Topics

مناظر

ہر چیز کے ڈائیمینشن اسپیس میں ہوتے ہیں چاہے درخت ہو، جانور ہو یا انسان ہو، پرندہ ہو، زمین ہو، سیارہ ہو، خلائی دنیا ہو کچھ بھی ہو وہ ہماری آنکھوں کی اسپیس اور مناظر کی اسپیس دونوں کو مل کر بنتا ہے۔

یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اندھیرے میں کچھ لوگوں کو کچھ مناظر نظر آتے ہیں۔ یہ مناظر اندھیرا اور آنکھوں کی اسپیس سے بنتے ہیں، کبھی کبھار مناظر دن میں جاگنے کی حالت میں بھی نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے مگر ہوتا تو ضرور ہے۔ اندھیرے میں یا اجالے میں یہ چیزیں پردے کے پیچھے نظر آتی ہیں۔ یہ ڈر، خوف، امید یا آس پر معلق ہیں۔ اگر کوئی شخص اکیلا جنگل سے گزرتا ہے اور کسی جگہ پر اسے اکیلے پن کا احساس ہوتا ہے تو اس کی آنکھوں میں خوف کی اسپیس بن جاتی ہے۔ اسے اندھیرے میں ایسے ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں جو ظاہری طور پر ہستی نہیں رکھتے۔ خوف کی اسپیس میں اتنی گہرائی پیدا ہو جاتی ہے کہ جو شکل نظر آتی ہے وہ واضح اور ڈائی مینشن کے ساتھ ہوتی ہے۔ اسی طرح امید کی اسپیس میں بھی ویسی ہی گہرائی ہوتی ہے جو جاگنے کی حالت میں اجالے میں واضح مناظر دکھاتی ہے۔

وہ امید کی اسپیس ہے جو نسلوں کو جنم دیتی ہے۔ درخت اور پتوں کو اگاتی ہے، سیاروں اور ستاروں کو آنکھوں کے سامنے لاتی ہے۔ 

امید کی اسپیس مقابلتاً خوف کی اسپیس سے زیادہ طاقتور ہے۔

جب ہمارے دماغ میں امید کی اسپیس پیدا ہوتی ہے تو بینائی نظر کو اس طرح پھراتی ہے کہ درختوں میں پھول اور پھلوں میں رنگ نظر آتے ہیں۔ بڑے بڑے درختوں میں پھول اور پتے نظر آنے لگتے ہیں۔ اس اسپیس میں ایک تسلسل ہوتا ہے۔ یہ تسلسل صدیوں تک قائم رہتا ہے، کبھی برسوں تک رہتا ہے، کبھی مہینوں تک رہتا ہے، کبھی گھنٹوں تک رہتا ہے اور کبھی منٹوں اور سیکنڈوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ اگر امید کی اسپیس میں تسلسل نہ ہوتا تو دنیا میں تبدیلی نظر نہ آتی۔ اس کے برخلاف خوف کی اسپیس صرف پردے کے پیچھے بتاتی ہے، ذہن کے اوپر ایسا اثر کرتی ہے کہ سب حواس ایک طرف لگ جاتے ہیں۔ ایسی حالت جاگنے میں بھی ہوتی ہے مگر فرق اتنا ہے کہ اس حالت میں تسلسل ہوتا ہے۔ خوف ایک اسپیس ہے جو ذہن کے اندر داخل ہو کر نظروں کو پھراتی ہے اور حواس کو مفلوج کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اس اسپیس میں جو کچھ ہے اسے ہم دیکھتے ہیں۔ اس کو کھاتے ہیں، اس کو پہنتے ہیں، اسی کو سونگھتے ہیں، اسی کو سوچتے ہیں، اس طرح اس کے اندر گم ہو جاتے ہیں، گم ہونے کے بعد ایک خاص بات ہوتی ہے کہ یہ اسپیس زمانہ حال سے کٹ جاتی ہے۔ کبھی مستقبل میں یا کبھی کبھار زمانہ حال میں بھی لے جاتی ہے۔ جہاں زمانہ حال میں لے جاتی ہے تو وہاں وقت کا فرق نہیں رہتا۔ صرف جگہ کا فرق ہوتا ہے۔ صرف جگہ بدل جاتی ہے، پھر وہ ایک ہزار میل ہو کہ دو ہزار میل جب کٹ کے ماضی میں جاتا ہے تو وقت اور فاصلہ دونوں بدل جاتے ہیں۔ پھر تو وہ ایک سو سال پہلے، یا پانچ سو سال پہلے یا ایک ہزار سال پہلے ہو، جب وہ مستقبل میں لے جاتی ہے تو وقت اور جگہ دونوں بدل جاتے ہیں اس اسپیس کی گہرائی میں اتنی بہت طاقت ہے کہ انسان پرانے زمانے میں یا آنے والے زمانہ میں عملی طور پر پہنچ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک عمر گزار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان ماضی میں چلا جاتا ہے۔ پانچ سو سال پہلے کے انسانوں میں کھاتا ہے، پیتا ہے، چلتا ہے، پھرتا ہے، شادی کرتا ہے مگر اس اسپیس میں تسلسل ہونا شرط ہے۔ جب تسلسل ہو جاتا ہے تو انسان ماضی یا مستقبل پچاس سے سو سال بھی گزار دیتا ہے مگر ماضی یا مستقبل دونوں سے جب واپس آتا ہے تو اسی سیکنڈ میں آتا ہے جس سیکنڈ میں گیا تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کسی اسپیس میں ٹائم نہیں ہے اور ہر اسپیس کا ٹائم الگ الگ ہے۔

خوف کی اسپیس سے مراد دنیا کا خوف نہیں ہے۔ آپ یہ بالکل خیال نہ کریں کہ اس کے دل میں دنیا کے نفع و نقصان کا خوف ہے۔ اسے اللہ کا خوف ہے۔ یعنی اسے ان دیکھی طاقت کا خوف ہے جسے اس نے دیکھا نہیں ہے۔ دنیا کے نفع و نقصان کے خوف کو خوف نہیں کہتے۔ وہ تو ایک قسم کی کمزوری ہے جو دنیا کے نفع و نقصان کی صورت اپنا لیتی ہے۔ حقیقت میں خوف ان دیکھی طاقت کا خوف ہے۔ یہ خوف ہی ایسی اسپیس ہے جو انسان کو پردہ کے پیچھے لے جاتی ہے اور بہت سی چیزیں بتاتی ہے۔

عالم ناسوت میں (مادی دنیا) خوف کے اندر تسلسل بہت کم ہوتا ہے۔ مگر امید میں تسلسل بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یادداشت دونوں حالتوں میں کچھ نہ کچھ کام کرتی ہے۔ یادداشت خود ایک الگ اسپیس ہے، جس میں خوف اور امید کے اندر مستقبل میں ہونے والی سب اشیاء کی تحریر ہوتی ہے۔ مگر سب چیزیں یادداشت واپس نہیں کرتیں۔ کبھی کبھار تو اچانک کوئی چیز یاد آ جاتی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوشش کے باوجود بھی کچھ یاد نہیں آتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یادداشت کی اسپیس میں ارادے سے ہمیشہ ایسی حرکت نہیں ہوتی جس سے کہ سب تحریریں سامنے آ جائیں۔ اکثر اوقات گہرائی میں جب یادداشت کی اسپیس حرکت کرتی ہے تو اسے طاقتور محرک کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر طاقتور محرک نہ ملے گا یادداشت کی اسپیس حرکت نہیں کر سکتی۔ نتیجتاً یادداشت وہ تحریر یا (RECORD) واپس نہیں کرتی جو موجود ہے۔ مگر ایک بات اور بھی ہے کہ یادداشت کی اسپیس امید کی حالت میں زیادہ تسلسل رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بات کے بعد دوسری بات، ایک واقعہ کے بعد دوسرا واقعہ اور ایک فعل کے بعد دوسرا فعل سامنے آتا رہتا ہے۔

جملوں کو جوڑنے والے دماغ کا گیٹ ان افعال کو جوڑ کر ایک معنی پیدا کرتا ہے۔ اس معنی سے ایک قابل قبول بات پیدا ہوتی ہے۔ 

حالانکہ یادداشت میں ہر بات کا الگ الگ(RECORD) ہوتا ہے مگر دماغ کا گیٹ انہیں جملہ کی شکل دیتا ہے۔ یہاں تک کہ کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ ایک کتاب میں عموماً ایک مضمون ہوتا ہے یعنی کہ ہنر کے لحاظ سے ایک کتاب ایک مضمون کے بارے میں لکھی جاتی ہے، حالانکہ یادداشت کی اسپیس میں بہت سارے مضمون ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کتابوں میں ابواب رکھے جاتے ہیں جن میں پیراگراف ہوتے ہیں۔ دماغ کے (GATES) کتنے ہی خیالوں کو جوڑ کر ایک جملہ بناتے ہیں۔ یہ جملہ ایک محدود لمبائی کا ہوتا ہے۔ اسے اس سے زیادہ لمبا کرنا دماغ کے گیٹ کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ ایسے دماغ کے (GATES) جو دخان کی کیفیت پیدا کرتے ہیں ان کا اثر دھویں کی طرح پھیل جاتا ہے تو جہاں تک یہ دھوں پھیلتا ہے اور اس طرح پھیلتا ہے کہ حافظہ کو سمجھنے والا ذہن اسے پڑھ سکے اور سمجھ سکے، اس کے بعد بھی وہ تحریر اپنی جگہ قائم رہے۔

اگر وہ تحریر کو یادداشت سے ایک مرتبہ واپس لینا چاہے تو ملے گی اور اگر ایک ہزار دفعہ واپس لینا چاہیں تو بھی ملے گی۔ اگر یادداشت تحریر کو واپس نہیں کرتی یا تو جملہ کا آگے بڑھانا مشکل لگتا ہے تو ذہن وقف کی علامت سے کام لیتا ہے جو اسے جملہ پورا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ یادداشت کی طاقت کو بڑھا کر جملہ میں تبدیل کرتے ہیں اور یادداشت اس جملہ کو پڑھ سکتی ہے۔ یادداشت کی اسپیس صرف یہ کام ہی نہیں کرتی مگر وہ اس اسپیس کے ریکارڈ کو طے کر کے جمع کرتی رہتی ہے۔ اور مائیکروفلم کی شکل دے دیتی ہے۔ 

یادداشت کی اسپیس کا دیگر کام یہ بھی ہے کہ ضرورت پڑنے پر مائیکروفلم کو فوراً انلارج (ENLARGE) کر دے، پھر دماغ کا گیٹ جملہ کی صورت میں اسے پڑھ سکے۔ یادداشت کی اسپیس کا تیسرا کام اسے (GATES) میں تقسیم کرنا ہے یعنی وہ الٹا کرتی ہے، نتیجہ سے فعل میں لاتی ہے، فعل سے حرکت میں، حرکت سے احساس میں، احساس سے خیال میں اور خیال سے وہم میں۔ وہم میں آنے کے بعد وہ علامات وقف کی شکلیں لے لیتی ہیں اور اس جملہ کی منشاء صرف رنج یا خوشی کو بھول جانے کی ہوتی ہے۔

یادداشت کی اسپیس کا چوتھا کام یہ ہے کہ وہ وقف کی علامات وغیرہ کو وہم میں اور وہم سے خیال میں اور خیال سے احساس میں، احساس سے حرکت میں اور حرکت سے عمل میں تبدیل کرتا ہے، یہاں تک صرف ماضی کے ساتھ رشتہ ہے۔ ماضی یعنی کچھ سیکنڈوں پہلے کا زمانہ حال یہاں یادداشت کی اسپیس جو علامات وقف لگاتی ہے اس کے معنی صرف استعجاب اور سکوت اور خاموشی ہوتا ہے۔

یادداشت کی اسپیس کا پانچواں کام یہ ہے کہ وہ مستقبل کے متعلق خیالات کو چھیڑتی ہے اور پھیلاتی ہے۔ چھٹا کام یہ ہے کہ یادداشت چھٹی حس بھی پیدا کر دیتی ہے۔ جو اس طرف کے دماغ کے مختلف (GATES) کو جمع کر کے ایک جملہ بنا دیتی ہے۔ 

جس کے کچھ معنی ہوتے ہیں اور اسی حس کو چھٹی حس (SIXTH SENSE) کہتے ہیں۔ یہ کوئی غیب کا علم نہیں ہے مگر ہر انسان میں اس طاقت کی ہستی موجود ہے۔ یہ صرف حافظہ کی اسپیس کا کرشمہ ہے۔



Qudrat Ki Space

حضورقلندربابااولیاء

پیش لفظ

سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔

ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔

نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔

یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔

قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا