Topics
ایک ذات
کاربن قدرت کے طریقہ کار پر اتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہے کہ وہ انہی ایٹموں کو جمع کرے گا جس سے اگر کیڑا بنے گا تو کیڑے کی نسل بھی انہیں ایٹموں سے بنے گی۔ یہ قدرت کا راز ہے کہ نسل میں ایک دوسرے کے عکس کیوں ہوتے ہیں؟ اس طرح جب کسی پرندے کو پیدا کرے گا تو انہی ایٹموں سے پیدا کرے گا جو ضروری ہیں۔ اور اسے بنانے والے ایٹموں کی ایک نسل تیار ہو جائے گی۔ جو وہ ایک کاربن کے مرہون منت ہیں۔
یہ جملہ معترضہ بیچ میں اس لئے آیا کہ آپ یہ نہ بھولیں کہ یہ سب اسپیس کی تفصیل ہے۔ یعنی کہ کاربن کی کیفیات سب کی سب اور کاربن کا کرشمہ اور تمام اشکال سب کے سب اس طرح استعمال ہوں گے کہ جس سے آدم بنتا ہے اور آدم کی نسل بنتی ہے یا درخت بنتا ہے اور درخت کی نسل بنتی ہے یا پودا بنتا ہے اور پودے کی نسل بنتی ہے۔
یہ تمام اشکال اسپیس کے اندر ہی پرورش پاتی ہیں اور اسپیس ہی ان کی کئی شکلوں میں ڈائی مینشن پیدا کرتی ہے۔ اگرچہ ان کے ڈائی مینشن ایٹم اور مالیکیول (MOLECULES) کے اندر ہوتے ہیں مگر ان کو اکٹھا کرنے والی اسپیس ہی ہے جس میں کاربن کی مدد بھی شامل ہوتی ہے۔ اسپیس اور کاربن جو ایٹم اور مالیکیول آدم کی بناوٹ میں استعمال کئے تھے انہیں کو آدم کی نسل کی بناوٹ میں بھی استعمال کرتے رہیں گے۔ یہ قدرت کی مصلحت ہے اور میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
ایٹم حقیقت میں ایک (BEHAVIOUR) ہے اور کاربن بھی اسی طرح برتاؤ کرے گا جیسے دوسرے ایٹم کرتے ہیں۔ کاربن چھٹا ایٹم ہے اور اس کا جال بنتا ہے۔ اس کے جال میں ایک طرف ایٹم قید ہوتا ہے تو دوسری طرف فوٹان بندش میں ہوتا ہے۔ آپ کو یہ یاد ہو گا جو بات میں نے پہلے بتائی ہے کہ عارض کی ایک قسم ایسی ہے جو کاربن کے جال کے ساتھ چلتی ہے۔ اب کاربن کا جال اور یہ عارض مل کر شاہد‘ مشہود ناظر اور منظور بنتے ہیں۔ اب جتنے عارض ہیں سب شہود، منظور کی شکل اپنا لیتے ہیں۔ مشہود۔منظور سے یہاں مراد خلاء یا منظر ہے جو ایک دوسرے کو الگ کرتا ہے۔ باقی جو ایٹم ہیں وہ کاربن کے جال میں قید ہیں۔ اب عارض جو خلاء کے جال کی شکل میں دکھائی دیتا ہے وہ بھی کاربن کے جال میں قید ہے۔ اب صرف وہ عارض کا میدان ہے جسے ہم خلاء یا اسپیس کہتے ہیں۔ مگر سائنس اس جگہ کو اسپیس کہتی ہے جہاں زمین کی کشش کام نہ کرتی ہو۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے اور اس میدان میں ہر قسم کے عارض جمع ہوتے ہیں اور کاربن کے جال میں مقید ہوتے ہیں۔ انہی ایٹموں کے مجموعہ سے پہاڑ بنتا ہے۔ سمندر بنتا ہے، زمین بنتی ہے، مکان بنتے ہیں، درخت بنتے ہیں، جانور بنتے ہیں، انسان بنتے ہیں، یہاں تک کہ ستارے، سیارے اور سیاروں کے نظام بنتے ہیں، ہر اقسام کی چیزیں انہیں ایٹموں سے بنتی ہیں۔ پھر چاہے وہ قدرتی بنی ہوئی ہوں یا انسان کی بنائی ہوئی ہوں، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں خود کو ’’احسن الخالقین‘‘ فرمایا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے علاوہ اور بھی خالق ہیں اور یہ انہی چیزوں سے متعلق ہیں جو انسان اور ایٹم کی بناوٹوں سے ہوتی ہیں۔
بات یہ ہے کہ سب کے سب ایٹم کاربن کے جال میں قید ہیں اور جو عارض کے خلاء کی شکل میں نظر آتے ہیں وہ بھی کاربن کے جال میں جڑے ہوئے ہیں کیونکہ عارض میں ڈائی مینشن نہیں ہوتے۔ اس لئے وہ نیچر(قدرت) میں مختلف شکلیں بناتا ہے۔ یہاں تک کہ شکلوں کی پوری نسل اس سے پرورش پاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک محل تھا، کچھ عرصہ کے بعد محل کی جگہ کھنڈر رہ گیا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد اس ہی کھنڈر کی جگہ ایک محل بن گیا۔ اس ہی طرح نسلوں کا بڑھنا ہے۔
اب رہے رنگ، یہ بالکل اسی طرح بنتے ہیں جیسے ایک منشور(PRISM) کے سامنے کھڑے رہنے سے انسان کے کپڑوں کا رنگ مختلف نظر آتا ہے۔ اگر کپڑے سفید ہوتے ہیں۔ انسان کی شکل و صورت بھی چھوٹی بڑی نظر آتی ہے حالانکہ اس قد کی نہیں ہوتی۔ مگر اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ جو قد ہمیں نظر آتا ہے وہی فرد کا اصل قد ہے۔ بالکل اسی طرح خلاء میں جتنے عارض موجود ہیں سب مل کر ایک میدان بناتے ہیں، یہ میدان ایک پرزم یا منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔
جب آپ اس میدان میں کھڑے رہ کر دیکھیں گے تو دور کی چیزیں چھوٹی اور نزدیک کی چیزیں بڑی نظر آئیں گی۔ اسی طرح نزدیک کی چیزوں کا رنگ الگ ہو گا اور دور کی چیزوں کے رنگوں میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور دیکھنے میں آئے گا۔ حقیقت میں یہ اسپیس کا کرشمہ ہے۔ حالانکہ ہم اسے صرف روشنیاں سمجھتے ہیں، کبھی ہمارے دماغ میں یہ بات نہیں آتی کہ یہ میدان ایک پرزم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم اسے اجالا کہیں یا اندھیرا کہیں یا دونوں کی درمیانی حالت۔ اس طرح پرزم کی تین حالتیں ہوئیں۔ ایک روشن جس میں روشنی اور زیادہ روشنی ہوتی ہے۔ درمیانی حالت جس میں تھوڑی روشنی اور تھوڑا اندھیرا ہوتا ہے۔ تیسری حالت جس میں اندھیرا اور زیادہ اندھیرا ہوتا ہے۔ زیادہ اندھیرے میں ان دیکھی طاقت کے خوف کی اسپیس زیادہ ہوتی ہے۔ درمیانی حالت میں خوف کی اسپیس صرف اندھیرے کی حس میں ہوتی ہے اور وہ بھی کم اور روشنی کی حالت کم ہو یا زیادہ، دونوں میں امید کی اسپیس زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل پہلے ہو چکی ہے۔ وہ زیادہ تر سلسلہ وار ہوتی ہے۔ اس کا سلسلہ وہاں ٹوٹتا ہے جہاں درمیانی حالت آئے یا تیسری حالت ہو جائے اور اس اسپیس کا نام نیند ہے۔ اس اسپیس میں جو کچھ شاہد اور مشہود، ناظر اور منظور کے درمیان میں آتا ہے اسے خیال کہتے ہیں۔ حالانکہ ناظر اور منظور زیادہ ایٹموں کے مجموعہ کا نام ہے۔ ایک اور صورت یہ ہے کہ ایٹم کے (BEHAVIOUR) میں جو کہ انڈے کی شکل میں ہوتی ہے، ایک (BEHAVIOUR) الیکٹرون ہے۔ وہ الیکٹرون جب اپنی حد سے باہر قدم رکھتا ہے اور اس کی جگہ باہر سے الیکٹرون آتا ہے تو نظر میں فرق آ جاتا ہے۔ یعنی کاربن کا جال پھیل جاتا ہے اور ایسا مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ اس کا اثر دماغ تک پہنچتا ہے۔ دماغ کے (GATES) اس سے اوپن اور کلوز ہوتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جن خیالوں کے (GATES) کھلے ہوتے ہیں وہ بند ہو جاتے ہیں اور جو بند ہوتے ہیں وہ کھل جاتے ہیں۔ اس طرح خیالات میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور انسان کی سوچ کے طریقے بدلتے رہتے ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک خیال قریب کاآیا اور ایک خیال بہت دور کا آیا۔ اس میں ماضی اور مستقبل کی شرط نہیں ہے۔ کچھ خیالات کا سلسلہ ماضی سے شروع ہوتا ہے اور زمانہ حال تک آتا ہے۔ کچھ خیالات کا سلسلہ ماضی سے شروع ہو کر مستقبل تک پہنچتا ہے۔ کچھ خیالات مستقبل سے ماضی کی طرف لوٹتے ہیں اور کچھ خیالات مستقبل سے ماضی کی طرف لوٹتے ہیں اور کچھ خیالات حال سے ماضی کی طرف آتے ہیں۔ کچھ خیالات صرف ماضی میں مقید رہتے ہیں۔ کچھ خیالات زمانہ حال میں مقید رہتے ہیں۔ کچھ خیالات مستقبل میں مقید رہتے ہیں۔ یہ سب (GATES) کے اوپن کلوز ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ایک گیٹ سامنے کے خیالات کا کھلتا ہے تو فوراً دوسرا گیٹ ان خیالات کا کھلتا ہے جس کا پہلے گیٹ سے کچھ بھی رشتہ نہیں۔ درمیان میں جو وقت لگتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں خیالات ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بالکل تعلق نہیں رکھتے۔ یہ کاربن کے اس جال کی وجہ سے جس میں عارض کا فاصلہ زیادہ ہے یعنی کچھ عارض ایسے ہیں جن کا تعلق آج سے سوا تین ہزار سال پہلے سکندر اعظم کے زمانے سے ہے اور دوسرے پل میں ہمارے اطراف جو عارض کے فاصلہ سے اتنا بڑا میدان بن جاتا ہے جو سکندر اعظم کے زمانے سے لے کر آج تک چھایا ہوا ہے۔ آپ اس سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ٹائم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ٹائم صرف دھوکا ہے‘ فریب ہے اور ٹائم اسپیس کے ساتھ منسوب ہے۔ حالانکہ سکندر اعظم کے زمانہ کا جہاں تک تعلق ہے وہاں تک ایک اسپیس شاہد۔ ناظر کو مل جاتی ہے اور ان ان چیزوں کا تصور کر سکتا ہے جو اس زمانہ میں تھیں یا ہو سکتی تھیں۔ بالکل جیسے کہ ایک آرٹسٹ ایک فرضی شخص بناتا ہے۔ مگر ہم اسے شخص کہیں گے فرضی شخص نہیں کہیں گے۔ اگر ایک گوشت پوست کا بنا ہوا گھوڑا آپ کے سامنے لایا جائے اور ایک گھوڑے کی تصویر تو آپ دونوں کو گھوڑا کہیں گے۔ آپ ایسا نہیں کہیں گے کہ یہ گوشت پوست کا گھوڑا ہے اور یہ گھوڑے کی تصویر ہے یہ صرف اسپیس کا کرشمہ ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اسپیس آپ کو یہی بتاتی ہے۔ یہاں اسپیس سے مراد سوچنے کی اسپیس‘ دیکھنے کی اسپیس اور چھونے کی اسپیس تینوں جمع ہو جاتی ہیں۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ گھوڑا ہے تو سننے والا‘ دیکھنے والا کسی کو تعجب نہیں ہوتا اور نہ کوئی اعتراض کرتا ہے۔
ایک عارض سے دوسرے عارض کا فاصلہ کئی ہزار سال تک ہو جاتا ہے۔ اور ایک عارض سے دوسرے عارض کا فاصلہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہ کچھ سلسلہ وار عارض ہیں جو خیالوں کو ملاتے ہیں۔ جب ہمیں ایسا لگتا ہے کہ سکندر اعظم کے خیال سے یکدم ایک دوست کا خیال کیسے آیا؟ اس سے ہمیں بہت تعجب بھی ہوتا ہے کبھی کبھار ایک عارض کا فاصلہ دوسرے عارض میں اسپیس کے اندر اتنا ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان کے زمانے سے اس موجودہ پل تک پہنچ جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ فاصلہ لاکھوں برس کا ہو، مگر کاربن کے جال میں دونوں عارض ملے ہوئے ہوں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہیں کہ ٹائم اسپیس سے منسوب ہے۔
ٹائم کا کوئی ڈائی مینشن نہیں۔ ہر اسپیس کا ٹائم الگ ہوتا ہے۔
ٹائم بذات خود کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ فاصلہ جو وہ ایک ہزار سال میں COVERکرتا ہے اور وہ فاصلہ جو موجودہ سیکنڈ میں ہے ان میں صرف دو عارض کا فرق ہوتا ہے۔ یہ کاربن کے جال میں اسپیس کے اندر پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ دماغ کے GATESکے اندر اتر جاتا ہے۔ جس وقت کا جو عارض ہے وہ اپنا وقت آگے کرتا ہے۔ پھر چاہے وہ وقت کروڑوں سال پرانا ہو۔ یہ کروڑوں سال اس عارض میں ریکارڈ ہیں۔ میں نے پہلے عارض کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ جس جگہ سے جس پل میں چلتا ہے اسی جگہ اس پل میں کائنات کا چکر پورا کر کے پہنچ جاتا ہے۔ اگر وہ ہمارے دماغ کے کسی گیٹ کے پاس سے گزرتا ہے تو اپنا زمانہ ہمارے حافظہ کی اسپیس میں چھوڑ جاتا ہے۔ دیگر الفاظ میں وہ ہمارے حافظہ کی اسپیس میں ریکارڈ ہو جاتا ہے اور جب ہم چاہتے ہیں تحت الشعور اسے واپس کر دیتا ہے یعنی ہمیں یاد آ جاتا ہے۔
ہمارے سیاروں میں سورج کھربوں سال پرانا ہے۔ اس کے دو رخ ہیں، ایک ناظر اور ایک منظور۔ ایک طرف ہمارے دماغ کی نظر ہمارے دماغ کے پردے پر پڑتی ہے جو ایک رخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے شروع میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ کاربن کا جال پوری کائنات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ یہ صرف حافظہ کی اسپیس ہے۔ یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ کاربن کے جال کے ساتھ حافظہ بھی بنتا ہے۔ ایک رخ پر کاربن کا جال ہے، دوسرے رخ پر حافظہ کی اسپیس ہے۔ یہ بات رہ جاتی ہے کہ کائنات کی حیثیت کیا ہے؟ اس بات کو خواجہ باقی بااللہ نے وحدت الوجود کہا ہے۔ یہ جملہ قابل اعتراض ہے۔ میں نے درمیان میں یہ بتایا تھا کہ تا کہ لوگوں کا ذہن وحدت الوجود کو سمجھ سکے۔
حضورقلندربابااولیاء
پیش لفظ
سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔
ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔
نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔
یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔
قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا