ تاریکی بھی ایک  قسم کی روشنی ہے۔ جس طرح روشنی مشاہدے کا ذریعہ  بنتی ہے بالکل اسی طرح تاریکی میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ روشنی اور تاریکی کی دنیا میں کوئی فرق نہیں۔ تاریکی میں بھی اسی طرح آبادیاں ہیں جس طرح ہم روشنی میں دیکھتےہیں۔ زمیں کے اندر سے اس طرح روشنیاں پھوٹتی نظر آئیں جیسے بھاڑ میں چنے بھنتے وقت اچھلتے ہیں۔ مراقبہ میں اپنے اندر سے نہایت حسین و خوشنما روشنیاں پھوٹتی نظر آئیں۔ ان روشنیوں کا رنگ اس قسم کا تھا کہ ان کی مثال ہماری دنیا میں نہیں مل سکتی۔ صحن میں آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا کہ آسمان پوری بلندی پر نظر آیا۔ خلاء بیچ میں سے نکل گیا۔ جو رنگ ہمیں نظر آتا ہے وہ آسمان کا نہیں ہے۔ ہم خلاء (SAPCE)  کو آسمان  سمجھتے ہیں حالانکہ وہ محض خلاء ہے آسمان نہیں ہے۔اصلی آسمان کی مثال بساط کی سی ہے جس پر بے شمار مخلوق چلتی پھرتی ہے، کھاتی پیتی ہے، اور ہنستی بولتی نظر آتی ہے۔ معلوم نہیں یہ کس قسم کی مخلوق ہے۔ البتہ انسان وہاں بھی موجود ہے۔ میں نے چھت کو چھونا چاہا تو میرا ہاتھ چھت سے جا لگا۔ اس عمل کو بار بار دہرایا۔ جب بھی ہاتھ چھت کی  طرف  بڑھاتا تو چھت سیکنڈ کے ہزارویں حصّے میں نیچے آ جاتی تھی جس طرح کہ ربر کی بنی ہوئی ہے۔
میں نے شیخ سے سوال کیا کہ فقیر کس طرح وسیلے کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں؟
حضرت شیخ نے فرمایا کہ سانس اندر لینا صعودی حرکت ہے اور سانس باہر نکالنا نزولی حرکت۔ سانس باہر نکالنے کا عمل (نزولی حرکت)انسان کو زمان اور مکان میں مقید کر دیتا ہے اور صعودی حرکت (سانس اندر کھینچنا) اسے زمان اور مکان (TIME AND SPACE)  کی قید سے آزاد کر دیتی ہے۔ تم اس کا تجربہ کرو۔
خلاء میں چہل قدمی
اپنے شیخ سے عرض کیا کہ حضور بابا تاج الدّین کے پاس ناگپور جانا چاہتا ہوں۔
حضور نے فرمایا ” میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ“
دو تین قدم اٹھانے کے بعد محسوس ہوا کہ زمین پیروں کے نیچے تیزی کے  ساتھ لپٹ رہی ہے۔ جیسے فرش لپیٹتے ہیں۔ پاؤں زمین سے اٹھ گئے۔ رفتار کی  تیزی نے خوف پیدا کیا۔ میرے شیخ میرے آگے چل رہے ہیں۔ ہم نے زمین سے تقریباً نصف میل کی بلندی پر خلاء میں سفر کیا۔ اور اسی طرح چلتے رہے جس طرح زمین پر چلتے ہیں۔ ایک بات یہ دیکھی کہ خلاء میں جسم لطیف ہونے کے باوجود اسی طرح ٹھوس رہتا ہے جس طرح زمین پر۔

جسم مثالی چاند میں

ایک روز بعد مغرب دل پر دباؤمحسوس ہوا۔ ایک دم جسم معلق ہو گیا۔ بے شمار سیّارے نظر آئے جو نقطوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ یہ نقطے بڑےہوتے چلے گئے۔ اور پھر ان نقطوں کے دائرے بن گئے۔ ہر دائرہ ایک نظام شمسی ہے جس میں انسانوں کی آبادیاں ہیں۔ دیکھا کہ کرہَ ارض اور کائنات کے درمیان روشنیوں کے تانے بانے سے بنا ہوا ایک پردہ ہے۔ ذہن نے کوشش کی کہ اس پردہ   کو توڑ کر کائنات کے اندر داخل ہو جائے۔ آخر ذہن نے اس پردہ کو توڑ  دیا۔ اب میں کائنات کے قلب میں چل رہا ہوں۔ اس عالم میں فرشتوں، جنات اور انسانوں کی تخلیق کے فارمولوں کا انکشاف ہوا۔
ایک روز بحالتِ مراقبہ میرا گیس کا جسم (پیکر مثالی) میرے اندر سے نکل کر چاند کی طرف چلا اور وہاں اتر گیا۔ وہاں پہاڑیاں، جھیلیں، تالاب اور ریگستان ہیں۔ تالاب اور جھیلوں کا پانی پارے کی طرح ہے۔ چاند میں روشنی بالکل نہیں ہے ایسی بو آتی ہے جیسے ویلڈنگ کے وقت محسوس ہوتی ہیں۔ یہ ایک قسم کی گیس ہے جو چاند میں پائی جاتی ہے۔
 میں نے خواب میں حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسیٰ کی زیارت کی۔ سیّدنا حضرت امام حسین کی زیارت نصیب ہوئی۔ خواب ہی میں کرشن جی سے ملاقات ہوئی۔ ان کے پاس تین چار سادھو بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنی چادر مجھ پر ڈال دی۔ عالم خواب ہی میں عالم برزخ کی سیر کی۔ اور ایسے ایسے عجائبات دیکھے کہ بیان میں نہیں آسکتے۔  آنکھیں بند کئے ہوئے بیٹھا تھا۔ دیکھا آسمان نظروں کے سامنے ہے۔ درمیان میں کوئی خلاء نہیں ہے۔ یہ بات منکشف ہوئی کہ نوع انسانی کے افراد جس چیز کو آسمان  کہتے ہیں وہ آسمان نہیں خلاء ہے۔ آسمان کی چھت سائبان کی طرح نہیں ہے ہم جس چیز کو آسمان کہتے ہیں وہ دراصل خلاء ہے۔
آسمان فی الواقع ایک بساط ہے۔ اور اس بساط پر بھی مخلوق ہے۔ ایسی مخلوق جو ہماری طرح کھاتی پیتی، ہنستی بولتی اور چلتی پھرتی ہے اور ہماری ہی طرح اس مخلوق کے اندر زندگی کی خواہشات، تمام تقاضے اور حواس موجود ہیں۔ ہم کو آسمان پر جو رنگ نظر آتا ہے وہ آسمان کا رنگ نہیں بلکہ خلاءکا رنگ ہے۔
خلاء میں بھی آدمی اسی طرح چلتا پھرتا ہوں جیسے زمین پر چلتا پھرتا ہے ۔ اتنی بات ضرور ہے کہ اس خلا ءمیں جسم لطیف محسوس ہوتا ہے لیکن روشنیوں سے بنا ہوا یہ جسم ہڈیوں کے ڈھانچےاور گوشت پوست کے جسم کی طرح ٹھوس ہے۔ خلا ءمیں موجود کسی انسان کے ساتھ ہاتھ ملایا جائے یا معانقہ کیا جائے تو محسوسات بالکل وہ ہی  رہتے ہیں جو زمین پر رہنے والے کسی فرد کے ساتھ معانقہ کرنے یا ہاتھ ملانے کے وقت ہوتے ہیں۔ البتہ جسم ٹی-وی کی تصویر کی طرح ٹرانسپیرنٹ نظر آتا ہے۔ ایک بات بطور خاص یہ دیکھی کہ جس وقت میں خلاء میں تھا۔ خلاء میں چلنے پھرنے کے ساتھ ساتھ نیچے زمین کو دیکھ رہا تھا اور زمین ایک گول دائرے کی شکل میں نظر آ رہی تھی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ زمین کے تمام حصّے اپنی  سمتوں کے ساتھ نظر کے سامنے تھے۔



Janata Ki Sair

خواجہ شمس الدین عظیمی

قرآن پاک کے ارشادات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور ظاہری و باطنی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ بات سورج کی طرح ظاہر ہے کہ جس طرح مرد کے اوپر روحانی واردات مرتب ہوتیں ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسی طرح عورت بھی روحانی دنیا میں ارتقائی منازل طے کر کے مظاہرِقدرت کا مطالعہ اور قدرت کے ظاہری و باطنی اسرارورموز سے اپنی بصیرت اور تدبر کی بنا پر استفادہ کرتی ہے۔

کتاب جنت کی سیر میں مرد اور عورت کی ایک جیسی روحانی واردات و کیفییات بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ عورت اور مرد کی روحانی صلاحیتیں مساوی ہیں۔ روحانی علوم کے سلسلے میں عورت اور مرد کا امتیاز  برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ مرد اور عورت کے اندر ایک روح کام کر رہی ہے عورت کے اندر بھی وہ تما م صلاحیتیں اور صفات موجود ہیں جو قدرت نے مرد کو ودیعت کی ہیں۔ جب ایک عورت رابعہ بصری بن سکتی ہے تو دنیا کی تمام عورتیں اپنے اندر اللہ کی دی ہوئی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ولی اللہ بن سکتی ہے۔

خواتین و حضرات ، آیئے آگے بڑھیں اور صراط مستقیم پر چل کر اپنی روحانی طاقت سے نوع انسانی کے اوپر شیطانی غلبہ کو ختم کر دیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ وسلم کی آغوش رحمت آپ کی منتظر ہے۔