Topics

اسمائے قبیحہ



 اصلاح اسماء کے سلسلہ میں آنحضرت  ؐنے ابتداً برے ناموں پر ناگواری کا اظہار فرمایا لیکن بعد ازاں بتدریج لوگوں کو ان کی تبدیلی پر آمادہ کیا اور مختلف مواقع پر انہیں مناسب ناموں سے بدل دینے کا طریقہ اختیار فرمایا ۔ جیسا کے حدیث نبوی ہے۔

 ترجمہ : نبیؐ ہمیشہ برے ناموں کو تبدیل فرما دیا کرتے۔

 اسی طرح طبرانی کی روایت ہے۔

 ترجمہ : رسول اللہ  ؐجب کسی کا برا نام سنتے تو اس سے بہتر نام سے اسے تبدیل فرما دیتے۔

 ناموں کی تبدیلی کے سلسہ میں حضرت ابن عمر ؓ اپنی بہن کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ

 ترجمہ : ان کا نام پہلے عاصیہ تھا جسے حضور ؐ نے تبدیل فرما دیا اور کہا تمہارا نام (عاصیہ نہیں) جمیلہ ہے۔ ممنون اعتبار سے چونکہ عاصیہ کے معنی گناہ گارہ کے تھے اس لئے آپؐ نے اس قباحت کو گوارا نہیں فرمایا اور بدل کر جمیلہ یعنی خوبرو رکھ دیا۔ اسی طرح ایک اور روایت یہ ہے۔

 ” ایک شخص چند لوگوں کے ساتھ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ نے نام دریافت فرمایا تو اس نے کہا احرم ۔ آپؐ نے فرمایا ۔ نہیں تم تو زرعہ ہو۔“

 احرم کے معنی ”کاٹنے والے” کے تھے جس میں ممنون برائی موجود تھی اس لئے آپ نے اس کو زرعہ یعنی ” بولنے والا“ سے تبدیل فرمایا۔ حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ پہلے میرا نام ہبرہ تھا۔ رسول اللہ ؐ نے سُنا تو فرمایا:

 ترجمہ : اپنے آپ کو پاکباز مت بتلاؤ۔ خدا نیکیوں کو خوب جانتا ہے۔

 آپ کے ارشاد پر انہوں نے پوچھا کہ حضور پھر کیا نام رکھیں۔ آپ ؐ نے فرمایا زینب رکھ لو۔ اسی طرح ازواجِ مُطہرات میں سے حضرت جویریہ ؓ کے بارے میں روایت ہے۔

 ”ام المومنین حضرت جویریہ ؓ کا پہلا نام برہ تھا ۔ آنحضرت ؐ نے ان کا نام بدل کر جویریہ ؓ رکھ دیا۔“

 حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی ہے:

 ترجمہ : منذر بن ابی امیہ کو ولادت کے بعد بارگاہ نبویؐ میں لایا گیا۔ آپؐ نے اسے اپنی ران پر بٹھا لیا۔ پھر نام دریافت فرمایا تو کہا گیا فلاں۔ آپ نے فرمایا نہیں اس کا نام منذر ہے۔

 اسی معنی میں ابی داؤد کی ایک روایت یہ ہے۔

 ترجمہ : نبی  ؐعاص ، تملہ ، شیطان، حکم، غراب، حباب اور شہاب کے ناموں کو تبدیل فرما دیا کرتے تھے۔

 حضرت سعید بن المسیبؓ سے ایک روایت یہ ہے جسے بخاری نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا۔

 ترجمہ : میرے دادا جن کا نام حزن تھا ایک بار حضور  ؐکی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت  ؐنے نام دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی حزن۔ آپ  ؐنے ارشاد فرمایا نہیں تم سہیل ہو۔ میرے دادا نے کہا کہ میں اپنے دادا کا رکھا ہوا نام کیسے بدل سکتا ہوں۔ چنانچہ آنحضرت  ؐکے ارشاد کی تعمیل نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے خاندان میں آج تک سختی چلی آئی ہے۔

 نام ہوتا یا کنیت اگر اس میں کوئی قباحت موجود ہوتی تو آپ ؐاس کو تبدیل فرما دیا کرتے تھے جیسا کہ احادیث مندرجہ بالا میں گزرا۔ اسی سلسلہ میں ایک یہ روایت بھی ہے جسے مشکواۃ نے روایت کیا ہے کہ حضرت شریح بن ہاتی کہتے ہیں کہ

 ”میرے والد ہاتی ایک مرتبہ اپنے قبیلہ کے لوگوں کے ہمراہ حضور ؐکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ قبیلہ کا سردار ہونے کی وجہ سے کسی نے انہیں ” ابو الحکم“ کہہ کر مخاطب کیا۔ حضور  ؐیہ سن کر ارشاد فرمایا کہ حکم تو اللہ تعالیٰ ہے ۔ باقی یہ لوگ تمہیں ابوالحکم کیوں کہتے ہیں۔ اس پر میرے والد نے کہا کہ میں برادری کے معاملات میں ان کا فیصلہ کرا دیتا ہوں۔ آپ ؐنے فرمایا یہ تو تم اچھا کرتے ہو لیکن اپنی کنیت ابو الحکم کے بجائے اپنے بڑے بیٹے کے نام پر رہو شریح رکھ لو۔

  ناموں اور کنیتوں کی تبدیلی کے علاوہ احادیث میں حضرت عمرؓ سے یہ روایت بھی ملتی ہے جیسا کہ للوی نے اسے شعبیؓ سے روایت ہے کیا ہے۔

 ”حضرت عمر ؓ حضرت مسروقؓ سے ان کے والد کا نام پوچھا۔ وہ بولے اجدع۔ آپ نے فرمایا اجدع تو شیطان کا نام ہے تم مسروق بن عبدالرحمان ہو۔

 جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ان کے والد کا نام بھی تبدیل فرمایا حالانکہ ان کے والد موجود نہ تھے۔ چونکہ والد کا نام ہر جگہ بولا جاتا ہے اس لئے اگر وہ بھی قبیح ہو تو اس کا بدل دینا بھی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے۔ بہرحال مندرجہ بالا احادیث و روایت سے جن ناموں کا تبدیل کرنا سنت ثابت ہوا وہ یہ ہیں۔

 عاصیہ ۔ احرم۔عاص۔ عتلہ۔ شیطان۔ ابواحکم۔ غراب۔ حباب۔شہاب۔حزن اور مرہ واجدع اور ان کے قبیح ناموں کو جن ناموں سے تبدیل فرمایا وہ یہ ہیں۔

 جمیلہ ۔ زرعہ۔ زینب۔ جویریہ۔ منذر۔ سہل۔ عبدالرحمان ۔ ابو شریح

ممنوعہ نام

 جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں آنحضرت  ؐسے بعض اسمائے قبیحہ کا تبدیل فرما دینا ثابت ہوتا ہے۔ بعض دوسری احادیث سے بعض ناموں کو رکھنے سے بالصراحت آپ کا منع فرما دینا بھی ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ آپ  ؐنے فرمایا ہے:

لانحین ان یسمی رافع وبرکہ ویسار

 ترجمہ : اپنے بچے کا نام رباح، افلم، یسار اور بخیح نہ رکھا کرو۔ کیونکہ کہا جائے گا کہ وہ یہاں ہے پھر جواب دیا جائے گا کہ نہیں۔

 گزشتہ ہر دو احادیث میں آپ  ؐجن ناموں کو رکھنے سے منع فرمایا ہے ان کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے اسمائے قبیحہ کی طرح اگرچہ ان میں کوئی معنوی قباحت موجود نہیں ہے بلکہ معنوی اعتبار سے یہ سب کے سب نام احسن ہیں لیکن ان ناموں کو جس وجہ سے آپ  ؐنے رکھنے سے منع فرمایا وہ بھی آپ ؐنے واضح فرمایا ہے کہ ان ناموں کو رکھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ روز مرہ بول چال میں جب کسی کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یہاں ہے تو اگر وہ موجود نہ ہوا تو جواب دیا جائے گا کہ رباح(فائدہ دینے والا) یا افلم (نجات والا) یا بخیح (کامیاب) یا لیمہار (راحت) یا برکت یہاں نہیں ہے لہذا اس ممکنہ استعمال اور مواقع استعمال کی قباحتوں کو سامنے رکھ کر آپ ؐنے ان ناموں کو رکھنے سے مطلقاً منع فرما دیا۔

 ممنوعہ نامو ں کی فہرست میں جس نام کو رکھنے پر آپ ؐنے سخت تنبیہ فرمائی ہے وہ آپ کے الفاظ میں یہ ہیں۔

 ترجمہ : قیامت کے دن خدا کے نزدیک حد درجہ قابل ملامت وہ ہوگا جس کا نام ملک الاملاک رکھا جائے کیونکہ خدائے تعالیٰ کے سوا اس جہاں کا کوئی مالک نہیں۔

 اسی روایت کو بخاری نے ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے کہ آنحضرت  ؐنے ارشاد فرمایا کہ

 ترجمہ : خوار تر اور بدتر ناموں میں قیامت کے دن اس مرد کا ہوگا جس کا نام ملک الاملاک ( یا شہنشاہ) رکھا جائے۔

مشرکانہ نام:

 اسلامی تعلیمات کی رو سے ایسے تمام نام رکھنا حرام ہے جو کفر و شرک پر مبنی ہوں یا ان سے معبود ان باطل کی عبدیت اور اطاعت یا ان کی قدرت و کبریائی کا اظہار ہوتا ہو۔ چنانچہ ان کی حرمت تمام ائمہ اور جمہور علمائے اسلام کے نزدیک مسلم ہے۔ جیسا کہ صاحب مخص الاانوار نے بیان کیا ہے۔

 ترجمہ : تمام علماء نے اس بات سے اتفاق کیا جس کا نام اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا بندہ ہونا ثابت ہو وہ قطعی حرام ہے جیسے عبد عمر یا عبد الکعبہ ۔ اسی طرح موہم شرک نام رکھنا بھی علمائے اسلام کے نزدیک کفرہے۔ لہذا نام کسی بھی لفظی ، صوتی یا معنوی حیثیت سے خلاف عقائد اسلامی نہ ہونا چاہیئے تا کہ نام رکھنے اور اس کے استعمال کرنے والے گناہ سے محفوظ رہ سکیں۔

ملائکہ پر نام:

 ارشاد نبوی  ؐہے کہولا لسمو باسما ۔ الملئکۃ( بروایت جابر بن عبد العزیز) کہ ملائکہ کے ناموں پر نام نہ رکھو چنانچہ ملائکہ کے ناموں مثلاً جبرائیل ، میکائیل وغیرہ کے ناموں پر مبنی نام نہ ہو تو دور نبوی ؐمیں رکھے گئے نہ ان کا رکھنا معلوم ہوا اور نہ ہی دور صحابہ کرام یا اس کے بعد کے ادوار میں کبھی کسی نے اپنے بچوں کے نام ملائکہ کے ناموں پر رکھے۔جیسا کہ لغوی کی ایک روایت بھی ہے:

 ”حمید بن زنجیر ہ سے مروی یہ کہ حضرت عمر فاروق ؓ ملائکہ کے نام رکھنے کو ناپسند فرماتے تھے۔

(راوۃ لغوی۔ واز الر افضا)

متکبرانہ نام:

 ایسے نا م بھی شریعت اسلامی کی رو سے درست نہیں قرار دئے گئے ہیں جو تکبر اور تعلی کے طور پر رکھے گئے ہوں۔ جیسا کہ سابقہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ ؐنے ”مبرہ“ جیسے ناموں کو تبدیل فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ

 ”اپنے آپ کو پاکباز اور نیک مت بتلاؤ کیونکہ خدا نیکیوں کو خوب جانتا ہے۔“  (راوہ مسلم۔ وابی داؤد )

 اسی طرح ابولحکم۔ ملک الاملاک وغیرہ کے متکربانہ نام نہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

مہمل یا نامعلوم المعانی نام

 ناموں کے معاملہ میں جو احتیاط شریعت مطہرہ اسلامیہ نے روا رکھی ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسے نام رکھنے سے بھی گریز کیا جائے جو مہمل ہوں یا ان کے معانی کی تحقیق نہ ہو۔ چنانچہ ایسے ناموں میں بعض وہ نام بھی شامل ہیں جن کا تعلق قرآن مجید میں آئے حروف مقطعات سے ہے۔ مثلاً طہ اور یسین وغیرہ ۔ چونکہ حروف مقطعات کے معانی کا قطعی علم کسی کو نہیں ہے اور معانی کا حتمی علم نہ ہونے کی وجہ سے ان پر نام رکھنا مصلحت اندیشی کے منافی ہے جیسا کہ امام ابو بکر بن العربی نے اس مسئلہ کے بارے میں لکھا ہے۔

 ترجمہ : اشہب نے مالک سے روایت کیا کہ کوئی بھی یسین نام نہ رکھے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالٰی کا نام ہے اور وہ بدیع کلام ہے۔ اگر چہ یہ جائز ہے کہ بندہ اپنے رب کے ساتھ نام رکھے لیکن اسی وقت جب کہ اس کے معنی کا علم ہو۔ جیسے عالم اورقادر اور مالک کا اس نام سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایسے ناموں میں سے ہے جن کے معنی معلوم نہیں ہیں، شاید اس کی معنی ایسے ہوں جس سے اللہ تعالیٰ منفرد ہے لہذا جسے پہچانتا نہ ہو اس کو اس پر اقدام نہیں کرنا چاہیئے۔ اس لئے کہ اس میں خطرہ پس اس کے نظری ہونے کا تقاضہ منع ہے۔

 ان حروف مقطعات پر نام رکھنے میں چونکہ یہ احتمال موجود ہے کہ ممکن ہے ان کے معنی کچھ اس طرح کے ہوں جو خدا اور رسول کے علاوہ غیر پر صادق نہ آتے ہوں اور نہ ہی یہ سب مناسب ہے کہ ان سے قبل یا بعد محمد یا احمد وغیرہ لگا کر نام رکھا جائے۔ کیونکہ اگر نام کے معنی ذات اقدس سے ہی منسوب و مختص ہوئے تو کسی دوسرے کے لئے کیسے درست ہو سکتے ہیں ۔ بہرحال نام رکھنے سے پہلے ان کی مخصوص تحقیق کر لینی چاہیئے تاکہ ان کے حسن و قبح اور جواز عدم جواز کی جانچ کی جائے۔

ناقص نام:

 ناقص ناموں سے مراد وہ نام ہیں جن کے معنی میں کسی قسم کاتناقص پایا جائے یا ان کے معانی تعلیمات اسلامی کے منافی ہوں۔ مثلاً غفور الدین کا نام ناقص اس لئے ہے کہ غفور جو اسمائے باری تعالیٰ میں سے ہے اس کے معنی ہیں مٹانے والا(ذنوب کا) یا چھپانے والا (عیوب کا) اس لحاظ سے اس نام کے معنی دین مٹانے والا یا دین پوش کے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ نام ناقص اور شنیع ہے اسی طرح اگر نام قاسم الا سلام یا قاسم الحق یا قاسم الدین ہو تو اس کے معنی اسلام حق یا دین کو تقسیم کرنے والا ہوں گے۔ اس لئے اس نام کے شنیع ہونے میں بھی کوئی کلام نہیں ہے اسی طرح اگر کسی کا نام عبدالدین یا عبد السلام ہو تو دین اسلام کا بندہ ہونا کس طرح درست ہوگا۔

 غلام علی یا غلام حسن وغیرہ کے نام درست صحیح لیکن ان سے پہلے اگر محمد اور احمد لگا کر نام محمد غلام علی یا احمد حسن رکھا جائے تو نام کی حلت حرمت سے بدل جائے گی۔ محمد رمضان یا محمد یامین وغیرہ کے نام بھی شانِ رسالت کے منافی اور تکسیرِ شان کے موجب ہیں۔

 ان کے علاوہ بے شمار نام ایسے رائج ہیں جن میں نہ کوئی صوتی ہم آہنگی ہے اور نہ ہی کوئی معنوی ربط، بلکہ بعض نام تو مضحکہ کی حد تک ناقابلِ فہم اور غلط ترکیب پر مبنی ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ نام انسان کے شایان شان نہیں ہوتے اس لئے ان کے انتخاب کے وقت ان کے معانی و ان کی ترکیب اور ساخت وغیرہ پر نظر رکھنی چاہیئے۔ چنانچہ مندرجہ ذیل ناموں کا جائزہ لیا جائے تو یہ سب کے سب نام قابلِ اصلاح ہیں۔

 تکہ خان ۔ رجعت آرا۔ صنوبر ۔ جہاں۔ حنا خانم۔ رطب النہار ۔ شمع صبہوحی

  اسی طرح بعض ناموں کا نقص یہ ہوتا ہے یا تو وہ صفات انسانی کے برعکس ہوتے ہیں یا معنوں کے اعتبار سے ناپسندیدہ اور قبیح ہوتے ہیں ۔ اس لئے تمام نام شریعت مطہرہ کے نزدیک ناقص اور قبیح ہیں۔ جیسا کہ ارشاد نبوی ؐہے۔

 ترجمہ : ناموں میں سب سے برے نام حرب اور مرہ ہیں۔

 حرب کا تعلق چونکہ لڑائی اور جھگڑے سے ہے اور مرہ کا تعلق ذائقے کی کڑواہٹ اور تلخی سے ہے اس لئے یہ دونوں نام معنوی حسن سے خالی اور سخت ناگوار ہیں لہذا ایسے تمام نام جن میں کوئی ایسی معنوی قباحت پائی جائے ناقص شمار ہوں گے۔

ظالمین و حاشرین کے نام:

 ایسے ظالم و بدکار اشخاص جن سے اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا ہو یا جنہوں نے انسانوں پر سخت مظالم توڑے ہوں ۔ ان کے نام ہمیشہ کے لئے اچھے ناموں کی فہرست سے خارج کر دیئے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان سے ظلم و بربریت کی یاد تازہ ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ ان کے اعمال کا صلہ کم از کم یہی ہو سکتا ہے کہ ان کو نہایت نفرت کے طور پر بھلا دیا جائے اور ان کے ناموں کو بھی زندہ نہ رہنے دیا جائے تاکہ آئندہ کے لئےہر ظالم کو عبرت حاصل ہو۔اس لئے اگرچہ معنوی اعتبار سے نام کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اگر اس سے کوئی ایسی انسانیت سوز یا وبستہ ہو جائے تو ایسے ناموں کو متروک سمجھنا چاہیئے اور انہیں اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ امر مسلمہ ہے کہ ایسے ناموں کو وہی اختیار کر سکتا ہے جو خود ظالم و حاشر ہو اور تمام انسانوں سے عداوت رکھتا ہوں نیز تاریخ انسانی کو جھٹلا کر اپنی الگ رائے رکھتا ہو اس لئے تمام ظالموں کے ناموں کو معیوب اور برا تصور کرنا چاہیئے۔


 


Naam Aur Hamari Zindagi

Shafiq Ahmed


 نام تشخص کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے ان کے ذریعے ایک دوسرے سے متعارف ہونے کا سلسلہ ابدی ہے۔اس کثرت اور عمومیت کی وجہ سے شاید بھول کر بھی کبھی یہ خیال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ نام کی بھی کوئی اہمیت ہے۔ صرف انسان ہی نہیں، اس کائنات کی ہر چیز کا کوئی نہ کوئی نام ہے۔ یہ سب کے سب نام انسانی زبانوں میں ہیں۔ انسان ہی ان کو مقرر کرتا ہے اور ان کو حافظے میں محفوظ رکھتا ہے۔ نیز وہی ان سے مستفید ہوتا ہے۔ یہی نہیں بحیثیت مجموعی اس پوری کائنات کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان ہی اس کائنات کا جزو اعظم ہے۔ اور شاید اسی لئے اس کائنات سے اس کا تعلق بھی نہایت گہرا ہے۔ لیکن یہ تعلق کیا ہے اور نام سے انسان کی غیر معمولی وابستگی کی وجہ کیا ہے؟یہ معلوم کرنے کے لئے ہمیں انسان اور کائنات کے موضوع کا مطالعہ نہایت گہری نظر سے کرنا ہوگا۔