Topics
اگر کوئی شخص مصور ہونا چاہے تو وہ تصویر کے خدوخال کو اپنی طبیعت میں رفتہ
رفتہ جذب کرتا جاتا ہے۔ اس کے حافظے میں یہ بات محفوظ ہے کہ کانوں کی ساخت کے لئے
پنسل کے ایک خاص وضع کے نشانات استعمال ہوں گے، آنکھوں کی ساخت کے لئے دوسری وضع
کے،بالوں کی ساخت کے لئےتیسری وضع کے۔مشق کرتے کرتے وہ انسانی جسم کے ہر عضو کی
ساخت کو پنسل کے نقش کی صورت میں پوری طرح ظاہر کرنے پر قابو پا جاتا ہے۔اب ہم اس
کو مصور کہہ سکتے ہیں۔یہ سب کچھ کس طرح ہوا؟
انسان کے ذہن میں انسانی خدوخال کا عکس موجود تھا۔جب اس عکس کو نقل کرنے کے
لئےاس نے پنسل استعمال کرنا چاہی تو وہ عکس جو اس کے ذہن میں موجود تھا بار بار اس
کی راہ نمائی کرتا رہا۔ساتھ ساتھ جس استاد نے اس کو مصوری کا فن سکھایا وہ یہ بتلا
گیا کہ پنسل اس طرح استعمال کی جاتی ہےاور کسی عضو کے نقش کو ترتیب دینا اس طرح
عمل میں آتا ہے۔استاد کا کام صرف اس ہی قدر تھا لیکن تصویر کا عکس استاد نے اس کے
ذہن میں منتقل نہیں کیا۔وہ اس کے باطن میں پہلے سے موجود تھا۔دوسرے الفاظ میں ہم
اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس کی روح کے اندر نوع انسانی کے ہزار در ہزار خدوخال
محفوظ تھے۔جب اس نے ایک استاد کی راہ نمائی میں ان خدوخال کو کاغذ پر نقش کرنا
چاہا تو وہ تمام نقوش جو ذہن میں موجود تھے کاغذ پر منتقل ہوگئے۔
علیٰ ہذ القیاس مادی فنون کی اس قسم کی ہزارہا مثالیں ہو سکتی ہیں جن سے ہم
ایک ہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور یہ کہ انسان بالطبع مصور، کاتب ، درزی ،
لوہار،بڑھئی ، فلسفی ، طبیب وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اسے کسی خاص فن میں
ایک خاص قسم کی مشق کرنا پڑتی ہے۔اس کے بعد اس کے مختلف نام رکھ لئے جاتے ہیں اور
ہم اس طرح کہتے ہیں کہ فلاں شخص مصور ہوگیا، فلاں شخص فلسفی ہوگیا۔ فی الواقع وہ
تمام صلاحیتیں اور نقوش اس کے ذہن میں موجودتھے۔صرف اس نے ان کو بیدار کیا۔استا د
نے جتنا کام کیا وہ صرف صلاحیت کے بیدار کرنے میں ایک امداد ہے۔
اب ہم اصل مقصد کی طرف آتے ہیں۔جس طرح کوئی شخص مصور، کاتب یا فلسفی ہوتا ہے
اس ہی طرح بالطبع اپنی روح کے اندر ایک عارف، ایک روحانی انسان ، ایک ولی، ایک
خداشناس، ایک پیغمبر خاص قسم کے روحانی نقوش اور خاص قسم کی روحانی صلاحیتیں لئے
ہوتا ہے۔(یہاں کوئی پیغمبر زیر بحث اس لئے نہیں کہ پیغمبری ختم ہو چکی ہے۔صرف
روحانی انسان، اس کا نام کچھ بھی ہو ہمارا مطمحِ نظر ہے)۔
اب ہم صلاحیتوں کا ذکر الف سے شروع کرتے ہیں۔
الف: ایک انسان کیا ہے؟ ہم اس کو کس طرح پہچانتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں؟
ہمارے سامنے ایک مجسمہ ہے جو گوشت پوست سے مرتب ہے۔ طبی نقطۂ نظر سے ہڈیوں کے
ڈھانچے پر رگ پٹھوں کی بناوٹ کو ایک جسم کی شکل و صورت دی گئی ہے۔ہم اس کا نام جسم
رکھتے ہیں اور اس کو اصل سمجھتے ہیں۔ اس کی حفاظت کے لئے ایک چیز اختراع کی گئی ہے
جس کا نام لباس ہے۔یہ لباس سُوتی کپڑے کا ، اونی کپڑے کا یا کسی کھال وغیرہ کا ہوا
کرتا ہے۔ اس لباس کا محلِ استعمال صرف گوشت پوست کے جسم کی حفاظت ہے۔فی الحقیقت اس
لباس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے
تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔یعنی اس کی حرکت جسم سے منتقل ہو کر اس کو ملی ۔لیکن
درحقیقت وہ جسم کے اعضا کی حرکت ہے۔جب ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں تو آستین بھی گوشت پوست
کے ہاتھ کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ یہ آستین اس لباس کا ہاتھ ہے جو لباس جسم کی حفاظت
کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس لباس کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب یہ لباس
جسم پر ہے تو جسم کی حرکت اس کے اندر منتقل ہوجاتی ہے اور اگر اس لباس کو اتار کر
چار پائی پر ڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لٹکا دیا جائے تو اس کی تمام حرکتیں ساقط
ہوجاتی ہیں۔
اب ہم اس لباس کاجسم کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔اس کی کتنی ہی مثالیں ہو سکتی
ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال دے کر صحیح مفہوم ذہن نشیں ہو سکتا ہے۔وہ یہ ہے کہ آدمی
مرگیا۔ مرنے کے بعد اس کے جسم کو کاٹ ڈالئے، ٹکڑے کر دیجئے ، گھسیٹئے ، کچھ کیجئے
۔ جسم کی اپنی طرف سے کوئی مدافعت، کوئی حرکت عمل میں نہیں آئے گی۔ اس مردہ جسم کو ایک طرف ڈال دیجئے تو اس میں زندگی
کو کوئی شائبہ کسی لمحہ بھی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔اس کو جس طرح ڈال دیا
جائے گا،پڑا رہے گا۔اس کے معنی یہ ہوئے کہ مرنے کے بعد جسم کی حیثیت صرف لباس
کی رہ جاتی ہے۔اصل انسان اس میں موجود نہیں رہتا ۔وہ اس لباس کو چھوڑ کر کہیں چلا
جاتا ہے۔جب مشاہدات اور تجربات نے یہ فیصلہ کردیا کہ گوشت پوست کا جسم لباس ہے،
اصل انسان نہیں تو یہ تلاش کرنا ضروری ہوگیا کہ اصل انسان کیا ہے اور کہاں چلا گیا؟
اگر یہ جسم اصل انسان ہوتا تو کسی نہ کسی نوعیت سے اس کے اندر زندگی کو کرئی
شائبہ ضرور پایا جاتا لیکن نوعِ انسانی کی مکمل تاریخ ایسی ایک مثال بھی پیش
نہیں کر سکتی کہ کسی مردہ جسم نے کبھی کوئی حرکت کی ہو۔
اس صورت میں ہم اس انسان کا تجسس کرنے پر مجبور ہیں جو جسم کے اس لباس کو چھوڑ
کر کہیں رخصت ہو جاتا ہے۔ اس ہی انسان کا
نام انبیائے کرام کی زبان میں روح ہےاور وہی انسان کا اصلی جسم ہے۔نیز یہی جسم
ان تمام صلاحیتوں کا مالک ہے جن کے مجموعے کو ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
ذرا زندگی کے مختلف شعبوں اور زاویوں میں یہ تلاش کیجئے کہ وہ حالت جس کا نام
موت یا مردہ ہوجانا ہے ہمیں کہیں ملتی ہے یا نہیں۔اگر یہ حالت قطعی طور پر زندگی
کے کسی مرحلے میں انسان پر طاری نہیں ہوتی تو پھر یہ تلاش کرنا چاہئے کہ اس سے
ملتی جلتی حالت کسی وقفہ میں طاری ہوتی ہے یا نہیں۔
اس کا جواب بہت آسان ہے۔ انسان روز سوتا ہے اور سونے کی حالت میں اس کا جسم
ایک خاص وقفہ کے اندر بالکل لباس کی نوعیت اختیار کر لیتا ہے۔ اس بات کی تشریح ہم
اس طرح کر سکتے ہیں کہ ایک انسان جب گہری نیند میں سوتا ہے،ایسی گہری نیند میں کہ
وہ صرف سانس لے رہا ہے۔ سانس لینے کے علاوہ زندگی کا کوئی اثر اس میں نہیں پایا
جاتا ۔نہ اس کے کسی عضو میں حرکت ہے، نہ اس کا دماغ کسی طرح کا ہوش رکھتا ہے۔ یہ
حال چاہے دو منٹ کے لئے طاری ہو، دس منٹ کے لئے ہو یا ایک گھنٹے کے لئے۔کسی نہ کسی
وقت ہوتا ضرور ہے۔فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ انسان کا جسم سانس لے رہا ہے یعنی اس کے
اندر زندگی کا ایک اثر باقی ہے مگر اور آثار زائل ہو چکے ہیں۔اس حالت کو ہم کسی حد
تک موت سے ملتی جلتی حالت کہہ سکتے ہیں۔
جس کوہم خواب دیکھنا کہتے ہیں ہمیں روح اور روح کی صلاحیتوں کا سراغ
دیتا ہے۔وہ اس طرح کہ ہم سوئے ہوئے ہیں۔تمام اعضا بالکل معطل ہیں۔صرف سانس کی
آمدوشد جاری ہے لیکن خواب دیکھنے کی حالت میں ہم چل پھر رہے ہیں،باتیں کر رہے
ہیں،سوچ رہے ہیں،گم زدہ اور خوش ہورہے ہیں۔کوئی کام ایسا نہیں ہے کہ جو ہم بیداری
کی حالت میں کرتے ہیں اور خواب کی حالت میں نہیں کرتے۔
کوئی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ خواب دیکھنا صرف ایک خیالی چیز ہے اور خیالی
حرکات ہیں، کیوں کہ جب ہم جاگ اٹھتے ہیں تو کئے ہوئے اعمال کا کوئی اثر باقی نہیں
رہتا۔یہ بات بالکل لا یعنی ہے۔ ہر شخص کی
زندگی میں ایک،دو،چار،دس،بیس ایسے خواب ضرور نظرآتے ہیں کہ جاگ اٹھنے کے بعد یا تو
اسے نہانے اور غسل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی ڈراو نا خواب دیکھنے کے بعد اس
کا پورا خوف اور دہشت دل و دماغ پر مسلط ہو جاتا ہےیا جو کچھ خواب میں دیکھا
ہے وہی چند گھنٹے ، چند دن یا چند مہینے یا چند سال بعد من و عن بیداری کی حالت میں
پیش آتا ہے۔ ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنی زندگی میں اس طرح کا
ایک خواب یا ایک سے زائد خواب نہ دیکھے ہوں۔اس حقیقت کے پیش نظر اس بات کی تردید
ہو جاتی ہے کہ خواب محض خیالی حیثیت رکھتا ہے۔جب یہ مان لیا گیا کہ خواب محض
خیال نہیں ہے تو خواب کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔
اب ہم بیداری کے اعمال اور واقعات نیز خواب کے اعمال اور واقعات کو سامنے رکھ
کر دونوں کا موازنہ کرتے ہیں۔
یہ روز مرہ ہوتا ہے کہ ہم گھر سے چل کر بازار پہنچ گئے۔کسی ایک خاص دکان پر
کھڑے ہیں اور ایک سودا خرید رہے ہیں۔اگر اس وقت کوئی شخص ہم سے یہ سوال کرے کہ
دکان پر پہنچنے تک راستے میں آپ نے کی کیا کیا دیکھا تو ہم مجبوراََ یہ جواب
دیتے ہیں کہ ہم نے کچھ خیال نہیں کیا۔
بات یہ معلوم ہوئی کہ بیداری کی حالت میں ہمارے اردگرد جو کچھ ہوتا ہے اگر ہم
پوری طرح متوجہ نہ ہوں تو کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ کیا ہوا، کس طرح ہوا اور کب ہوا؟
اس
مثال سے یہ تحقیق ہو جاتا ہے کہ بیداری ہو یا خواب، جب ہمارا ذہن کسی چیز کی طرف
یا کسی کام کی طرف متوجہ ہے تو اس کی اہمیت ہے ورنہ بیداری اور خواب دونوں کی کوئی
اہمیت نہیں ہے۔بیداری کا بڑے سے بڑا وقفہ بے خیالی میں گزرتا ہے، اور خواب کا بھی
بہت سا حصہ بے خبری میں گزرجاتا ہے۔