Topics
یاد رہے کہ اسپیس میں کوئی سمت نہیں ہے جیسا کہ ہمیں لگتا ہے۔ مثال کے طور پر جنوب، شمال، مشرق، مغرب، اوپر، نیچے وغیرہ ہمارے وسوسے کی پیداوار ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
لا شرقیہ ولا غربیہ
ان الفاظ میں سمتوں کا انکار ہے اور وہ ہمارے تخیل کا ہی نتیجہ ہیں ایسا بتایا گیا ہے۔ حقیقت میں ہم غلط سمجھتے ہیں کہ اسپیس میں کوئی سمت موجود ہے۔ اب آپ یہ سوچیں گے کہ ایک عارض ایک ہی وقت میں چھ سمتوں میں پھرا کرتا ہے اور کائنات کی چھ سمتوں کو (COVER) کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال ریڈیو موجود ہے۔ اس میں دو سیٹ ہوتے ہیں ایک سیٹ آواز کو بجلی کی لہروں میں تبدیل کرتا ہے اور دوسرا سیٹ بجلی کی لہروں کو آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ دونوں سیٹ ایک جگہ پر نہیں ہوتے مگر ایک ٹرانسمیشن اسٹیشن ہوتا ہے اور ایک ریڈیو (RECEIVER) ہوتا ہے۔ جب ہم بولتے ہیں تو ٹرانسمیشن اسٹیشن اسے ایسی لہروں میں تبدیل کرتا ہے جن کا تعلق کاربن والے فوٹان سے ہوتا ہے اور وہ چھ سمتوں پر پوری کائنات کا کونہ کونہ (COVER) کر لیتا ہے۔ یعنی کوئی نقشہ ایسا نہیں رہتا جس پر عارض کا اثر نہ ہوا۔ اثر سے مراد ریکارڈ ہے جو سننے کے ساتھ ہی غائب ہو جاتا ہے۔ ریکارڈ ریسوینگ سیٹ کے عارض سے ٹکرا کر ساری کائنات میں پھیل جاتا ہے اور ہم جہاں چاہیں سن سکتے ہیں، حقیقت میں یہ ایک اسپیس نہیں مگر دو ہیں۔ ایک سننے کی اسپیس ہے اور ایک بولنے کی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس میں وقت موجود نہیں۔ بولنے کی اسپیس کے ساتھ جب تک سننے کی اسپیس ایک رہتی ہے وہاں تک ہمیں سنائی دیتا ہے۔ جب دونوں اسپیس الگ الگ ہو جاتی ہیں تو ہم سن نہیں سکتے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر فرد کے سننے کی اسپیس الگ ہے۔ چاہے اس میں کتنے ہی افراد ہوں یا ایک پورا گروہ ہو۔ جب تک سب کی سننے کی اسپیس ایک ہے تو سب سن سکتے ہیں۔ مگر یہ بھی قابل غور بات ہے کہ بولنے کی اسپیس اگر زیادہ ہو یعنی ایک فرد سے زیادہ انسان بول رہے ہوں تو وہ اسپیس کو فرد یا گروہ کے سننے کی اسپیس پکڑ میں نہیں لا سکتے۔ اس سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ دونوں اسپیس سننے کی اور بولنے کی الگ الگ ہیں۔ یہ اسپیس جس طرح الگ الگ ہیں اسی طرح دیگر سب اسپیس بھی الگ الگ ہیں۔ پھر چاہے نیند ہو چاہے جاگنے کی حالت۔
جب نیند یا جاگنے کی حالت میں کچھ اسپیس اکٹھی ہو جائیں تو انسان پردے کے پیچھے دیکھنے لگتا ہے۔ کچھ اسپیس اکٹھی ہو جانے سے مراد دیکھنے کی اسپیس‘ سننے کی اسپیس‘ سونگھنے کی اسپیس‘ چکھنے کی اسپیس‘ بولنے کی اسپیس اور سوچنے کی اسپیس وغیرہ ہیں۔ جب یہ سب اسپیس اکٹھی ہو جائیں تو ایک ایسی اسپیس بنے گی کہ جو دماغ کے (GATES) کو کھول دیتی ہے۔ جو پردے کے پیچھے دیکھ سکتی ہے۔ شروع شروع میں یہ غیر ارادی طور پر ہوتا ہے‘ مسلسل نہیں ہوتا۔ آہستہ آہستہ اپنے ارادے کے تحت دیکھنے لگتا ہے اور ان GATES کی آواز جو اوپن ہوں، سمجھنے لگتا ہے اور ساتھ ساتھ ان GATESکو کھولنے کی طاقت بھی حاصل کر لیتا ہے جو GATESجملے بناتے ہیں، انہیں انسان سنتا ہے‘ دیکھنے والی اسپیس میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ شروع شروع میں جو کچھ اسپیس کے اندر ہے وہ الگ الگ دکھائی دیتا ہے۔ اور پھر مسلسل ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جو کچھ دیکھتے ہیں اسے سن بھی رہے ہوتے ہیں۔ اب اسے ماحول میں کاربن کی اسپیس کے اندر فرشتے نظر آنے لگتے ہیں۔ اگر کاربن کی مقدار کم ہو تو الگ الگ فرشتوں کو وہ دیکھتا ہے۔ ان کی بات چیت اس کے کان میں آتی ہے اور ’’جویہ‘‘ یعنی مترجم اس فرد کی زبان میں اس کا ترجمہ کر دیتا ہے۔
یہ بات نوٹ کر لیں کہ جتنے رنگ ہمیں ماحول میں یا درختوں میں یا جانور میں یا انسانوں میں یا مٹی میں نظر آتے ہیں وہ سب کے سب کاربن کے ہی رنگ ہیں، جیسے کہ پہلے کہا جا چکا ہے۔ کاربن اور عارض کا میدان مل کر ایک قسم کا (PRISM) (منشور) بن جاتا ہے۔ یہ رنگ سچے نہیں ہیں مگر پرزم کی کاریگری ہیں۔ دیگر الفاظ میں یہ کہ کاربن اور عارض مل کر جو میدان تیار ہوتا ہے۔ اس میں رنگ ہی رنگ پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ وہی رنگ ہیں جو ہمیں نظر آتے ہیں۔ رنگوں کا دارومدار ان ایٹموں پر ہے جو اکٹھے ہو گئے ہیں اور ڈائی مینشن بھی انہی ایٹموں کی مقدار سے متعلق ہوتا ہے جو اکٹھے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی فرد کی آنکھیں بڑی ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس شخص کی آنکھوں کے کاربن اور عارض سے جو اسپیس بنتی ہے وہ زیادہ ہے یعنی کہ ایٹموں کا جتھہ (CLUSTER) بڑا ہو گیا ہے اگر کسی شخص کی آنکھیں چھوٹی ہیں تو معنی یہ ہوئے کہ اسپیس کم ہے۔
دانتوں کی اسپیس کا دارومدار بھی ایٹموں کی تعداد پر ہے۔ ان کی سختی یا نرمی‘ بڑا ہونا یا چھوٹا ہونا اس بات سے متعلق ہے کہ اس میں ایٹموں کی تعداد کتنی صرف ہوئی ہے۔ اگر کسی فرد کے دانت نہیں ہیں تو اس کے منہ کے مزہ میں فرق آ جائے گا۔ اگر سب دانت مصنوعی ہیں تو اصل مزہ نہیں آ سکتا۔ جو اصل دانتوں سے آتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصلی دانتوں کے مسوڑھوں میں ایٹموں کا مجموعہ ہوتا ہے، مگر مصنوعی دانت اپنے ایٹموں کو مسوڑھوں سے کچھ نہ کچھ حد تک الگ رکھتے ہیں۔ جس سے ایک GAPپیدا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اصل مزہ جاتا رہتا ہے۔
یہی مسئلہ کان کے ساتھ ہے‘ کان کے اندرونی پردے پر جو ایٹم روئین کی شکل اختیار کرتے ہیں اگر کسی وجہ سے وہ کمزور ہو جائیں یا ضرورت سے زیادہ موٹے ہو جائیں تو جھنجھناہٹ (VIBRATIONS) میں خامی آ جائے گی اور سننے میں یا تو رکاوٹ ہو گی یا بالکل نہیں سنا جا سکے گا۔
اس سے یہ ہو گا کہ GATESنے سن کر حافظہ میں جو ریکارڈ جمع کیا ہے وہ سسپینڈ (SUSPEND) ہو جائے گا یا رک جائے گا اور نتیجہ کے طور پر حافظہ اس ریکارڈ کو واپس نہیں دے گا جو دماغ کے پردے پر اتنا ہلکا آتا ہے کہ دماغ کے حواس اسے پڑھ نہیں سکتے اور زبان اسے بول نہیں سکتی۔ ایسا شخص گونگا، بہرہ کہلاتا ہے۔ اگر بہرہ پن کسی طریقہ سے دور کیا جائے تو وہ بولنے بھی لگ جائے گا۔ یہ علاج ذرا مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔
علاج:
ایک کاغذ پر کان کی پوری تصویر بنائیں۔ بیچ میں جس جگہ پر سوراخ(OVAL WINDOW) ہے اسے کاٹ دیا جائے۔
اب جتنی جگہ کاٹی گئی ہے اس سے تھوڑا بڑا کاغذ کا ٹکڑا لے کر اس ٹکڑے کے اوپر بالکل قریب قریب نقطے لگائیں۔ چاہے پنسل سے چاہے قلم سے ۔ اب اس ٹکڑے کو سوراخ کے نیچے رکھ کر گوند سے چپکا دیں۔ پھر دونوں کان کاغذ پر چپکا کر ایک لفافہ میں ڈال دیئے جائیں۔ اس لفافہ کو بٹر پیپر (BUTTER PAPER) کی تھیلی میں ڈال کر بٹر پیپر کا منہ بند کر دیا جائے۔ (قبر جیسا بنا لیا جائے) اور اسے گونگے، بہرے شخص کے تکیے کے نیچے رکھا جائے جب وہ شخص لیٹے یا سوئے تو اسی تکیہ پر اپنا سر رکھے۔ انشاء اللہ کان ٹھیک ہو جائیں گے۔ اور(SUB CONSIOUS) کا ریکارڈ زبان بولنے لگے گی۔ خیال رہے کہ یہ سب اسپیس کان، ناک، ہاتھ، زبان وغیرہ نہیں مگر ایک سایہ جو نورانی ہے اور نظر نہیں آتا۔ اس سایہ کو ہم چہرے کی شکل میں دیکھتے ہیں۔
ڈائی مینشن کاربن کی مقدار سے متعلق ہیں۔ اس لئے کہ کاربن ایٹموں کو جمع کرتا ہے۔ اس بات کا ایسے پتہ چلا کہ ہاتھ کی اسپیس حرکت میں نہ آئے یعنی کہ وہ سایہ جو کاربن کا بنا ہوا ہے اور نورانی ہے۔ ہاتھ سے ایک بال بھر بھی الگ ہو جائے تو ہاتھ نکمہ ہو جائے گا۔ بیچ میں جو خلاء ہے وہ خلاء اگر اسپیس کی شعاعوں کو روک دے تو حواس میں بدن کی حرکت رک جائے گی۔ اس درمیانی چیز کو نسمہ کہتے ہیں۔ جو بدن کے چاروں طرف ایک فٹ لگا ہوا ہے۔ اگر آدھے بدن کے حصے میں اس کا اثر ہو جائے تو فالج کہلائے گا۔ یہ بات مثال دے کر سمجھائی جا رہی ہے۔ یونانی خواص کی بات چیت ضروری نہیں۔
اب یہ سمجھئے کہ انسان ہو یا جانور ہو یا درخت ہو یا پودا ہو یا کوئی ستارہ ہو یا کوئی سیارہ ہو، وہ کاربن ہی کا بنا ہوا ہے، یعنی اس میں ہزاروں تہہ ہوتی ہیں کبھی کبھار لاکھوں تہہ بھی ہوتی ہیں۔
کیڑا ایک چھوٹے سے چھوٹا جاندار ہے مگر وہ بھی ہزاروں تہہ کا بنا ہوا ہے۔ یہ ساری تہیں اسپیس کی ہیں۔ جس اسپیس میں کیڑے کا جسم ہے۔ کیڑا وقت کا حساب لگاتا ہے۔ پل دو پل، منٹ، دو منٹ، گھنٹے، دو گھنٹے، چار گھنٹے، چھ گھنٹے یا اس سے زیادہ مدت۔ اس بات کو سمجھنے میں بہت باریکی ہے۔ وہ ہر سیکنڈ میں دوسرا قدم، تیسرے سیکنڈ میں تیسرا قدم، چوتھے سیکنڈ میں چوتھا قدم اور پانچویں سیکنڈ میں جب قدم اٹھاتا ہے تو اب سمجھیں کہ وہ جوان ہو گیا۔ سیکنڈ سے میری مراد وقت کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ ہے۔ اب آپ اندازہ کریں کہ ہمارا چھوٹے سے چھوٹا وقت کیڑے کے چھوٹے سے چھوٹے وقت سے کتنا بڑا ہے۔ کیونکہ ہماری اسپیس زیادہ ایٹموں کی بنی ہوئی ہے۔ ٹائم کی اس باریکی کو آپ ذرا سوچیں۔ ہمارا بڑے سے بڑا وقت وہیل مچھلی کے چھوٹے سے چھوٹے وقت سے کتنا بڑا ہے۔ شاید اب آپ وقت کی باریکی اور اس کا اسپیس سے رشتہ سمجھ گئے ہوں گے۔
دنیا کے اول دور میں ڈائنا سار (DINOSAURS) اتنا بڑا جانور تھا کہ اس کےچھوٹے سے چھوٹے بچے کی معمولی خوراک یعنی کچھ لقمہ تھوڑے سے ہاتھی بنتے تھے۔ مگر نتیجہ میں یہ زمین پر سے ختم ہو گئے۔ اس لئے کہ ان کے رہنے کے لئے اسپیس نہیں تھی۔ شروع شروع میں زمین پر جتنی اسپیس تھی وہ سب صرف ہو گئی۔ جیسے جیسے ڈائنا سور کی نسل بڑھتی گئی۔ اسپیس کم ہوتی گئی اور نتیجہ کے طور پر ڈائنو سار ختم ہو گئے۔ موجودہ دور میں بھی بڑے بڑے جانور آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں کیونکہ چھوٹے جانور اور انسانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اب جتنی اسپیس ان کے استعمال کے بعد بچتی ہے اتنی اسپیس میں بڑے جانور پیدا ہوتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر ان کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہاتھی، گینڈا شیر وغیرہ وغیرہ۔ آخر میں کوئی نہ کوئی جنگ ایسی چھڑے گی جس میں انسان اور چھوٹے جانوروں کی تعداد کم سے کم ہو جائے گی۔ اس لئے کہ اسپیس میں جب ان کی گنجائش نہیں رہتی تو اسپیس کا قانون انہیں ختم کر دیتا ہے۔ جیسے کہ بڑے جانور ختم ہو گئے۔
حضورقلندربابااولیاء
پیش لفظ
سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔
ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔
نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔
یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔
قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا