زندگی ظاہر اور باطن میں تقسیم ہے اور تین دائروں میں گزرتی ہے۔ ظاہری کیفیات کا انحصار باطن پر ہے۔ باطن میں حرکت پیدا ہوتی ہے تو اندر باہر جسمانی نظام حرکت میں آتا ہے۔ جسم میں خون کی روانی بظاہر نظروں سے مخفی ہے لیکن یہ باطنی کیفیت نہیں۔ باطنی کیفیت خون کی روانی کو حرکت میں رکھنے والی توانائی ہے جو نظر نہیں آتی۔ حرکت میں ظاہر ہوتی ہے۔
جسمانی اعضاء میں جو نظام سرگرم عمل ہے وہ بھی ایک طرح سے ظاہر کے زمرہ میں آتا ہے کیوں کہ کوئی بھی نظام خود سے حرکت میں نہیں، حرکت کہیں سے آرہی ہے۔ حرکت کا آنا جسم میں تحریک اور حرکت کا محرک سب باطن ہے۔
ہم باطن اس کو کہتے ہیں جو محدود نگاہ سے نظر نہیں آتا ورنہ کائنات میں جو کچھ تخلیق کیا جا چکا ہے سب ظاہر ہے۔یہاں تک کہ مخلوقات کو حواس عطا کر کے اللہ تعالیٰ نے اپنا دیدار کرایا ہے۔ظاہر اور باطن کا تعلق فرد کی فہم سے ہے۔
تعارف کا مرحلہ خیال سے شروع ہوتا ہے اور خیال آواز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو مخاطب کیا تو سب سے پہلے مخلوق آواز سے مانوس ہوئی۔متوجہ کرنے کے لئے آواز دی جاتی ہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو سن نہیں سکتے وہ بول نہیں سکتے۔جو سن نہیں سکتے ان کے ذہن میں مخاطب کی آواز کا تصور نہیں بنتا۔ سوال ہو سکتا ہے کہ ضروری نہیں ہر گونگا بہرا شخص اندھا بھی ہو۔ بات یہ ہے کہ وہ گونگا بہرا ضرور ہے لیکن اندر کی آواز سے واقف ہے اور اسے سنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اشاروں میں بات سمجھائی جاتی ہے۔ چوں کہ وہ اندر کی آواز سے واقف ہے اس لئے اشاروں میں بات سمجھ لیتا ہے۔
قانون خیال۔۔۔۔ آواز ہے اور آواز تعارف کا سبب ہے۔ اس کے دیگر حواس متحرک ہوتے ہیں۔
انسان کے ذہن کی وسعت کائنات کی وسعت کے برابر ہے۔ وسعت کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب ذہن کے خوابیدہ گوشے اطلاع ذہن میں داخل ہونے سے حرکت میں آتے ہیں۔ اطلاع کے نزول کا ابتدائی مرحلہ واہمہ ہے، شعور اس کے دباؤ کو محسوس نہیں کرتا۔ دباؤ میں اضافہ سے شعور اطلاع کی وائبریشن کو محسوس کرتا ہے اور اس جانب متوجہ ہو جاتا ہے۔ توجہ سے تصور بنتا ہے، گہرائی پیدا ہونے سے تصور میں موجود احساس غالب ہوتا ہے اور قبول اور رد کرنے کے عمل کا مظاہرہ ہوتا ہے۔توجہ طلب ہے کہ احساس تصور میں موجود ہے۔ اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ قبولیت ہوتی ہے تو تصور کا دوسرا رخ مغلوب رہتا ہے اور ذہن تقسیم نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس رد ہونے کی صورت میں تصور میں پنہاں مغلوب رخ غالب ہو جاتا ہے۔ چوں کہ فرد تصور میں ابتدائی طور پر غالب رخ سے واقف ہو گیا تھا اس لئے رد کرنے کی صورت میں جب دوسرا رخ غالب ہوا تو اس کا ذہن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ضمیر کی آواز پر عمل کر کے خیال کو سنا جائے تو ذہن تقسیم نہیں ہوتا۔ تقسیم کا مطلب ٹوٹ پھوٹ، شک، بے یقینی اور کم زوری ہے۔
والہ:۔پیراسائیکلوجی۔ جولائی 2019۔ماہنامامہ قلندر شعور