Topics

ذہن

انسان کا جاگتا ہوا ذہن (شعور) سامنے ہوتا ہے اور سویا ہوا ذہن(لاشعور) پیچھے ہوتا ہے۔ لاشعور میں ٹائم اور اسپیس‘ وقت اور جگہ بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ انسان کا سانس‘ شعور اور لاشعور کے بیچ میں گھومتا رہتا ہے۔ وہ اس طرح گھومتا ہے کہ شعور میں جاگتا ہے اور لاشعور میں جاگتا نہیں ہے۔ لاشعور کو جو علم حاصل ہے وہ شعور کو حاصل نہیں ہوتا۔ شعور اور لاشعور دونوں مسلسل ہیں۔ 

سانس ہمیشہ دائرہ کی شکل میں چلتا ہے۔ سانس کا دائرہ لاشعور میں پورا ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے یہ دائرہ ٹوٹ جائے تو انسان مر جاتا ہے۔ 

سادھو لوگ لاشعور میں سانس کے دائرہ (CYCLE) کو قائم رکھتے ہیں اور شعور میں کوئی حرکت نہیں ہونے دیتے۔ اس طرح وہ اپنی زندگی میں اضافہ کر لیتے ہیں۔ سانس کو جتنا زیادہ روکا جائے گا‘ لاشعور کو اتنی ہی طاقت حاصل ہو گی۔ یعنی ذہن کے پردے کی رکاوٹ کم ہوتی چلی جائے گی۔ خواب میں یہ رکاوٹ اتنی کم ہو جاتی ہے کہ خواب نظر آنے لگتے ہیں۔

نیند جتنی گہری ہوتی ہے‘ مناظر اتنے ہی واضح (LUCID) ہوتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ گہری وضاحت یادداشت کی مدد کرتی ہے۔ جو خواب یادداشت میں تحریر ہو جاتے ہیں وہ تحت الشعور (SUB CONSCIOUS) سونے والے کے ذہن کی سطح پر رہتے ہیں۔ جو مناظر گہرے نہیں ہوتے تحت الشعور کی سطح کے نیچے چلے جاتے ہیں۔ کہنے کا منشاء یہ ہے کہ کچھ خواب یاد رہتے ہیں اور کچھ خواب یاد کرنے سے یاد آتے ہیں اور کچھ خواب یاد کرنے سے بھی یاد نہیں آتے۔ یہ وہ خواب ہیں جو تحت الشعور کی بہت ہی نچلی سطح میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔

شعور ہمیشہ لاشعور سے آتا ہے۔ جو لاشعور کی کیفیتیں ہیں وہ شعور میں چلی جاتی ہیں مگر بہت ہی کم۔ لیکن جو کیفیتیں شعور سے لاشعور میں واپس چلی جاتی ہیں وہ یادداشت میں تحریر ہو جاتی ہیں اس کو بھی تحت الشعور کہتے ہیں۔ تحت الشعور‘ لاشعور کا ہی حصہ مانا جاتا ہے۔

لاشعور کو انسان محسوس نہیں کرتا۔ لاشعور میں ساری تحریر موجود ہوتی ہے یعنی انفرادی اور اجتماعی دونوں تحریریں لاشعور میں موجود ہیں۔ لاشعور میں پوری کائنات ہے ماضی‘ حال اور مستقبل تینوں زمانے اس میں موجود ہیں۔ درمیانی پردے کو آدمی کوشش اور ریاضت کے بغیر نہیں ہٹا سکتا۔

زہد کا جذبہ جتنا مضبوط ہو گا‘ لاشعور اتنا ہی قوی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ اللہ کے لئے تقویٰ اختیار کرنا، لاشعور کو طاقت دیتا ہے۔ آپ جتنا تقویٰ اختیار کریں گے لاشعور اتنا ہی قوی بنے گا۔ یہ روحانی لوگوں کا مسلک ہے جو زہد پر عمل پیرا ہیں۔ تقویٰ کے بغیر انسان کا پلڑا خالی رہتا ہے یعنی کہ تقویٰ کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس چھوٹے جملے میں کہ روزہ میرے لئے ہے تقویٰ کی ہدایت کی گئی یعنی کہ آپ جتنا تقویٰ اختیار کریں گے لاشعور اتنا ہی طاقتور ہو گا‘ روحانی لوگ تقویٰ پر عمل پیرا ہو کر طاقت حاصل کرتے ہیں۔

نیند ایک پردہ ہے‘ کسی نے اس پردے کو دیکھا نہیں ہے۔ حقیقت میں یہ ایک خول کی حیثیت رکھتا ہےجو انسان کو ہر طرف سے ڈھانپ لیتا ہے۔ یہی پردہ خدا اور بندے کے بیچ میں آڑ بن جاتا ہے۔ دراصل ہم نیند کے خول کے نیچے چلتے پھرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جاگ رہے ہیں مگر ہم جاگتے نہیں ہیں۔ پردے کو کاٹنے کے لئے جاگتے رہنے کی مشق کرنی چاہئے۔ جاگتے رہنے سے آنکھوں پر سے نیند کا خول کٹ جاتا ہے۔

جب انسان نیند میں سے اٹھتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ جاگ اٹھا ہے۔ مگر حقیقت میں وہ جاگا ہوا نہیں ہوتا وہ سویا ہوا ہی ہوتا ہے۔ وہ کھلی آنکھوں سے بھی سوتا ہے اور بند آنکھوں سے بھی۔ کھلی آنکھوں سے میری مراد جاگنے کی حالت ہے۔ اس کی تمام کیفیات وہی ہوتی ہیں جو جاگنے کی حالت میں ہوتی ہیں فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ جاگنے کی حالت میں جو دیکھتا ہے۔ سنتا ہے اس کا سیاق و سباق کسی نہ کسی طرح پا لیتا ہے لیکن جو باتیں وہ خواب میں دیکھتا ہے اور سنتا ہے ان کا سیاق و سباق ملانے کی اسے مشق اور عادت نہیں ہوتی۔ 

اس لئے جو باتیں وہ خواب میں سنتا ہے دیکھتا ہے۔ اسے بے جوڑ سمجھتا ہے اور ان باتوں کو خواب کہہ کر انکار کر دیتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان ایک خواب نیند میں بند آنکھوں سے اور دوسرا خواب کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے جس کا نام جاگنے کی حالت ہے۔

جب لاشعور بیدار نہیں ہے تو وہ خواب ہے۔ خواب میں عمر صرف کرنی بھی خواب ہے۔ پردے کے پیچھے وقت کا احساس نہیں۔ 

خواب میں پردے ہلکے ہو جاتے ہیں اس لئے انسان اسے دھوکا سمجھتا ہے حالانکہ اس حالت میں وہ دن رات ہوتا ہے۔


زندگی ایک خواب کی مانند ہے اس میں وقت نہیں ہے۔ مگر (جگہ) رفتار کو انسان وقت بنا لیتا ہے۔ یعنی کہ 23سیکنڈ کے اندر اسپیس بدلتی ہے، اسی بدلنے کے فعل کا نام اس نے ٹائم رکھا ہے۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ٹائم اسپیس کے ساتھ معلق ہے اور اسی لئے ہر اسپیس کا ٹائم الگ الگ ہوتا ہے۔



Qudrat Ki Space

حضورقلندربابااولیاء

پیش لفظ

سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔

ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔

نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔

یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔

قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا